کل دسمبر کے آخری پہر کی اداسی۔۔۔

عینی مروت

محفلین
ماضی کے کسی بھیگے دسمبر کی یاد میں ۔۔۔

بھیگے دسمبر کی شبِ آخر

کل دسمبر کے آخری پہر کی اداسی
سالِ نو کی نسیمِ سحری کو ہر خوشی دان کر رہی تھی
ہر نفس کے رُواں رواں میں
آنے والے حسین لمحوں کی کھلتی کلیوں سے مہکا احساس
زندگی بن کے دوڑتا تھا
اس حقیقت سے بے خبر کہ۔۔۔
گزرتے لمحے سسک رہے تھے
عمرِ رفتہ کے سب حسیں پل،بلک رہے تھے تڑپ رہے تھے
پراپنی نظریں تو آنے والی جوان صبحوں کی منتطر تھیں
مگر یہ کیا کہ۔۔
صبحِ نو کا شگفتہ چہرا تھا بھیگا بھیگا دھلا دھلا سا
پتی گل کی بارِ شبنم سے جھکتی جھکتی
راز افشا یہ کر رہی تھی
کہ رات جاتے سمے دسمبر کی بھیگی بھیگی اداس آنکھیں
فرطِ غم سے نڈھال ہو کر
اشک فرقت بہا رہی تھیں
رات بھر روتی رہی تھیں۔۔!!۔

نورالعین عینی
 
Top