گرم پانیوں سے قلمی دوستیوں تک کا سفر

زرقا مفتی

محفلین
x42686_30942804.jpg.pagespeed.ic.V7mmDb-Swy.jpg
 

فلک شیر

محفلین
کلاسرا صاحب نے انتہائی وسیع تناظر کے ایک قضیے کو ایک کتاب کی بنیاد پہ اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔اگر دہائیوں پر پھیلے معاملات کو ایسی اخباری تحریروں کی بنیاد پہ سمجھنےکی کوشش کی جائے، تو خطا کا احتمال غالب رہتا ہے۔
واقعات کی تصدیق و تردید متعلقہ راویوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور کلاسرا صاحب نے پوری سرد جنگ، افغان پاک آویزش اور کمیونسٹ تحریک کے پھیلاؤ کی خواہش کو یکسر ایک طرف رکھ کر اپنا تھیسس ثابت کرنے کی کمزور کوشش کی ہے۔
 
79 میں ایرانی انقلاب کے بعد امریکہ خطے میں اپنا ایک اہم ترین اتحادی کھو چکا تھا اور مذید کھونے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا اور چند سال پہلے ختم ہوئی ویتنام جنگ کی شکست بھی اعصاب پر سوار تھی۔ وہیں دوسری طرف اسرائیل اور مصر کے معاہدے اور عراق کا مغربی ملکوں کی طرف دوستانہ ہاتھ روسیوں کے لیے بھی پریشان کن تھا۔
شاید کلاسرا صاحب اس کتاب سے یہ حقائق نہیں ڈھونڈ سکے ورنہ ساری تانیں گرم پانیوں پر آ کر نہ ٹوٹتیں۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
79 میں ایرانی انقلاب کے بعد امریکہ خطے میں اپنا ایک اہم ترین اتحادی کھو چکا تھا اور مذید کھونے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا اور چند سال پہلے ختم ہوئی ویتنام جنگ کی شکست بھی اعصاب پر سوار تھی۔ وہیں دوسری طرف اسرائیل اور مصر کے معاہدے اور عراق کا مغربی ملکوں کی طرف دوستانہ ہاتھ روسیوں کے لیے بھی پریشان کن تھا۔
تو؟ کیا اسکا یہ مطلب ہوا کہ جنرل ضیاء الکفر ملک کو کوڑیوں کی عوض امریکی مقاصد کیلئے بیچ دے اور افغان جہاد کا منجن پوری مسلم دنیا بشمول پاکستان میں بیچے؟ آج ہر تاریخ دان شاہد ہے کہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان ضیاء الکفر کے دور میں پہنچا جو ان جاہل مولویوں سے تربیت یافتہ جھوٹا اور مکار اسلام پرست جنونی تھا۔ اسی کے دور حکومت میں آئی ایس آئی اور دیگر قومی خفیہ ایجنسیوں کو باقاعدہ اسلامیانے کا عمل میں لایا گیا۔ جہادی تنظیموں اور شدت پسند جماعتوں کی بنیاد ضیاء الکفر کے دور حکومت ہی میں رکھی گئی۔ اور اس کفر کے پہاڑ کو ملک کا آرمی چیف بنانے کا کارنامہ حکیم لقمان یعنی عظیم بھٹو کے سر سنہری حروف سے لکھا جائے گا :)
 
Top