نظیر ہر آن ہنسی ہر آن خوشی ہر وقت امیری ہے بابا

یاسر شاہ

محفلین
مستیِ عشق

ہے چاہ فقط اک دلبر کی پھر اور کسی کی چاہ نہیں
اک راہ اسی سے رکھتے ہیں پھر اور کسی سے راہ نہیں
یاں جتنا رنج و تردد ہے ہم ایک سے بھی آگاہ نہیں
کچھ مرنے کا سندیہ نہیں کچھ جینے کی پرواہ نہیں

ہر آن ہنسی ہر آن خوشی ہر وقت امیری ہے بابا
جب عاشق مست فقیر ہوئے پھر کیا دلگیری ہے بابا

کچھ ظلم نہیں کچھ زور نہیں کچھ داد نہیں فریاد نہیں
کچھ قید نہیں کچھ بند نہیں کچھ جبر نہیں آزاد نہیں
شاگرد نہیں استاد نہیں ویران نہیں آباد نہیں
ہیں جتنی باتیں دنیا کی سب بھول گئے کچھ یاد نہیں

ہر آن ہنسی ہر آن خوشی ہر وقت امیری ہے بابا
جب عاشق مست فقیر ہوئے پھر کیا دلگیری ہے بابا

جس سمت نظر بھر دیکھے ہیں اس دلبر کی پھلواری ہے
کہیں سبزی کی ہریالی ہے کہیں پھولوں کی گلکاری ہے
دن رات مگن خوش بیٹھے ہیں اور آس اسی کی بھاری ہے
بس آپ ہی وہ داتاری ہے اور آپ ہی وہ بھنڈاری ہے

ہر آن ہنسی ہر آن خوشی ہر وقت امیری ہے بابا
جب عاشق مست فقیر ہوئے پھر کیا دلگیری ہے بابا

ہم چاکر جس کے حسن کے ہیں وہ دلبر سب سے اعلیٰ ہے
اس نے ہی ہم کو جی بخشا اس نے ہی ہم کو پالا ہے
دل اپنا بھولا بھالا ہے اور عشق بڑا متوالا ہے
کیا کہیے اب نظیر آگے اب کون سمجھنے والا ہے

ہر آن ہنسی ہر آن خوشی ہر وقت امیری ہے بابا
جب عاشق مست فقیر ہوئے پھر کیا دلگیری ہے بابا
 
Top