گھور گھٹائیں، تیز ہوائیں، رات کڑی ہے،اسلم کولسری

گھور گھٹائیں، تیز ہوائیں، رات کڑی ہے
ٹھنڈے آتش دان پہ اک تصویر پڑی ہے
دیکھا تھا اک شام کسی کا شام سا چہرہ
اب تک بھیگی آنکھوں میں وہ شام کھڑی ہے
ٹوٹے پھوٹے شعر نہیں، سوکھے پتے ہیں
یعنی خواب شجر کی ہر اک شاخ جھڑی ہے
سوچ میں ہے اک لمحہ تیرے ہجر کا لمحہ
تتلی کے سینے میں جلتی میخ گڑی ہے
اکثر چاہا، دل میں آس ہری ہو جائے
اکثرا نگارے میں اوس کی بوند جڑی ہے
ان آنکھوں سے دور اک روشن دروازے تک
آج بھی آنسو آنسو بکھری دیپ لڑی ہے
جس کا انجام ہے نہ کوئی تانا بانا
اسلم اسی کہانی کی بے نام کڑی ہے
 
Top