گودھرا ٹرین واقعہ سے متعلق بھارتی عدالتی فیصلہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے…؟

ٹھیک 9 سال پہلے 28 فروری 2002ء کو بھارتی ریاستی گجرات کے گودھرا کے مقام پر ایک ٹرین جلائی گئی تھی جس کا نام ’’سابرمتی‘‘ تھا۔ اس ٹرین میں ایودھیا کے بابری مسجد والے مقام سے واپس آنے والے ہندو سوار تھے۔ ٹرین جلنے کے نتیجے میں 59 ہندو جل کر مر گئے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوئوں نے مسلمانوں پر اس سب کا الزام دھر دیا اور پھر گجرات میں نریندرا مودی حکومت کی مکمل حمایت، تعاون اور مدد سے ہندوئوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 25 ہزار سے زائد مسلمانوں کو ان کے بیوی بچوں اور بوڑھوں سمیت، گھروں اور دکانوں میں گھیر گھیر کر جلا دیا گیا۔ لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے، ہزاروں جانیں بچانے کے لئے ملک بھر میں پھیل گئے۔ مسلمانوں کی ہزاروں املاک لوٹ مار کے بعد جلا دی گئی۔ ہندوئوں نے ایک محتاط اندازے اور عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق چھ سو سے زائد مساجد کو بھی شہید کر ڈالا۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ 50 ہزار سے زائد مسلمان بے سروسامان اور بے خانماں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جھونپڑوں میں زندگی کی سانسیں پوری کر رہے ہیں، ان کے بچے سکول جانے کی بجائے کاغذ چنتے، بیچتے اور زندگی کی ڈور سے بندھے رہنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
ان واقعات کے دوران ہی نریندرا مودی سرکار نے سینکڑوں مسلمانوں کو ٹرین جلانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جن میں سے کچھ وقفے وقفے سے رہا ہوتے رہے لیکن 98 افراد جیلوں میں بچ گئے جن میں سے 62 مسلمان 24 فروری کو بے گناہ قرار دیکر رہا کر دیئے گئے۔ چند مسلمان ایسے بھی تھے جو جیل میں پڑے پڑے فوت ہو کر قبروں میں اتر گئے۔ ایک ہفتہ بعد یعنی یکم مارچ 2011ء کو بھارتی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا دوسرا فیصلہ سنا دیا جس کے مطابق 11 مسلمانوں کو سزائے موت جبکہ 20 کو عمر قید سنائی گئی۔
اس فیصلے سے کئی پہلو انتہائی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس مقدمے میں شامل ایک شخص پیدائشی نابینا ہے۔ کئی گرفتارشدگان کے وقت معصوم بچے اور نابالغ تھے جن کے بالغ ہونے کا انتظار کیا گیا پھر سزا سنائی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ پہلے کی عدالتی اور غیرعدالتی تحقیقات میں بار بار یہ بات ثابت ہوئی کہ ٹرین مسلمانوں نے نہیں جلائی تھی بلکہ ٹرین بوگی کے اندر موجود آتش گیر مادے (مٹی کے تیل) کی وجہ سے جلی جسے سگریٹ سے آگ لگی تھی، لیکن آخر میں آ کر وہ ساری تحقیقات ایک طرف رکھ کر مسلمانوں کو سزا دے دی گئی اور بے گناہ قرار پانے والے 62 مسلمانوں کے حق میں بھی ایک جملہ خیر تک نہ کیا گیا نہ کسی امداد کا اعلان ہوا۔ اس سے اہم بات یہ کہ بھارتی عدالتوں نے گجرات فسادات میں نے مسلمانوں کو تاریخ کے بدترین مظالم کا شکار بنانے والے ہندوئوں میں سے کسی ایک کو آج تک کوئی سزا نہیں سنائی۔ چند درجن ہندو ضرور گرفتار ہوئے لیکن وہ بھی کرتے کراتے جلد ہی رہا ہو گئے لیکن بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں کی گردنوں میں شکنجہ کس دیا گیا۔
اس فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کسی صورت مسلمانوں کو زندہ اور باعزت جیتا نہیں دیکھ سکتا۔ بھارت میں تقسیم ہند سے لے کر آج تک 60 ہزار مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں جن میں لاتعداد مسلمان شہید ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں تقسیم ہند کے بعد بھارت میں ہزاروں مساجد شہید کی جا چکی ہیں۔ یہ حقیقت تو بھارتی مسلمان اور ان کے رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح کے مظالم اور دہشت گردی کا وہ شکار ہیں، اس طرح کا شکار کوئی بھی نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقوام میں سے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں دو باتیں سمجھ آتی ہیں، ایک یہ کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور آج وہ مسلمان جو ہندوئوں کے شکنجے سے آزاد ہیں، انہیں اللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا چاہئے اور دوسرا یہ کہ اپنی آزادی کے تحفظ کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنے مظلوم بھارتی بھائیوں کی آزادی کے لئے بھی جدوجہد کرنا ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں اور اسلام کے ہر حکم کے پابند ہیں اور اللہ اور رسولؐ کا حکم یہ ہے کہ مظلوم مسلمانوں خصوصاً اپنے قریب کے مسلمانوں کی مدد کے لئے اور ظالم کافروں کی سرکوبی کے لئے اپنے تمام دستیاب وسائل لے کر نکل پڑو، ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس آزادی اور نعمت کے ساتھ نوازا ہے کہ ہم مظلوم مسلمانوں کی مدد اور اسلام کے غلبہ کے لئے جس طرح سے حصہ ڈالنا چاہئیں یا سرگرمی دکھانا چاہیں وہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں، یہ نعمت دنیا کے کسی مسلمان کو کسی خطے اور علاقے میں حاصل نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہ ذمہ داری پاکستانی مسلمانوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ اس قرض کو ادا کریں۔ بھارتی مسلمانوں کی آزادی کے لئے اپنا تن من دھن لگا دیں تاکہ انہیں آزادی نصیب ہو اور ہم اپنے رب کا بھی حکم پورا کریں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری آزادی بھی مضبوط و مستحکم ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی بھارت میں 28 کروڑ کی تعدا دمیں آباد ہے۔ اگر ہم انہیں آزاد کروالیں تو یہ ہماری سب سے بڑی سعادت ہو گی اور پھر ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی اور دنیا پر بھی اللہ کا دین غالب آ جائے گا۔

بشکریہ،،،، ہفت روزہ جرار

والسلام۔۔۔۔۔۔علی اوڈراجپوت
ali-oadrajput
 
Top