کیمسٹری

ظفری

لائبریرین
زندگی کے سفر میں ہم مسلسل سرگرداں ہیں ۔ ہر وقت اپنی زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے متعارف ہوتے رہتے ہیں ۔ ان نشیب و فراز کی نوعیت موجودہ صورتحال اور وقت کی مناسبت کے پیشِ نظر ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ اپنی پیدائش سے لیکر اپنی آخری سانس تک ہم زندگی کے مختلف نشیب و فراز دیکھتے ہیں ۔ ان نشیب و فراز کے کئی روپ ہیں ۔ جو تعلقات اور رشتوں میں پنہاں ہیں ۔ اور یہ تعلقات اور رشتے کچھ اس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ ان کی چھاپ زندگی کے ہر روپ پر حاوی دکھائی دیتی ہے ۔ کچھ رشتے زندگی کے وجود کے لیئے بنیادی اساس کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ہم انہی رشتوں کی ڈور پر اپنے زندگی کی پتنگ کو فضاؤں میں بلند کرتے ہیں ۔ یہ پتنگ ، مناسب بلندی پر ایک متوازی پرواز صرف اسی صورت میں قائم رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ جب ان رشتوں کی ڈور مضبوط ہوتی ہے ۔ اور یہ ڈور “ کیمسٹری “ کہلاتی ہے ۔ ہم اکثر یہ لفظ سنتے ہیں ۔ جس کا تعلق سائنس سے ہے ۔ مگر میں نے اس لفظ کو رشتوں کے باہمی تعلق کے تناظر میں ‌جانچا ہے ۔ ہر انسان میں مختلف کیمیائی عمل رواں ہیں ۔ ایک کیمیائی عمل آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے آس پاس موجود مخلتف لوگوں ‌کے کیمیائی عمل سے آپ کا کیمیائی عمل کتنا مطابقت رکھتا ہے ۔ یہ مخصوص کیمیائی عمل “ احساس “ ہے ۔ جسے قدرت نے انسان میں‌ ودیعت کر رکھا ہے ۔ یہی احساس آپ کو رشتوں کی افادیت اور مضبوطی کا یقین دلاتا ہے ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ ہم اس عمل کو مکمل ہونے نہیں دیتے ۔ اور اسی دوران احساس شعور تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور شعور اس احساس کی نفی کردیتا ہے جو نامکمل ہوتا ہے ۔ شعور اور احساس کے اس نامکمل رابطے کی پپیچیدگی‌ سے جو خلاء پیدا ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کو غیر متوازی سطح پر لے آتا ہے ۔ ۔ ہر چیز اپنے مرکز سے ہٹ جاتی ہے ۔ جس سے زندگی سے منسلک دوسرے رابطے بھی اپنے مستقر سے بھٹک جاتے ہیں ۔پھر ایک دن یہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے ۔ اور پتنگ ڈولتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس عمل کے مکمل ہونے کا ادراک کیسے ممکن ہو ۔ کیونکہ زندگی میں ہم بہت سے فیصلے کرتے ہیں ۔ کچھ فیصلے عمومی ہوتے ہیں اور کچھ بہت ہی خاص ۔ مگر یہ بہت مشکل ہے کہ ہر فیصلے میں ہی “ کیمسڑی“ متحرک ہو ۔ مگر چند فیصلے جو صدیوں پر میحط ہوتے ہیں ۔ وہاں اس کیمسٹری کا اطلاق بہت نمایاں‌ ہونا چاہیئے ۔ اور یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جہاں ایک طرف آپ کوئی فیصلہ کر رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف بھی آپ کی اس کیمسٹری کا دوسرا مرکب موجود ہو ۔ اور وہ دوسرا مرکب وہ کرنٹ ہے جس کو ہم “ محبت “ کہتے ہیں ۔ جو آپ کے احساس کو آپ کے شعور سے منسلک کردیتا ہے ۔ جب آپ کا شعور اس کوڈ کو قبول کرلیتا ہے تو آپ کی کیمسٹری مکمل ہوجاتی ہے ۔ شاید پھر بہت ممکن ہو کہ آپ اپنی اس “ پتنگ “ کو بہت بلندی پر ایک متوازن سطح پر بہت دیر تک اُڑاتے رہیں ۔ بصورتِ دیگر بقول شاعر آپ کو ہر دم یہی گلہ رہے گا کہ :
کچھ لوگ شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے "کیمسٹری" کو خوب دیکھا، ایک مولانا نے اس کو اس طرح دیکھا تھا

اے کیمیا، اے کیمیا، در من نگر زیں را کہ من
صد دیر را مسجد کنم، صد دار را منبر کنم

(مولانا رومی)

اے ماہرِ کیمیا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں وہ ہوں کہ مندروں کو مسجد بنا دیتا ہوں اور سولی کو منبر (یعنی تو جو عناصر میں تغیرات کو ڈھونڈتا پھرتا ہے تو ذرا اس پر بھی غور جو تغیرات میں کر رہا ہوں)۔
:)
 
زندگی کے سفر میں ہم مسلسل سرگرداں ہیں ۔ ہر وقت اپنی زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے متعارف ہوتے رہتے ہیں ۔ ان نشیب و فراز کی نوعیت موجودہ صورتحال اور وقت کی مناسبت کے پیشِ نظر ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ اپنی پیدائش سے لیکر اپنی آخری سانس تک ہم زندگی کے مختلف نشیب و فراز دیکھتے ہیں ۔ ان نشیب و فراز کے کئی روپ ہیں ۔ جو تعلقات اور رشتوں میں پنہاں ہیں ۔ اور یہ تعلقات اور رشتے کچھ اس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ ان کی چھاپ زندگی کے ہر روپ پر حاوی دکھائی دیتی ہے ۔ کچھ رشتے زندگی کے وجود کے لیئے بنیادی اساس کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ہم انہی رشتوں کی ڈور پر اپنے زندگی کی پتنگ کو فضاؤں میں بلند کرتے ہیں ۔ یہ پتنگ ، مناسب بلندی پر ایک متوازی پرواز صرف اسی صورت میں قائم رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ جب ان رشتوں کی ڈور مضبوط ہوتی ہے ۔ اور یہ ڈور “ کیمسٹری “ کہلاتی ہے ۔ ہم اکثر یہ لفظ سنتے ہیں ۔ جس کا تعلق سائنس سے ہے ۔ مگر میں نے اس لفظ کو رشتوں کے باہمی تعلق کے تناظر میں ‌جانچا ہے ۔ ہر انسان میں مختلف کیمیائی عمل رواں ہیں ۔ ایک کیمیائی عمل آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے آس پاس موجود مخلتف لوگوں ‌کے کیمیائی عمل سے آپ کا کیمیائی عمل کتنا مطابقت رکھتا ہے ۔ یہ مخصوص کیمیائی عمل “ احساس “ ہے ۔ جسے قدرت نے انسان میں‌ ودیعت کر رکھا ہے ۔ یہی احساس آپ کو رشتوں کی افادیت اور مضبوطی کا یقین دلاتا ہے ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ ہم اس عمل کو مکمل ہونے نہیں دیتے ۔ اور اسی دوران احساس شعور تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور شعور اس احساس کی نفی کردیتا ہے جو نامکمل ہوتا ہے ۔ شعور اور احساس کے اس نامکمل رابطے کی پپیچیدگی‌ سے جو خلاء پیدا ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کو غیر متوازی سطح پر لے آتا ہے ۔ ۔ ہر چیز اپنے مرکز سے ہٹ جاتی ہے ۔ جس سے زندگی سے منسلک دوسرے رابطے بھی اپنے مستقر سے بھٹک جاتے ہیں ۔پھر ایک دن یہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے ۔ اور پتنگ ڈولتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس عمل کے مکمل ہونے کا ادراک کیسے ممکن ہو ۔ کیونکہ زندگی میں ہم بہت سے فیصلے کرتے ہیں ۔ کچھ فیصلے عمومی ہوتے ہیں اور کچھ بہت ہی خاص ۔ مگر یہ بہت مشکل ہے کہ ہر فیصلے میں ہی “ کیمسڑی“ متحرک ہو ۔ مگر چند فیصلے جو صدیوں پر میحط ہوتے ہیں ۔ وہاں اس کیمسٹری کا اطلاق بہت نمایاں‌ ہونا چاہیئے ۔ اور یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جہاں ایک طرف آپ کوئی فیصلہ کر رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف بھی آپ کی اس کیمسٹری کا دوسرا مرکب موجود ہو ۔ اور وہ دوسرا مرکب وہ کرنٹ ہے جس کو ہم “ محبت “ کہتے ہیں ۔ جو آپ کے احساس کو آپ کے شعور سے منسلک کردیتا ہے ۔ جب آپ کا شعور اس کوڈ کو قبول کرلیتا ہے تو آپ کی کیمسٹری مکمل ہوجاتی ہے ۔ شاید پھر بہت ممکن ہو کہ آپ اپنی اس “ پتنگ “ کو بہت بلندی پر ایک متوازن سطح پر بہت دیر تک اُڑاتے رہیں ۔ بصورتِ دیگر بقول شاعر آپ کو ہر دم یہی گلہ رہے گا کہ :
کچھ لوگ شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
بچے کورنگی ڈگری کالج میں سائنس پڑھ لیتے اچھے سے تو یہ نوبت نہ اتی بہکی بہکی باتیں کرنے کی
 
Top