گدڑی کے لعل

گدڑی کے لعل
سیدہ صالحہ
53483ae28b67d.jpg

••••
53483ae28b67d.jpg

53483ae983bc2.jpg

53483aef2e1cc.jpg

53483af556a36.jpg

اخباروں میں اور ٹی وی پر جب یہ خبریں سنیں کہ پاکستان کی سڑکوں پر آوارہ گھومنے والے بچوں نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ کے عالمی مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے پاکستان کے لئے کانسی (برونزمیڈل) کا تمغہ جیت لیا تو مجھے بے اختیار فیض کی انقلابی اور دلگداز نظم "لازم ہے کہ ہم بھی دیکھینگے'' کا وہ مصرعہ یاد آگیا: 'ہم اہل صفا، مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائنگے'-
فیض نے جس انقلاب کا خواب دیکھا تھا وہ تو فی الحال ہماری پہنچ سے بہت دور دکھائی دیتا ہے لیکن کراچی ایئرپورٹ پر ان کھلاڑیوں کا جو شاندار استقبال ہوا اس نے جہاں عوام میں مسرت کی لہر دوڑا دی وہاں میڈیا کے گلیمر میں نظر آنیوالے جانے پہچانے چہروں کو دیکھ کر یہ بھی خیال آیا کہ زمانہ بھی کیا کیا رنگ دکھاتا ہے، کل تک یہ بچے جو راندہ درگاہ تھے آج ہر کوئی ان کے قریب ترین پہنچنے کے لئے بیتاب دکھائی دیتا تھا-
ایموس ٹرسٹ (amos trust) ایک برطانوی فلاحی تنظیم ہے جو دنیا کی محروم، افلاس زدہ انسانیت کے بنیادی حقوق کے لئے کام کر رہی ہے، خاص طور پر ان بچوں کے لئے جن کے سروں پر چھت نہیں، جنھیں پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی، جو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں اور جرائم پیشہ گروہوں کے نرغہ میں پھنس جاتے ہیں-
ایموس نے فٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا کو یہ صلاح دی کہ وہ سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کے لئے بھی فٹ بال کے مقابلوں کا اہتمام کرے تاکہ ان بچوں کو بھی زندگی میں کوئی مقصد ملے، وہ بھی عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہیں اور اپنے معاشرے کا ایک کارآمد پرزہ بنیں- چنانچہ فیفا نے چند دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ کا منصوبہ بنایا جو پہلی بار 2010 میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں منعقد ہوا جس میں نو ممالک کی ٹیموں نے حصہ لیا-
اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں تیرہ سال سے سترہ سال تک کی عمر کے بچے حصہ لے سکتے ہیں جو سب کے سب معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں-
پہلے ورلڈ کپ میں برازیل، جنوبی افریقہ، نکاراگوا، یوکرائن، ہندوستان، فلپائن، تنزانیہ، اور انگلینڈ نے حصہ لیا تھا اور ہندوستان نے عالمی چمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کیا تھا-
یہ ایونٹ اس قدر کامیاب رہا کہ فیفا نے یہ فیصلہ کیا کہ آیندہ سے فٹ بال کے ورلڈ کپ سے پہلے یہ مقابلے منعقد کئے جائیں، چنانچہ 2014 میں دوسرا مقابلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا-
2014 کا دوسرا اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ سیو دی چلڈرن (save the children ) کے تعاون سے برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں 28 مارچ سے 6 اپریل تک جاری رہا جس میں دنیا کے انیس ممالک سے تقریباً 230 کھلاڑیوں نے حصہ لیا-
ان مقابلوں میں حصہ لینے کےلئے پاکستاں، ہندوستان، ماریشس، فلپائن، برونڈی اور امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک سے لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹیمیں پہنچی تھیں- یہاں مقابلوں کے ساتھ ساتھ آرٹ فیسٹیول اور ورک شاپس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا- انھیں شہر کی سیر بھی کراِئی گئی اور مقابلوں کے اختتام پر ریو رائٹس ڈیکلریشن جاری ہواجس میں دنیا بھر کے ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں-
برازیل میں سڑکوں پر رہنے والے بچوں کی تنظیم کا آغاز 1993 میں ہوا تھا جب آٹھ بچے پولیس اسکواڈ کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے تھے- یہاں غربت کے مارے بچے تشویشناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں- جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں پھنس کر یہ بچے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، نشہ کرنے لگتے ہیں اور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں- اس سال بھی برازیل کی ٹیم میں شامل ایک بچے روڈریگو کیلٹن کو اس کی چودہویں سالگرہ کے موقع پر، کپ کے شروع ہونے سے صرف دو ماہ پہلے ایک گینگ نے قتل کردیا تھا-
برازیل کی ٹیم میں شامل ایک لڑکی فرانسسکا سانتوز بھیک مانگتی تھی اور ریو کے سب سے بڑے گینگ کے لئے وہ تین مہینے پہلے تک نشہ آور اشیاء اسمگل کرتی تھی- گینگ میں شامل ایک لڑکا بھی اسے قتل کرنے کے درپے تھا لیکن اسکی نانی/دادی اس کی ڈھال بن گئی- اب وہ فٹ بال کھیلتی ہے اور کہتی ہے فٹبال ہی میرے دکھ درد کا علاج ہے-اس بچی کے تحفظ کی خاطر اس کا نام تبدیل کردیا گیا ہے-
پاکستانی ٹیم نے اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ میں پہلی بار حصہ لیا جس کا سہرا آزاد فاونڈیشن کے سر ہے- پاکستان کی یہ غیر منافع بخش تنظیم 2001 سے سر گرم عمل ہے- تنظیم نے اپنا اسٹریٹ ریسورس سنٹر 2004 میں قائم کیا تھا اور بچوں کی آبادکاری کا کام باضابطہ طور پر 2007 سے شروع ہوا-
یہ تنظیم پاکستان کے پالیسی سازوں کے ساتھ مل کر بچوں کے لئے قانون سازی میں تعاون کرتی ہے تاکہ بے سہارا بچوں کو تعلیم، صحت، کھیل وغیرہ کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں- اس تنظیم کے موبائل یونٹ بھی ہیں- یہ بچوں کے لئے ڈے کِئر سنٹر بھی چلاتی ہے جہاں ان کی مناسب نگہداشت کی جاتی ہے-
آزاد فاونڈیشن نے برٹش کونسل اور یونیسف کے تعاون سے اسٹریٹ چائلڈ ٹیم تیار کی اور انھیں ریو بھیجنے کا انتظام کیا- یہ کوئی آسان کام نہ تھا بچوں کے شناختی کارڈ، ویزا اور دیگر دستاویزات بنوانے میں کافی دقتیں پیش آئیں- آزاد فاونڈیشن کے ڈائریکٹر اتفان مقبول کہتے ہیں 26 مارچ تک تو ہم پاسپورٹ حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگے تھے جبکہ مقابلے 28 مارچ سے شروع ہورہے تھے-
سمیر احمد ٹیم کے کپتان اور گول کیپر ہیں- ان کی کپتانی میں ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہندوستان کے ساتھ اپنے پہلے میچ میں ہندوستان کو صفر کے مقابلے میں تیرہ گول سے شکست دی- میچ کے دونوں ہاف میں پاکستانی ٹیم چھائی رہی اور انھوں نے دفاعی چمپیئن ہندوستان کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا-
ٹیم میں شامل بچوں کی داستان بھی بڑی دلسوز ہے- ٹیم کے کھلاڑی محمد سلمان کہتے ہیں؛
"میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن میں بھی کسی ورلڈ کپ میں حصہ لے سکوں گا- میں تو سمجھتا تحا کہ میری زندگی کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بھیک مانگتے اور نشہ کرتے گزر جائیگی- میں اکثر اسکول سے بھاگ جایا کرتا- تیرہ سال کا تھا جب ماں باپ سے میرا جھگڑا ہوا اور میں گھر سے بھاگ گیا- میری خوش قسمتی تھی کہ آزاد فاونڈیشن کے لوگوں نے مجھے پکڑا اور اپنے سنٹر لے گئے- ان لوگوں نے مجھے فٹ بال کھیلنا سکھایا اور اب میں اس ٹیم کا حصہ ہوں"- سلمان کا تعلق کراچی کے اورنگی ٹاون سے ہے-
اس ٹیم کے ایک اور کھلاڑی اویس احمد بھی اورنگی ٹاون کے رہنے والے ہیں- اویس نے بتایا؛
"میں سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا اور پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا تھا- میں گھر سے بھاگ گیا تھا لیکن جب میں آزاد فاونڈیشن پہنچا تو میری دنیا ہی بدل گئی- میں اب نویں جماعت میں ہوں اور فٹ بال کھیلتا ہوں- میری خواہش ہے کہ میں پاکستان کی پہچان بنوں"- اویس پندرہ سال کے ہیں اور مڈ فیلڈ میں کھیلتے ہیں-
ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں میں عبد الرزاق، اورنگ زیب بابا، سلمان حسین، فیضان فیاض، محمد شعیب، مہر علی اور رجب علی شامل ہیں-
ٹیم کے کوچ عبدالرشید ہیں- انھون نے ٹیم کے کھلاڑیوں کو جن کا تعلق چاروں صوبوں سے ہے ایک ماہ تک کراچی کے شرفی گوٹھ میں تربیت دی- وہ کہتے ہیں کہ سماج کے ان ٹھکرائے ہوئے بچوں کو تربیت دینا اور انھیں ورلڈ کپ کے لئے تیار کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن جب ان بچوں کو اعتماد ملا تو باقی مرحلے آسان ہوگئے-
دوسرے ورلڈ کپ کا چمپیئن تنزانیہ قرار پایا جس نے برونڈی کو ہرا کر یہ اعزاز حاصل کیا- تیسری پوزیشن کے لئے پاکستان کا مقابلہ امریکہ کی ٹیم سے ہوا اور پاکستان نے اپنے حریف کو شکست دیکر کانسی کا تمغہ جیت لیا-
اسٹریٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے اس ٹیم نے ہماری قومی ٹیم کے لئے ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا جو اس وقت 158 نمبر پر ہے-
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی اٹھارہ ملین آبادی کے شہر میں لگ بھگ دو لاکھ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں، پورے ملک میں تو ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی- ان بچوں کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ صلاحیتوں کی کمی نہیں اور وہ کہیں سے بھی مل سکتے ہیں اور مواقع فراہم کرکے انھیں پروان چڑھایا جاسکتا ہے- ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی ادارے منصوبہ بندی کریں اور رضاکار تنظیموں کے تعاون سے بے سہارا بچوں کو باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں-
http://urdu.dawn.com/news/1004005/12apr14-street-children-football-worldcup-pakistan-syeda-saleha-aq
 
Top