حزیں صدیقی کون سے منظر کا پس منظر نہیں۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
کون سے منظر کا پس منظر نہیں
حسن جو باہر ہے وہ اندر نہیں

ہر مسافر کے لئے ہوں سنگِ مِیل
میں کسی کی راہ کا پتھر نہیں

شہر میں اب سنگ باری عام ہے
شکر ہے شیشے کا میرا گھر نہیں

اے زمیں، نوعِ بشر پر ناز کر
زندگی کیا آسمانوں پر نہیں

ہیں شعور و فکر صیدِ رنگ و بو
بال و پر ہیں اور بال و پر نہیں

دل میں جب چاہے چلا آئے کوئی
آئنہ ہے گنبدِ بے در نہیں

فاصلہ اچھا ہے لیکن اس قدر؟
تو کوئی آئنہ میں پتھر نہیں

بات کیا ہے دیدہء انجم تراش
کہکشاں کیوں آج پلکوں پر نہیں

جانے کیوں بے موت مر جاتے ہیں لوگ
اس قدر بھی زندگی دوبھر نہیں

کوئی آفت، کوئی صدمہ ، کوئی غم
قوتِ برداشت سے باہر نہیں

اِس میں تو غرفے کھلے ہیں خلد کے
آخری گھر کا سنا تھا ، در نہیں

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top