ہر شخص تھا مدحت کناں جس شام کا ۔۔۔۔ آرا اور برائے تنقید و اصلاح

استادمحترم جناب اسامہ سرسری صاحب کی اصلاح کےبعدغزل دیگراساتذہ اوراحباب کی آرا، ان سے رہنمائی اورتنقیدکےلئےپیش ہے...
منتظررہونگا...

ہر شخص تھا مدحت کناں جس شام کا
دن تھا مرے خوابوں کے قتل ِ عام کا

ناصر جسے سمجھے تھے ہم، پایا اسے
ہمدرد، اپنا یار، خالی نام کا

درویش کو دنیا جچی کوئی نہیں
مارا ہوا ہے اک نگاہ ِ بام کا

برسوں سے تھا جو دل میں، ساتھی ہم بھی اب
کر کے اٹھے سودا خیال ِ خام کا

جب ساتھ تھی وہ مہ جبیں وہ ہم نشیں
اک چاند سا روشن تھا حسن ِ تام کا


شب بھر تھا وہ پہلو نشیں ساقی مرا
کل اِذن تھا گویا خطائے ِعام کا

جب لب کشا ہو حسن دل آرا کبھی
بس اک بہے نغمہ سرودِ شام کا
.... ..... (آرا کا منتظر --- سرود ---- ساز کا نام )

جس پر پڑی کافر تری پیاری نظر
خادم ترے در پر ہوا بے دام کا

تشبیہ کاشف گل سے دی اس کو کبھی
کچھ اور نکھرا رنگ اس گلفام کا
 
Top