گرو نانک - برق دہلوی

حسان خان

لائبریرین
شمعِ جاں افروز، لعلِ شب، چراغِ معرفت
جلوہ پاشِ نورِ حق، روشن دماغِ معرفت
بے خودِ توحید، سرمستِ ایاغِ معرفت
خضرِ منزل، سالکِ کنجِ فراغِ معرفت
تیری ہستی تھی سراپا پردۂ سازِ لطیف
جس کے نغموں میں نہاں قدرت کا تھا رازِ لطیف

دل ترا آگاہ تھا توحید کے اسرار سے
قلبِ روشن تھا منور جلوۂ انوار سے
معنیِ وحدت کھلے تیرے لبِ اظہار سے
تھی نوائے راز پیدا ہر نفس کے تار سے
معجزہ دکھلا گئی تاثیرِ گویائی تری
نقشِ خاطر ہو گئی تعلیمِ یکتائی تری

سب میں ایک اونکار کا جلوہ نظر آیا تجھے
شش جہت میں حُسنِ بے پردہ نظر آیا تجھے
روکشِ خورشید ہر ذرہ نظر آیا تجھے
قطرہ ہم پیمانۂ دریا نظر آیا تجھے
تھی نگاہِ حق نِگر تیری حقیقت آشنا
منزلِ عرفاں تھا دل، تھی آنکھ وحدت آشنا

جلوۂ حُسنِ ازل سے دل ترا معمور تھا
زنگِ نقشِ ماسوا اِس آئینے سے دور تھا
شاہدِ یکتائے عالم کا نظر میں نور تھا
سر بسر کیفِ مئے توحید سے مخمور تھا
چشمِ عرفاں میں تری تھے کافر و دیندار ایک
جلوہ گر دیر و حرم میں تھا جمالِ یار ایک

تیرا در تھا فیض کا چشمہ برائے خاص و عام
ہو گئے پنجاب میں سیراب لاکھوں تشنہ کام
زندۂ جاوید ہے دارِ فنا میں تیرا نام
اہلِ دل کے واسطے اعجاز ہے تیرا کلام
مشعلِ راہِ طلب تھا اہلِ دنیا کے لیے
دھرم کا اوتار تھا تو چشمِ بینا کے لیے

(برق دہلوی)
منظومۂ نومبر ۱۹۲۴ء
 
آخری تدوین:
Top