کیا لکھوں

anwarjamal

محفلین
فیکٹری کے مالکوں کی بے حسی پر کیا لکھوں

ائے غریبو ؛ میں تمہاری زندگی پر کیا لکھوں

ڈھونڈتی پھرتی ھے اب تک ایک ماں بیٹے کی لاش

گنگ ہوں میں ، اس کے اشکوں کی جھڑی پر کیا لکھوں

اتنی شدت سے اٹھے جیسے برس جائيں گے وہ

میں دھویں کے بادلوں کی سادگی پر کیا لکھوں

بھاگنے کا کوئی بھی رستہ نظر آیا نہیں

مرنے والو ، میں تمہاری بے بسی پر کیا لکھوں

اب نظر آتی نہیں امید کی کوئی کرن

گھپ اندھیرے میں کھڑا ہوں روشنی پر کیا لکھوں

قید میں ھو جو کسی جبری مشقت کی طرح

آج انور ، ایسی ظالم نوکری پر کیا لکھوں

انور جمال انور
 
Top