گئے دنوں کا سراغ ۔ آپ بیتی از نثا ر عزیز بٹ۔ایک جائزہ ۔ چوہدری لیاقت علی

گئے دنوں کا سراغ ۔ آپ بیتی از نثا ر عزیز بٹ
ایک جائزہ ۔ چوہدری لیاقت علی​

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی کم علمی اور کوتاہ نظری سے کسی اہم مصنف یا کسی اہم کتاب سے صرف نظر کر دیتے ہیں۔ جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹوں کے مشہور مصنف جناب احمد اقبال صاحب نے نثار عزیز بٹ صاحبہ کی تحاریر کی طرف توجہ دلائی تو ایک خوشگوار سی حیرت ہوئی کہ ایک انتہائی اہم مصنفہ جنہوں نے پچاس کی دہائی میں لکھنے کی ابتداءکی اور اب تک اردو ادب کے دامن میں چار ناولوں کی صورت میں ایک گرانقدر اضافہ کر چکی ہیں؛ کیسے نگاہ سے اوجھل رہیں۔ کردار نگاری، زبان، تحریر میں روانی اور وہ تمام لوازمات جو ایک ناول کے لئے ضروری ہیں ان کی تحریر میں موجود ہیں۔ چند روز قبل ان کی آپ بیتی گئے دنوں کا سراغ پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کیا ملی گویا ایک عہد نظروں کے سامنے سے گھوم گیا۔ خیبر پختونخواہ کے وہ تمام تصورات جو عوام الناس میں موجود ہیں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد غلط ثابت ہوئے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسا کہ آپ ایک حسین و رنگین سپنا دیکھ رہے ہیں۔ آیئے آپ کو بھی اس سپنے میں شریک کرلوں۔

نثار عزیز بٹ خیبر پختونخواہ میں 1927ءمیں پیدا ہوئیں۔ ان کے دادا میاں مہتد اللہ نے مردان سے ۰۵ ایکڑ زمین خرید کر میاں گڑھی کے نام سے گاﺅں آباد کیا۔ ان کے دادا خود اردو ، فارسی و عربی کے عالم تھے اور علاج القلب نامی ایک کتاب کے مصنف تھے۔ والد میاں عبد العزیز اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نائب تحصلیدار بھرتی ہوئے ۔ ان کے والد نے ۷۱۹۱ءمیں اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے کیاتھا اور وہاں کے اولین طالب علموں میں سے تھے۔ ان کے والد نے انگریزی زبان میں ایک کتابچہ لکھا ۔ انسان کیا ہے اوراسے کیا کرنا چاہیئے؟ گویا لکھنے کی تحریک انہیں ورثے میں ملی۔ وہ خود پیش لفظ میں لکھتی ہیں:

میرے ذہن میں بعض واقعات، گفتگوئیں، مناظر اور تاثرات اتنے واضح اور مصر انداز میں مدتوں موجود رہتے ہیں کہ جب تک ان کو الفاظ میں نہ ڈھال کر کسی نہ کسی طور محفوظ کر لوں ؛ ذہن پر مسلط رہتے ہیں۔

نثارعزیز صاحبہ نے یہ آپ بیتی کیوں لکھی وہ خود اس کی وجہ بتاتی ہیں:

ناول بڑی سخت گیر صنف ہے۔ اس میں آپ ایسا مواد شامل نہیں کر سکتے جس کا ناول کا تانے بانے سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بلکہ جونہی ناول نگار ، ناول لکھنا شروع کرے ۔ وہ آزاد نہیں رہتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ناول ایک زندہ اور اڑیل جاندار میں تبدیل ہو جاتا ہے، کردار خود مختار ہو کر من مانی کرنے لگتے ہیں۔ واقعات کو بھی کوئی پراسراراندرونی منطق گرفت میں لے لیتی ہے۔ اور بجائے اس کے کہ مصنف ناول کو لکھے ناول مصنف کو لکھنے لگتا ہے۔ اور نہ صرف اس کے راز اگل دیتا ہے بلکہ اس کے تجربات و مشاہدات کی ایسی کتر بیونت کرتا ہے کہ تھان کے تھان کٹ کر دور جا گرتے ہیں۔ ایسے میں ناول نگار اس عبث انبار کے پاس بیٹھ کر حسرت و یاس سے سوچنے لگتا ہے کہ یہ سب جسے ناولوں نے رد کردیا ہے۔ اسے کس طرح محفوظ کرے؟اور کہاں سموئے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر ناول نگار اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں اپنی سوانح لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خصوصا ہماری نسل کے ادیب جو تا حال انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ سنسنی خیز اور انقلابی دور کی گواہ رہی ہے۔

میرے نزدیک کوئی بھی تخلیق خواہ شاعری ہو یا نثر جب تک کہ اس میں ذاتی تجربہ شامل نہ ہو، اثر انگیز نہیں ہوتی۔ مصنفہ کے تمام ناولوں میں جو ایک تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے وہ ہے حزن، اوریہ حزن ان کی تحریرمیں جہاں تہاں موجود ہے وہ ان کی شخصیت کا بھی خاصہ ہے۔ اس کتاب میں جہاں مصنفہ کی زندگی کے واقعات تہہ در تہہ کھلتے ہیں، وہیںتقسیم ہند سے پہلے اور بعد کا ماحول، پاکستان کی ادبی ، نوکر شاہی اور سیاسی بساط کے بہت سے رنگ اور ایک حساس اور نازک دل جا بجا نظر آتا ہے۔ ایک مصنف ایک بہت اچھا مشاہدہ نگار ہوتا ہے۔ مصنفہ کا قوت مشاہدہ بھی بہت قوی ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گردلوگوں کو رشتوں کے حوالے سے نہیں بلکہ کتابوں کے کرداروں کے حوالے سے ذہن میں رکھا۔ اس سر گزشت میں انہوں نے زندگی جیسے بسر کی و ہ تو لکھا ہی لکھا ، مگر ساتھ ساتھ ہوش سنبھالتے ہی عمر کے ہر حصے میں کیا محسوس کیا وہ بھی انتہائی مفصل انداز میں بیان کیاہے۔ اور یہی انداز بیاں دل پر اثر کرتا ہے۔

سات برس کی عمر میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ تین برس کا طویل عرصہ انہوں نے اپنے ننھیال میں بسر کیا ۔ جہاں ان کی دبنگ شخصیت نانی دیگر تمام خواتین پر حاوی تھیں۔ ان کے والد نے کچھ عرصہ بعد دوسری شادی کر لی۔جس کیفیت
سے ایک بن ماں کی بچی گزری وہ ان پر بہت عرصہ طاری رہی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مصنفہ پاکستان کے مشہور سیاستدان جناب سرتاج عزیز کی بڑی ہمشیرہ ہیں اور انہوں نے کبھی بھی اپنے بھائی کی حیثیت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اپنی سوتیلی والدہ جنہیں وہ ممی کہتی تھیں ان کے تعلقات بہت مناسب رہے۔ ان کے والد کو اللہ تعالیٰ نے مزید دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ ان کے ننھیال اور ددھیال کی اہم شخصیات کے مفصل حالات اس کتاب میں ہمیں ملتے ہیں۔ ۔ تقسیم ہند ایک ایسا واقعہ ہے جو بہت سے ذہنوں اور زندگیوں پر اثر انداز ہوا۔اس واقعہ سے مصنفہ کا ذہن بھی بہت الجھا۔ غرض ، ان کی سرگزشت ایسے ایسے رنگ دکھاتی ہے کہ قاری جیسے ایک فلم دیکھ رہا ہو۔ اس کتاب میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں۔ ایک مصنفہ کا روزنامچہ اور دوسرا ان کے نام اور ان کے لکھے ہوئے خطوط۔اس دور میں رابطے کا واحد ذریعہ خط تھا۔ خط بھی ادب کی ایک انتہائی اہم صنف ہے۔محبی جناب نصیر ترابی ایک دفعہ راقم سے فرما رہے تھے کہ یہ جو مختلف لوگوں کے خطوط شائع ہوتے ہیں تو ان سے ان لوگوں کی زندگی کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایسے پہلو جن سے مکتوب الیہ ہی واقف ہو سکتے ہیں۔اگر مصنفہ صرف اپنے نام آنے والے خطوط ہی شائع کر دیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی۔

نثار عزیز صاحبہ نے بچپن میں ماں کو کھویا تو جوانی میں ٹی بی جیسے مہلک مرض کا شکار رہیں، مگر ان تمام آفات کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا اور اپنی مضبوط قوت ارادی سے اس بیماری سے صحت یاب ہوئیں اور ایک بھر پور زندگی گزاری۔ انہوں نے ریاضی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کے تعلیمی دور کا ایک انتہائی اہم واقعہ جب انجمن حمایت اسلام نے اسلامیہ کالج کی ہندو پرنسپل کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ مصنفہ احتجاجا وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ سے ملنے پہنچ گئیں اور بغیر کسی دقت کے ان سے ملاقات ہو گئی۔ اگرچہ اس ملاقات سے پرنسپل ہٹانے کا فیصلہ تو تبدیل نہ ہوا، تاہم اس دور میں حکمرانوں تک عوام کی رسائی کتنی سہل تھی۔ اسی دور میں ان کی تحاریر اہم جریدوں میں شائع ہونے لگیں۔ ان کی چند کہانیاں نقوش میں بھی شائع ہوئیں۔ اسی دور میں ان کی دوستی ہاجرہ مسرور سے ہوئی ۔ یہ بھی ان کی زندگی کا ایک اہم واقعہ تھا۔ انہوں نے اپنے پہلے ناول نگری نگری پھرا مسافر کا مسودہ اسی دور میں لکھنا شروع کیا۔اسی دوران ان کی ملاقات جناب اصغر بٹ سے ہوئی جن سے بعد میں ان کی شادی ہوئی۔ نثار عزیز بٹ صاحبہ کی زندگی میں خطوط بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ ان کی شادی اور ابتدائی ملاقات کے درمیان قریب قریب دو سالوں کا وقفہ ہے۔ اس تمام عرصہ میں ان کا رابطہ خطوط کے ذریعے قائم رہا۔ ان کی شادی ۴۵۹۱ءمیں ہوئی۔ شادی میں ہاجرہ مسرور، ان کے میاں احمد علی خان،خدیجہ مستور، ظہیر بابر اور احمد ندیم قاسمی شریک ہوئے۔ ولیمے کے اگلے روز میرزا ادیب مبارک باد دینے گھر پہنچے۔ اصغر بٹ اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھے اور کراچی تعینات تھے۔ مصنفہ ان کے ساتھ کراچی روانہ ہو گئیں اور پھرکراچی میں انہوں نے بھرپور وقت گزارا۔ یہاں ان کی ملاقاتیں بہت سے اہم ادباءسے ہوئیں جن میں قدرت اللہ شہاب، محمد اسد اللہ ، ممتاز شیریں ، حفیظ ہوشیار پوری ، اعجاز بٹالوی و دیگر شا مل تھے۔ انہی محفلوں میں ان کی ملاقات قرةالعین حیدر سے بھی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد اصغر بٹ کا تبادلہ لاہور ہو گیا اور وہ لاہور منتقل ہو گئیں۔ نورالحسن جعفری، ادا جعفری، مختار مسعود و بیگم مختار مسعود، احسن علی خان، مسعود مفتی، آغا ناصر ،کشور ناہید، حجاب امتیاز علی ، ضمیر جعفری، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، مستنصر، فیض یہ تمام اہم نام اس داستان میں ملیں گے۔ اصغر بٹ کی سول سروس میں شمولیت اور متعدد بیرونی ممالک میں ان کا تبادلہ؛ ایک داستان ہے کسی نگار خانے کی جسے مصنفہ نے زور بیان اور روانی سے اتنا دلچسپ بنا دیا ہے کہ مکمل پڑھے بغیر چین نہیں آتا۔

اس داستان کے ایک کونے میں کہیں فطرت جھلک رہی ہے تو کہیں احساسات، کہیں اپنوں کی تصویر نظر آتی ہے تو کہیں ادباءاور شعراءپوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہیں ، سفر نامے بھی ہیں، جگ بیتی بھی اور ہڈ بیتی بھی۔ تقسیم سے پہلے کے سماجی حالات بھی ہیں اور تقسیم کے بعد کے منظر نامے بھی۔ یہ داستان جیسے ایک حساس ذہن کی عکاس ہے۔ حزن، ملال، اداسی، امید، مایوسی، مسرت اور کامیابی ، شاد کامی سے بھرپور ذہن کی عکاس یہ داستان بجائے خود ایک ناول کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سرگزشت کو پڑھنے کے بعد قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس نگار خانے کا ایک حصہ ہے۔ آئیے! آپ بھی اس اہم داستان سے محظوظ ہوں اور مصنفہ کے تجربات میں خود کو شامل کر کے دیکھیں اور اپنی زندگی میں ایک وسعت اور گھمبیرتا محسوس کریں۔
 
آخری تدوین:
Top