کیا ہے یہ مامتا ... ؟

مامتا !

کیا ہے یہ مامتا ... ؟

ٹھنڈی میٹھی چھاؤں کی طرح جسکے سائے میں کوئی پیاسا مسافر پڑاؤ ڈالے اور وہ اسے بانہیں پھیلا کر اپنی آغوش میں لے لے

مامتا

عجیب لفظ ہے یہ بھی جب ہونٹوں سے ادا ہوتا ہے تو کسی جانی پہچانی شفقت کے احساس سے تن بدن میں ٹھنڈک بھر دیتا سنا ہے مسیحا کے لمس سے مردے زندہ ہوجاتے تھے لیکن ماں کے پیار بھرے لمس سے روح تک سرشار ہو جاتی ہے

مامتا

یہاں آکر قلم رک جاتا ہے الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ساتھ نہیں چھوڑتے اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں
کیا کہوں کیسے کہوں کس طرح خراج تحسین پیش کروں

مامتا

جب رب کریم نے اپنی محبت کا اظہر کرنا چاہا تو کس سے تشبیہ دی

مامتا سے

روایات میں ملتا ہے

رسول اکرمؐ کے زمانے میں ایک اعرابی آپؐ کی زیارت کو مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کبوتری نے بچے دیئے ہوئے تھے۔ اس نے کبوتری کے بچے اٹھالئے اور دل ہی دل میں یہ سوچا کہ یہ بچے آنحضرت ؐ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں گا۔ جب کبوتری نے اپنے بچوں کو اس کے پاس دیکھا تو بڑی بے چین ہوئی اور اس کے سر پر چکر کاٹنے لگی۔
اس شخص نے آنحضرت ؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپؐ کی خدمت میں وہ بچے پیش کئے۔
کبوتری نے جیسے ہی اپنے بچوں کو دیکھا تو وہ تیزی سے زمین پر آئی اور اپنے بچوں کے گرد چکر کاٹنے لگی۔ پھر وہ اپنی چونچ میں غذا لے کر آئی اور اپنے بچوں کو کھلا کر اڑ گئی، پھر دوسری دفعہ غذا لے کر آئی اور اپنے بچوں کو کھلانے لگی۔

اس منظر کو دیکھ کر رسول اکرمؐ نے صحابہؓ سے فرمایا:

’’تم نے دیکھا کہ ایک کبوتری کو اپنے بچوں سے کتنی محبت ہے؟‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا:

’’ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اور جس نے مجھے برحق نبی بنا کر

معبوث کیا ہے۔‘‘ اللہ اس کی نسبت اپنی مخلوق سے ہزاروں گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔


مامتا

اور اسکی گواہی تو خود قرآن عظیم دیتا ہے


حضرت ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آ سکتا آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دواڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں؟ آپ فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا

)تفسیر ابن کثیر(


یہ ماں ہے

اور یہ مامتا ہے

گزشتہ روز ایک خبر پڑھی

" لاہورمیں متوسط طبقے کی ایک پڑھی لکھی نوجوان عورت نے مبینہ طور پر مالی تنگی اور گھریلو جھگڑوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے دونوں کمسن بچوں کو قتل کر دیا ہے "

بہت دیر تک دماغ سن رہا سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری کچھ سمجھ نہیں آیا یہ کیا ہوا اور

کیسے

مختلف لوگ انکی مختلف آراء سچے جھوٹے فلسفے باتیں اور بس باتیں

ایک نے کہا

" کل پرسو سے یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے۔ ہر کوئی علامہ بنا پھر رہا ہے۔ لبرلز اس واقعے کی آڑ میں مولویوں کے لتے لے رہے ہیں اور مولوی صاحبان وعیدوں پہ وعیدیں بیان کر کے علم و فضل جھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سب کو پیٹ بھر کر روٹی ملتی ہے، بھوک سے انکا واسطہ نہیں چاہے وہ فنڈز کے نام پر بھیک ہو یا پھر مسجد مدرسے کے نام پر بھیک۔ انہیں شرم نہیں آئے گی "


لیکن وہ تو ماں تھی

پہاڑوں جیسا عزم رکھنے والی ماں بس ایک بھوک سے ڈر گئی

ارے کیا ہم جانوروں سے بھی بد تر ہو چکے ہیں

خدا کی قسم تڑپ کر ہاتھ اٹھا دیتی تو زمین و آسمان ایک ہو جاتے

ایک عجیب و غریب واقعہ یاد آگیا

ہماری بیٹھک ان دنوں پاور ہاؤس چورنگی سے متصل سبز پٹی (green belt) پر تھی جہاں کسی پرانے ہوٹل کی باقیات میں سے کچھ تخت بچھے رہ گئے تھے قریب پٹھان کے ہوٹل پر کرسیوں کی مارا ماری سے بچنے کیلئے چند سر پھرے ادیبوں اور غیر معروف شاعروں نے یہاں محفل جما لی تھی مجھے یاد ہے وہ سیاہ رنگ کی لنگڑی کتیا اس دن بڑی بےچین تھی بار بار ہماری طرف آتی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو
میں نے پروفیسر سے کہا دیکھو یہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے اس نے بھی غور کیا تو میری تائید کی
وہ کبھی ہماری طرف اور کبھی گرین بلٹ سے متصل فٹ پاتھ کی طرف جاتی
اس فٹ پاتھ کے نیچے نالہ تھا
میں اور پروفیسر قریب گئے تو دیکھا فٹ پاتھ پر موجود گیپ میں سے کتیا کا بچہ نیچے پھنسا ہوا تھا
پھر عجیب منظر ہوا تمام احباب ادھر ہی متوجہ ہو گئے ایک رش لگ گیا تدبیریں ہونے لگیں
کیا کریں کیسے کریں اسکو بچانا ہے
مامتا کی ماری کتیا ایک آس سے ہمیں دیکھ رہی تھی
ڈاکٹر شبیر شاکر لون نے اپنی بیلٹ دی
ایک رسی کا ٹکڑا نظر فاطمی نے دیا
ادھر عدیل احمد عدیل ہے
وہاں حسن بن نظیر کھڑا ہے
ایک طرف خیام مرحوم متوجہ ہیں
قریب ہی سید فیاض علی بھی ہیں
طاہر عباس بھی یہیں موجود ہیں
اور پھر ہم نے اسے نکال لیا
..................................
.................................
..................................

وہ بار بار بے تابی سے اپنے بچے کو چوم رہی تھی
دوانہ وار محبت سے اسے چاٹ رہی تھی
اور پھر اسکا ہم سے اظہار تشکر

خدا کی قسم

اس کتیا کے اظہار تشکر کو بھول نہیں سکتا

آج بھی یہ سب لکھتے وقت آنکھوں میں آنسو امڈ رہے ہیں

وہ سب کیا تھا

وہ کون سا جذبہ تھا

وہ کون سی طاقت تھی

کہ جس نے اتنے لوگوں کو یکدم فعال کر دیا

مامتا

بیشک مامتا

اس کتیا کی اپنے بچے سے محبت نے اتنے انسانوں کو فعال کر دیا
ہم جیسے مردہ دلوں کو فعال کر دیا
وہ رکی نہیں جھجکی نہیں
وہ انسان نہیں تھی
وہ لنگڑی تھی

لیکن

وہ ماں تھی

حسیب احمد حسیب​
 
Top