ظفری
لائبریرین
جہاز دبئی کے لیئے روانگی کے لیئے تیار تھا ۔ مگر ہوائی جہاز میں افراتفری مچی ہوئی تھی ۔ کپتان ، عملہ اور جہاز کے تمام مسافر کھڑکی والی نشت پر بیٹھے ہوئے خان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ یہ کھڑکی کی نشت کسی اور صاحب کی ہے ۔ آپ کی اس کے برابر والی ہے ۔ مگر خان صاحب ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے ۔ وہ بضد تھے کہ وہ یہیں بیٹھیں گے ،کہیں اور نہیں بیٹھیں گے ۔ جہاز لیٹ ہو رہا تھا ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا ۔ میں خان صاحب کے پاس گیا اور ان کے کان میں چپکے سے کچھ کہا ، خان صاحب نے ایک جست لگائی اور اپنی اصل نشت پر آکر بیٹھ گئے ۔ جہاز میں ہر شخص حیران رہ گیا کہ میں ایسا کیا کہا کہ جس کو سمجھا سمجھا کر سب تھک گئے وہ ایک سیکنڈ میں اپنی صحیح نشت پر آکر کیسے بیٹھ گیا ۔ میری برابر والی نشت بیٹھے ہوئے صاحب کے مسلسل اصرار پر میں نے بالآخر انہیں بتایا کہ “ دیکھیں جناب ۔۔۔۔ وہ بھی پٹھان تھا ، میں بھی پٹھان ہوں ۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک پٹھان دوسرے پٹھان کو کیسے سمجھا سکتا ہے ۔
“مگر آپ نے کہا کیا “ وہ صاحب ابھی تک محوِ حیرت تھے۔
میں نے بس اتنا کہا “ یار ! یہ کھڑکی والی نشت دبئی نہیں جا رہی ہے ۔ “
“مگر آپ نے کہا کیا “ وہ صاحب ابھی تک محوِ حیرت تھے۔
میں نے بس اتنا کہا “ یار ! یہ کھڑکی والی نشت دبئی نہیں جا رہی ہے ۔ “