کلیات اسمٰعیل میرٹھی 361 تا 384

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمعٰیل میرٹھی

صفحہ نمبر 54

بارہ سنگھے غریب پر ہے لتاڑ
سینگ ہیں اُس کے جھاڑ اور جھنکار
وہ چوہے ہند کا بڑا ساگر
واں سے چلتا ہے ابر کا لشکر
کوچ در کوچ روز بڑھتا ہے
پھر ہمالہ پہ آکے پڑھتا ہے
کبھی دیتا ہے باندھ مینہ کا تار
کبھی کرتا ہے برف کی بھرمار
جا پڑھا یوں پہاڑ پر پانی
کی ہے قدرت نے کیا ہی آسانی
واں سے چشمے بہت اُبل نکلے
ندی نالے ہزار چل نکلے
سندھ و ستلج ہیں مغربی دریا
اور پورب میں میکھنا گنگا
ہیں یہ دریا بہت بڑے چاروں
جن میں بہتا ہے پانی الغاروں
پس سمندر سے جو رسد آئی
یوں ہمالہ نے بانٹ کر کھائی
ہوا سرسبز ہند کا میداں
تیری حکمت کے اے خدا قرباں
ہند کی سرزمیں ہے اَن ماتا
اور ہمالہ پہاڑ جل داتا
اے ہمالہ پہاڑ ! تیری شان
دنگ رہ جائے دیکھکر انسان
ساری دُنیا میں ہے تو ہی بالا
پہونچے جب پاس دیکھنے والا
سامنے اِک سیاہ دل بادل
دیو کی طرح سے کھڑا ہے اٹل
گھاٹیاں جن میں گونجتی ہے صدا
آبشاروں کا شور ہے برپا
دبدبہ اپنا تو دکھاتا ہے
گویا میدان کو دوڑاتا ہے
ہے میرے دل میں یہ خیال آتا
کاش چوٹی پر تیرے چڑھ جاتا
واں سے نیچے کا دیکھتا میداں
جس میں گنگ وجمن ہیں تیز رواں
دو لکیریں سی وہ نظر آتیں
دائیں بائیں کو صاف لہراتیں
اس تماشے سے جب کہ جی بھرتا
تو شمالی طرف نظر کرتا
شام کو دیکھتا بہار بڑی
گویا سونے کی ہے فصیل کھڑی

پھر وطن میں جب آن کر رہتا
دوستوں سے یہ ماجرا کہتا
 

خرد اعوان

محفلین
کلیاتِ اسمٰعیل
صفحہ نمبر 55
(43) بارش کا پہلا قطرہ

گھنگھور گھٹا تُلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مُجھہ سے کسی کا لب نہ ہوگا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاؤں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیا ناس
آتی ہے برسنے سے مجھے شرم
مٹی پتھر تمام ہیں گرم
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلبری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کُچھہ کُچھہ بجلی چمک رہی تھی

56
اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض وجواد و نیک نیت
بھڑکی اُس کی رگِ حمیت
بولا للکار کر کہ آؤ
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
کہ گزرو جو ہو سکے کچھہ احسان
ڈالو مردہ زمین میں جان
یارو ! یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کروگے جانفشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
"دشوار ہے جی پہ کھیل جانا "
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اُس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جُرات جو اُس سخی کی
دو چار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمین پہ ٹپکا
آخر قطرون کا بندھ گیا تار
بارش ہونے لگی موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیران ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اُس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جُرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو ! قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کرلو
قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل
صفحہ نمبر 57

(44) مثنوی بادِ مراد

چل اے بادِبہاری سمتِ گلزار
تمنائی ہے تیرا ہر گل و خار
نہاں و نخل و سبزہ ہیں سُنساں
گیاہِ مُردہ میں تو ڈالدے جان
نہیں گلشن میںپتے کا بھی کھڑکا
ذرا شاخیں ہلا طائر کو بھڑکا
لہک تیزی سے اے بادِ بہاری
کہ ہو جائے چمن پر وجد طاری
جو تو لہکے تو سبزہ لہلہائے
چمن کا بیل بوٹا سر ہلائے
لچک جائے کمر نازک شجر کی
زمیں پر جُھک پڑے ڈالی ثمر کی
ٹپک جائے جو ہو پکا ہوا پھل
کہ شاخیں ہو رہی ہیں سخت بوجھل
سُنا ۔ بادِ صبا ! کیا کیا خبر ہے
قلمرو میں تیری کل بحروبر ہے
ذرا کر دامن ِ صحرا میں راحت
بہت کی تو نے دریا کی سیاحت
بس اب آرام کر لوگوں کے گھر میں
رہی تادیر تو سیروسفر میں
تیرے ہمرہ چلے آتے ہیں پیہم
یہی ہیں کیا سفیر بحرِ اعظم
جلو میں ہے تیرے اِک فوج جٓرار
تو ہی ہے ابر کے لشکر کی سردار
اُٹھایا ہے سمندر تو نے سر پر
گھٹا کو لاد کر لائی کمر پر

تیری تیزی سے ہیں بادل لپکتے
تیری جھونکوں سے ہیں قطرے ٹپکتے
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل
صفحہ نمبر 58

غزل

چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے
ہجومِ طائران ِ خوش نوا ہے
کبھی جونکا نکل جاتا ہے سَن سے
کبھی آہستی رو موجِ صبا ہے
غباروگرد سے جو اٹ گئی تھی
صبا نے غسل کا سامان کیا ہے
ہوا نے کیا ہوا باندھی چمن میں
کہ خوبان ِ چمن کا سر ہلا ہے
چمن کا پتا پتا ہے نوا سنج
صبا کی آمد آمد جا بجا ہے
گُلوں کی ڈالیاں جُھک جُھک گئی ہیں
زمیں پر سبزہ کیسا لوٹتا ہے
کِھلی ہر پنکھڑی گلہائے ترکی
صبا نے کان میں کیا کہہ دیا ہے
بکھیری نسترن پر زلف سنبل
صبا شوخی میں فتنہ ہے بلا ہے
گیاہِ سبز کا طرہ پریشان
صبا تیرے ہی چھیڑے سے ہوا ہے


نہیں ہے مُجھہ کو دعویٰ شاعری کا
تو پھر مقطع سے بھی کیا مدعا ہے

کہ اے بادِ مراد آہنگ آفاق
جہازِ سست رو ہے تیرا مشتاق
پھریرے کو اُڑا کس بادباں کو
کہ دیکھیں ساحلِ ہندوستاں کو
خلیج و آبنائے وبحر و ساحل
تیرے دیکھے پڑے ہیں سب مراحل
مقامِ استوا سے تابہ قطبین
تجھے جنبش نہیں دیتی کبھی چین
بہت کھوندے ہیں کوہ دشت تو نے
کیا بحرین کا گلگشت تو نے
 

خرد اعوان

محفلین
59
محیط ِ ارض ہے تو اے سبُک پا
تیری موجیں روان ہیں مثل ِ دریا
لطیف و نازک و بے رنگ ہے تو
اُصولِ نغمہ و آہنگ ہے تو
رواں ہے تیری موجوں میں ہرآواز
تو ہی کانوں میں ہے ہنگامہ پرداز
جہاں میں تو رسول ِ ہر ندا ہے
مذاق ِ سامعہ تجھہ پر فدا ہے
نہ پہونچے تو اگر تا پردہ گوش
سب آوازیں رہیں پردہ میں روپوش
وہ بہرا ہے جو تجھہ سے بے اثر ہے
وہ سُنتا ہے جو تجھہ سے بہرہ ور ہے
زباں کو نطق کا یارا ہے تجھہ سے
جہاں میں شور و شر سارا ہے تجھہ سے
حجاب ِ دیدہ بینا نہیں تو
نگہ سے گرچہ ہے پردہ نشیں تو
ترے کھانے سے دم لیتی ہے خلقت
تیرے کھانے پہ دم دیتی ہے خلقت
ہمیں تیری ضرورت ہے بہرطور
نہیں ایسی ضروری شے کوئی اور
اگر اک لمحہ گزرے ہم پہ تجھُہ بن
تو ہو جائے تنفس غیر ممکن
ہے تیرا شغل دائم پاس ِ انفاس
نہیں ہے ورنہ تجھہ بن زیست کی آس
توہی ہے اے نسیم صبح گاہی
مثال ِ رحمت ِ عام ِ الٰہی
جہاں میں ہیں تیرے الطاف حاوی
غریبوں اور امیروں میں مُساوی
کبھی بنتی ہے ایسی تندو پرشور
معاذاللہ ! معاذاللہ ! ترا زور

اگر تو خشمگیں اے تند خو ہو
تہ و بالا جہازِ جنگ جو ہو
کبھی دریا میں لے جائے بہا کر
کبھی ساحل پہ دے پٹکے اُٹھا کر

60
اُڑاتی ہے اُسے تو راہ بے راہ
جہاز آگے ترے مثلِ پرِکاہ
معاذاللہ ترا طوفاں غضب ہے
تیری تیزی نشان ِ قہر رب ہے
اُجاڑا تو نے گلزارو چمن کو
بلا ڈالا ہے جنگل اور بن کو
یہ چھیڑانے کی کیسا راگ تو نے
نیستاں میںلگادی آگ تونے
تیری رفتار ہے بے باک کیسی
اُڑاتی ہے زمیں کی خاک کیسی
یہ گُل کترے ہیں تونے بے تامل
کیا اک دم زدن میں شمع کو گل
کبھی گرمی سے گرما گرم ہے تو
کبھی سردی سے سرد ونرم ہے تو
چُرا لیتی ہے تو پانی کو چپ چاپ
نظر آتا نہیں جب بن گیا بھاپ
برودت کی پولیس نے تجھہ کو گھیرا
تو کُچھہ کُچھہ مال مسروقہ کو پھیرا
جو بادی چور تو ایسی نہ ہوتی
نہ پانے صبح کو شبنم کے موتی
دبائیں تو نہیں دبنے سے انکار
تیری عادت نہیں ہے ضد و اصرار
خوشامد تیری خصلت میں نہیں ہے
تیری تیزی برابر ہر کہیں ہے
اُجاڑا اگر کسی مفلس کا چھپر
اُکھاڑا خیمہ و خرگاہِ لشکر
نہ در گزرے غریبوں کے مکاں سے
نہ جھجکے طرہ تاج ِ شہاں سے
نہیں کُچھہ تجھہ کو خوفِ شانِ سلطاں
اُڑایا پردہ ایوان ِ سلطاں
کسی کا طرہ طرار چھیڑا
کسی کا برقعِ زرتار چھیڑا
غرض دلچسپ تیری ہر ادا ہے
تیری شوخی و چالاکی بجا ہے
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل
صفحہ نمبر 61

(45) ایک گنوار اور قوس قزح

تھی شام قریب اور دہقاں
میداں میں تھا گلہ کا نگہباں
دیکھی اُس نے کمان ناگاہ
جو کرتی ہے مینہ سے ہم کو آگاہ
رنگت میں اُسے عجیب پایا
ظاہرمیں بہت قریب پایا
پہلے سے وہ سُن چکا تھا اکثر
ہے قوس میں اِک پیالہ زر
مشہور بہت ہے یہ کہانی
افسانہ تراش کی زبانی
ملتی ہے جہاں کماں زمیں سے
ملتا ہے وہ جامِ زروہیں سے
سوچا لو جام اور بنو جم
چھوڑو بزو گو سفند کا غم
بیہودہ گنوار اس گماں پر
سیدھا گیا تیر سا کماں پر
دن گھٹنے لگا قدم بڑھایا
امید کہ اب خزانہ پایا
جتنی کوشش زیادہ ترکی
اُتنی ہی کماں پرے کو سرکی
پنہاں ہوئی قوس آخرِ کار
اور ظلمت شب ہوئی نمودار

ناکام پھرا وہ سادہ دہقاں
حسرت زدہ غم زدہ پشیماں
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل
صفحه نمبر 62
(46) ترک تکبر

بلندی سے چلا سیلاب ِِ پُر زور
پہاڑی گھاٹیوں میں مچ گیا شور
ہوا اس تیزی وتندی سے جاری
کہ تھی سنگِ گراں پر ہول طاری
شجر تو کیا اُٹھاتے اُس کی ٹکر
بہم ٹکرا دئے پتھر سے پتھر
غرض ڈھایا بہایا اور توڑا
پڑا جو سامنے اُس کو نہ چھوڑا
چلا وادی کی جانب موج در موج
جلو میں تھی خس و خاشاک کی فوج
اُسی زمرہ میں اک لکڑی بھی بہتی
چلی جاتی تھی اور یوں دل میں کہتی
میں راہ و رسم منزل سے ہوں آگاہ
یہ سارا قافلہ ہے میرے ہمراہ
اشاروں پر مرے چلتا ہے پانی
ہے میرے بس میں دریا کی روانی
مرے دم سے رواں یہ کارواں ہے
مرا تابع ہے جو کئی یہاں ہے
قضا را موج نے پلٹا جو کھایا
تو اک پتھر نے لکڑی کو دبایا
کہا لکڑی نے او گستاخ مغرور
مرے دہن سے اپنا ہاتھہ رکھہ دور
کہ میں ہی بدرقہ ہوں رہنما ہوں
امیرِ بحر ہوں اور ناخدا ہوں
مجھے او بے ادب کیوں تونے چھیڑا
جو میں ڈوبی تو بس ڈوبا یہ بیڑا
رُکوں گی میں تو رُک جائے گا دریا
کُڑھے گا اور پچھتائے گا دریا
کہا پتھر نے کہہ ساحل سے احوال
کہ ہے ہم سب میں وہ پیرِ کہن سال
صفحہ 63

کہی لکڑی نے ساحل سے وہی بات
تو ساحلِ نے صدایوں دی کہ ہیہات !
ہزاروں مدعی آگے بھی آئے
بہت جوش و خروش اپنے دکھائے
گیا سالم نہ کوئی اس بھنور سے
یہی دیکھا کیا ہوں عمر بھر سے
ہوئے یاں غرق لاکھوں تجھہ سے فرعون
نہ پوچھا پھر کسی نے یہ کہ تھے کون
مگر دریا کی باقی ہے وہی آن
وہی رونق وہی عظمت وہی شان

نہیں دریا کی موا جی میں کُچھ فرق
اُسے کیا غم ترے کوئی کہ ہو غرق
 

خرد اعوان

محفلین
(47) حیا

او حیا ! او پاسبانِ آبرو !
نیکیوں کی قوتِ بازو ہے تو
پاکدامانی پہ تجھہ کو ناز ہے
کیا ہی تیرا دل پذیر انداز ہے
کُھب گئی جس آنکھہ میں تو مثلِ نور
بدنگاہی سے رہی وہ آنکھہ دور
دامنِ عصمت کو تو رکھتی ہے پاک
ہے سدا جرم و گنہ سے تجھہ کو باک
گر نہ ہوتا درمیاں تیرا حجاب
فعلِ بد سے کون کرتااجتناب
خواہشوں کو جو نہ تو دیتی لگام
آدمی حیوان سے بن جاتے تمام
جب خطا کرتی ہے دل میں شوروشر
تو ہی بنجاتی ہے واں سینہ سپر
ذلت و خواری تجھے بھاتی نہیں
تاب رسوائی کی تو لاتی نہیں


64

تو مذلت کو سمجھتی زہر ہے
اور ملامت تیرے حق میں قہر ہے
مُفلسوں کی ہےتو ہی پشت و پناہ
تو سجھاتی ہے عرق ریزی کی راہ
گوتہی دستی کے ہو جائیں شکار
ہے مگر تجھ کو گدائی ننگ و عار
ہے ترے نزدیک مرجانا پسند
پر نہیں ہے ہاتھہ پھیلانا پسند
اس قدر تجھہ کو نہیں پروائے نان
جس قدر تو آن پر دیتی ہے جان
آبرو کھوتی نہیں از بہرِ قوت
لب پہ بنجاتی ہے تو مہرِ سکوت
اغنیا کے دل کو گرماتی ہے تو
بخل اور خست سے شرماتی ہے تو

تو سکھا دیتی ہے اُن کو بذلِ مال
زخم خنجر ہے تجھے ردِ سوال
 

خرد اعوان

محفلین
(48) کچھوا اور خرگوش

ایک کھچوے کے آگئی جی میں
کیجئے سیروگشت خشکی میں
جارہا تھا چلا ہوا خاموش
اُس سے ناحق اُلجھہ پڑا خرگوش
میاں کھچوے ! تمہاری چال ہے یہ
یا کوئی شامت اور وبال ہے یہ
یوں قدم پھونک پھونک دھرتے ہو
گایا اُتو زمیں پہ کرتے ہو
کیوں ہوئے چل کے مفت میں بدنام
بے چلے کیا اٹک رہا تھا کام
تم کو یہ حوصلہ نہ کرنا تھا
چلو پانی میں ڈوب مرنا تھا

65

یہ تن و توش اور یہ رفتار
ایسی رفتار پہ خدا کی مار
بولا کھچوا کہ ہوں خفا نہ حضور
میں تو ہوں آپ معرف بہ قصور
اگر آہستگی ہے جرم و گناہ
تو میں خود اپنے جرم کا ہوں گواہ
مجُھہ کو جو سخت سُست فرمایا
آپ نے سب درست فرمایا
مجُھہ کو غافل مگر نہ جانئے گا
بندہ پرور بُرا نہ مانئے گا
یوں زبانی جواب تو کیا دوں
شرط بد کر چلو تو دکھلادوں
تم تو ہو آفتاب میں ذرہ
پر مٹا دوں گا آپ کو غرہ
سُن کے خرگوش نے یہ تلخ جواب
کہا کچھوے سے یوں زردی عتاب
تو کرے میری ہمسری کا خیال
تیری یہ تاب یہ سکت یہ مجال
چیونٹی کے جوپرنکل آئے
تو یقیں ہے کہ اب اجل آئے
ارے بیباک ! بدزباں مُنہ پھٹ
تو نے دیکھی کہاں ہے دوڑ جھپٹ
جب میں تیزی سے جست کرتا ہوں
شہسواروں کو پست کرتا ہوں
گرد کو میری باد پا نہ لگے
لاکھہ دوڑے مِرا پتہ نہ لگے
ریل ہوں برق ہوں چھلاوہ ہوں
میں چھلاوے کا بلکہ باوا ہوں
تیری میری نبھیگی صحبت کیا
آسماں کو زمیں سے نسبت کیا
جس نے بھُگتے ہوں تُرکی و تازی
ایسے مریل سے کیا بدلے بازی
بات کو اب زیادہ کیا دوں طول
خیر کرتا ہوں تیری شرط قبول

66

ہے مناست کہ امتحاں ہو جائے
تاکہ عیب وہنر عیاں ہو جائے
الغرض اِک مقام ٹھیرا کر
ہوئے دونوں حریف گرمِ سفر
بسکہ زوروں پہ تھا چڑھا خرگوش
تیزی پُھرتی سے یوں بڑھا خرگوش
جس طرح جائے توپ کا گولا
یا گِرے آسمان سے اولا
ایک دو کھیت چوکڑی بھر کے
اپنی چُستی پہ آفریں کرکے
کسی گوشہ میں سو گیا جاکر
فکر کیا ہے چلیں گے سستا کر"
اور کھچوا غریب آہستہ
چلا سینہ کو خاک پر گھستا
سوئی گھنٹے کی جیسے چلتی ہے
یا بتدریج چھاؤں ڈھلتی ہے
یوں ہی چلتا رہا بہ استقلال
نہ کیا کچُھہ اِدھر اُدھر کا خیال
کام کرتا رہا جو پے در پے
کر گیا رفتہ رفتہ منزل طے
حیف ! خرگوش رہ گیا سوتا
ثمرہ غفلت کا اور کیا ہوتا
جب کُھلی آنکھہ تو سویرا تھا
سخت شرمندگی نے گھیرا تھا
صبرومحنت میں سرافرازی
سُست کچھوے نے جیت لی بازی
نہیں قصہ یہ دل لگی کے لیے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لیے

ہے سخن اِس حجاب میں روپوش
ورنہ کھچوا کہاں ، کہاں خرگوش
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی

صفحہ نمبر 67

(49) مناقشہ ہو او آفتاب

بادِ صحرا نے کہا یوں ایک روز
مہرِ تاباں سے کہ اے گیتی فروز
تو ہے عُلوی ، ور میں سفلی مگر
زورِ بازو میں ہوں میں تجھہ سے زیر
نیرِ اعظم نے فرمایا کہ ہاں
ہواگر ثابت زروئے اِمتحاں
ورنہ ہے پادر ہوا یہ قال و قیل
ہیچ ہے دعویٰ نہ ہو جب تک دلیل
بولی جو یوں ہے تو اچھا یوں سہی
ہاتھہ کنگن کے لیے کیا آرسی
آئیے زور آزمائی کیجئے
اس بکھیڑے کی صفائی کیجئے
اک مسافر اپنی دُھن میں تھا روان
اُس کو انِ دونوں نے تاکا ناگہاں
ہو گئے آپس میں طے قول و قرار
جو لبادہ لے مسافر کا اُتار
بس اُسی کے نام کا ڈنکا بجے
سر پہ دستارِ فضیلت وہ سجے
پھر تو آندھی بن کے پیڑ تھرانے لگے
جُھوک سے جھوکوں کی چرانے لگے
نونہالوں کی کمر بل کھا گئی
پھول پتوں پر قیامت آگئی
کانپ اُٹھے اُس دشت کے کل وجش وطیر
مانگتے تھے اپنے اپنے دم کی خیر
ہو گیا دامانِ صحرا گردبرد
گِھر گیا آفت میں وہ صحرا نورد
چاہتی تھی لوں لبادہ کا اُچک
مدعی کو دوں سرِ میدان زک

68

جب ہوا لیتی تھی چکر میں لپیٹ
بیٹھہ جاتا تھا وہ دامن کو سمیٹ
سینہ زوری سے نہ چوری سے ڈری
کر سکی لیکن نہ کچھہ غارت گری
باندھ لی کس کر مسافر نے کمر
تا ہوا کا ہو نہ کپڑوں میں گزر
تھک گئی آخر نہ اُس کا بس چلا
ٹل گئی سر سے مسافر کے بلا
اب تھما جھکڑ تو نکلا آفتاب
روئے نورانی سے سرکائی نقاب
تمکنت چہرے سے اُس کے آشکار
چال میں ایک بردباری اور وقار
وہ ہوا کی سی نہ تھی یاں دھوم دھام
کر رہا تھا چُپکے چُپکے اپنا کام
دھیمی دھیمی کرنیں چمکانے لگا
رفتہ رفتہ سب کو گرمانے لگا
اُس مسافر کو پسینا آگیا
کھول ڈالے بند جی گھبرا گیا
اور آگے کو بڑھا تو دھوپ سے
تن بدن میں کُچھہ پتنگے سے لگے
اب لبادہ کو لیا کاندھے پہ ڈال
بدلی یوں نوبت بہ نوبت چال ڈھال
جب چڑھا خورشید سمت الراس پر
بیٹھہ کر سایہ میں پھر تو گھاس پر
دور پھینکا اُس لبادہ کو اُتار
واہ رے سورج ! لیا میدان مار
تیزی و تندی کے گرویدہ ہیں سب
کامیابی کا مگر ہے اور ڈھب

اُس کا گُر ہے نرمی وآہستگی
سرکشی کی رگ اُسی سے ہے دبی
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی
صفحہ نمبر 69

ناقدردانی

کہیں اک لعل کیچڑ میں پڑا تھا
نہ قامت بلکہ قیمت میں بڑا تھا
کوئی دہقاں اُٹھا کر لے گیا گھر
وہ کیا جانے وہ پتھے ہے کہ جوہر
نیا تحفہ جو بچے کو دکھایا
ہا ہا ہا ! کھلونا ہم نے پایا
ہوئی جب لعل کی واں یہ مدارات
تو بولا حسرتا ہیہات ہیہات
نہیں اِس گھر میں میری قدر ممکن
کہ اندھوں کے لیے کیا رات اور دن
اگر پاتا مُجھے کوئی نظرباز
تو کرتا اپنی قسمت پر وہ سو ناز
جو لے جاتا مجھے تادرگہِ شاہ
تو مالا مال ہوتا حسب دلخواہ
اری ناقدردانی تجھہ پہ لعنت
کہ ہے تجھہ کو مساوی نوروظلمت
سمجھہ لیتی ہے عیبوں کو ہنر تو
خصوصاً تیری نالائق جفا سے

کہ ہے اندھے کی لاٹھی تیری بیداد
جہاں میںداد ہے جس کی نہ فریاد
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی
صفحہ نمبر 69
(51) جنگ روم و روس

حالاتِ روم سے ہمیں دن رات کام ہے
اخبار کا ورق نہیں خوان ِ طعام ہے

صفحہ 70

کیسے خیال جنگ میں روزے گزر گئے
معلوم بھی نہیں کدھر آئے کدھر گئے
سوجھا نہ اور کچھہ ہمیں اس بھوک پیاس میں
دن کاٹتے رہے انہیں خبروں کی آس میں
روزہ خبر بغیر ہمیں بار ہو گیا
آیا جو تارِ فتح تو افطار ہو گیا
چھٹکی ہوئی ہے چاندنی اور صاف آسماں
چُپ چاپ ہے زمیں تو سنسان ہے جہاں
پتا بھی دیکھئے تو کھڑکتا نہیں کوئی
طائر بھی آشیاں میں پھڑکتا نہیں کوئی
خلق ِ خدا پڑی ہوئی سوتی ہے بے خبر
بجنے لگا ہے اتنے میں نقارہ سحر
اس وقت جاگتے ہیں تو آتا ہے خیال
اے ماہ کیا ہے خطہ بلگیریا کا حال
کیا اب بھی گونجتا ہے وہ میدان توپ سے
آتش فشاں ہے لشکر عثمان توپ سے
بلقان کے دروں میں سیلمان ِ صف شکن
کیا اب بھی ہے غنیم کے لشکر میں شعلہ زن
کیا خیمہ زن ہوئی ہے محمد(ﷺ) علی کی فوج
یا خبترہ کی سمت رواں ہے مثال ِ موج
بیکر کے شہسوار ہیں کس داروگیر میں
کیا غلغلہ ہے کوچ کا ترکی بیر میں
کیا اب بھی ہیں مجاہدِ اسلام جاگتے
ہیبت سے جن کی روسیہ پھرتے ہیں بھاگتے
کیا اب بھی ترکتا زمیں ترکی سوار ہیں
جن غازیوں کی تیغ سے روسی فگار ہیں
کیا کر رہی ہے احمد ِ مختار کی سپاہ
فیروز مند غازی جرار کی سپاہ
اے ماہِ نور بار سفر میں ہے تو مدام
حالات جنگ کے تجھے معلوم ہیں تمام
تو جاکے معرکہ میں چمکتا ہے رات بھر
اور سیر دیکھنے کو ٹھٹکتا ہے رات بھر
کرتے تھے اِس طرح سے خیالی خطاب ہم
جب دیکھتے تھے لطفِ شبِ ماہ تاب ہم
لیکن ہجوم اب تو ہے ابرِ بہار کا
ہے آسماں نمونہ صفِ کارزار کا
بجلی کے کوندنے میں ہے شمشیر کی ادا
اور بادلوں کی گھور گرج توپ کی صدا
یوں ابر جھوم جھوم کے آتا ہے بار بار
شیکاپے جیسے حملہ ترکانِ ذی وقار
بددل ہے فوج روس تو ہو اور بھی خراب
عثمانیوں کا دبدبہ ہو جائے کامیاب
ہے یہ دعائے شام یہ ہی نالہ سحر
ہوں تُرک فتحیاب خدایا بکروفر
عثمان پر جو لشکرِ روسی کا ہے ہجوم
ابرِ سیہ کی طرح سے آتا ہے جھوم جھوم
خود زار بھی گیا ہے کمال غرور سے
اور فوج جمع کی ہے بہت دور دور سے
عثمان یا خدا انہیں زیر وزبر کرے
سیلاب خونِ روس سے مٹی کو تر کرے
ترکوں کو ایسی شوکت و شان جلال دے
جو زلزلہ غنیم کو لشکر میں ڈال دے
مشرق کی سمت سے ہو سیلمان گرم کار
افواجِ زار وچ کو دکھا وے رہِ فرار
بلگیریا میں ختم ہو ہنگامہ جنگ کا
رومانیہ نشانہ ہو تُرکی تفنگ کا
دم بند روسیوں کا ہو صمصام تُرک سے
بھاگے سپاہِ روس فقط نامِ تُرک سے
محمود روزِ عید ہے دل سے دعا کرو
حامد یہ التجا بحضورِ خدا کرو

ترکی سپاہ میں علم فتح ہو بلند
پہنونچے سپاہِ زار کو آزار اور گزند
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل
صفحہ نمبر 72
(52) مکالمہ سیف و قلم


1 سیف و قلم میں جو ہوئی دوبدو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شوق ہے تم کو تو سنو موبمو
2 خامہ لگا کہنے کو او تیغ تیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تجھہ سے بھلا کس کو مجالِ ستیز
3 آب وہ تیری کہ نہ ٹھیرے نگاہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنچ وہ تیری کہ خدا کی پناہ
4 رہزن ِ سفاک کی یاور ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خون کے دریا کی شناور ہے تو
5 سیکھے ستم کس ستم ایجاد سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شور ہے برپا تری بیداد سے
6 شوخی و بے باکی و تیزی میں برق ۔ ۔ ۔ ۔ آگ ہے اور آب میں رہتی ہے غرق
7 تند مزاجی میں تو شداد ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیضہء فولاد کی اولاد ہے
8 آتش سوزاں کا پیا تو نے دود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے جاں شور ہے تیرا وجود
9 حیف تیری سختی و آہن دلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوع بشر کی ہے تو دشمن دلی
10 خرمن ہستی میں لگاتی ہے آگ ۔ ۔ ۔ ۔ عافیت وامن سے رکھتی ہے لاگ
11 گو کہ مُجلا ہے تو آئینہ دار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرہ درونی ہے تیری آشکار
12 تیری گھٹی میں پڑا زہر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ چل قیامت تو ادا قہر ہے
13 فتنہ عالم ہے تیرا بانک پن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شوخی و شنگی ہے تیرا خاص فن
14 شکل انوکھی تو نرالی ہے دھج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسم بھی خمدار طبیعت بھی گج
15 قحط زدوں کا ساتن و توش ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانے پہ ڈھو کے تو بلا نوش ہے
16 عرصہ راحت ہے ترے دم سے تنگ ۔ ۔ ایسی لڑاکا کہ بنی خانہ جنگ

73صفحہ

تیری جبلت ہے فُسوق و جدال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناحق وحق کا نہیں تجھکو خیال
18 قتل کا رکھتی ہے بہت چاؤ تو ۔ ۔ ۔ ۔ رَن میں کیا کرتی ہے ستھراؤ تو
19 اُف نہ کرے لاکھہ گلے کاٹ کر ۔ ۔ ۔ جی نہ بھرے تیرا لہو چاٹ کر
20 خلقِ خُدا تجھہ سے ہے آزار کش ۔ ۔ ۔ کرتی ہی رہتی ہے سدا چپقلش
21 بحرِ فنا کہئے تِرے گھاٹ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے دیئے سیکڑوں بیڑے ڈبو
22 گرچہ سراپا ہے تِرا آب گون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر تِری چتون سے ٹپکتا ہے خون
23 تو نے اُجاڑیں بہت آبادیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھین لیں اقوام کی آزادیاں
24 تو نے کڑوڑوں کئے بچے یتیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاکھوں ہی باپوں کے کئے دل دونیم
25 لے گئی ماؤں کی کمائی کو لوٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہگئیں بیچاریاں چھاتی کو کوٹ
26 دُلہنیں روتی ہیں تِری جان کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساتھہ ہی لے جائیں گی ارمان کو
27 موتیوں سے مانگ تھی جن کی بھری ۔ ۔ ۔ اُن سے کراتی ہے تو گدیہ گری
28 تو نے رفیقوں کو رُلایا ہے خوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غم سے عزیزوں کو ہوا ہے جنوں
29 تفرقہ پرداز ! یہ کیا کر دیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گوشت کو ناخن سے جُدا کر دیا
30 شیوہ تِرا شہرہ آفاق ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خون خرابہ میں تو مشّاق ہے
31 چاہتی ہے بغض و عداوت کو تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُنس و محبّت کی نہیں تجھہ میں بو
32 تیری دغابازی ہے ضرب المثل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیر ہے قبضہ سے گئی جب نکل
33 تو نے وفا کی نہیں پٹّی پڑھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس کی ہوئی جس کے تو ہتّے چڑھی

74صفحہ

34 کوں کرے تجھہ سے رفاقت کی آس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھہ نہیں تجھہ کو حق ِ صحبت کا پاس
35 رکھتی نہیں سابقہ لطف یاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ کور نمک ہے ترا کیا اعتماد
36 میل حریفوں سے یگانوں سے چھوٹ ۔ ۔ ۔ ۔ نکلے گا مالک کا نمک پھوٹ پھوٹ
37 مملکتیں خاک سیہ تو نے کیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیری قساوت نے اُجاڑی زمین
38 بستیاں کرتی ہیں پڑی بھائیں بھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقبرے آباد ہیں کچھہ دائیں بائیں
39 اُٹھّے تیری ذات سے جو جو فساد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل تواریخ کو کچُھہ کچُھہ ہیں یاد
40 ثبتِ جریدہ اُنھیں میں نے کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے وہ خلاصہ تری روداد کا
41 تو ہی بھرت کھنڈ کی بھارت میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ تیری خوشی جانوں کی غارت میں تھی
42 ہند کے جودھا تھے بڑی سوربیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کھا گئی تو سب کو دمِ داروگیر
43 تو نے نصیحت نہ کسی کی سنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹ کئے اُس عہد کے گیانی گنی
44 وادی ِ توران میں چمکی کبھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیتی تھی ایران کو دھمکی کبھی
45 باڑھ پہ تیری جو چڑھا پہلواں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام کوبھی اس کا نہ چھوڑا نشاں
46 تیری جو ضحاک سے گہری چھنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوم کا ہر فرد بنا کشتنی
47 معرکہ رستم و افراسیاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیری بدولت ہوا زیب ِ کتاب
48 قتل کا دھبّا ترے دامن پہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خون ِ سیاوش تری گردن پہ ہے
49 خاک اُڑائی یہ تِری آب نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان دی ناشاد ہی سہراب نے
50 تو جو طرفدار ِ سکندر ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاک میں دارا کو ملا کر ہوئی

صفحہ 75


51 تختِ کیاں کا دیا تختہ اُلٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کردی یونان کی کایا پلٹ
52 لشکر یوناں کی جلو جب پھری ۔ ۔ ۔ ۔ باختروبلخ پہ بجلی گری
53 تو نے عرب سے جو کیا اتفاق ۔ ۔ ۔ ۔ فارس و روما کی مٹی طمطراق
54 جب ہوئی فارس پہ تیری دست برد ۔ ۔ وحمنہ بنی یارگہِ یزد جُرد
55 شوکتِ ساسان کے ڈیرے لدے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بُجھہ گئے زردشت کے آتشکدے
56 غرب کی جانب کو جو تو جھُک پڑی ۔ ۔ شام پہ ایک ضرب لگائی کڑی
57 روم کیا برپا کیا شور ِ نشور ۔ ۔ ۔ ۔ دولت ہر قل کا ہوا شیشہ چور
58 توڑ دیا روم کا سارا طلسم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہ گیا بے جان سا مردار جسم
59 ہاشمیوں کا نہ دیا تو نے ساتھہ ۔ ۔ ۔ آلِ اُمیہ کا پڑا تجھہ پہ ہاتھہ
60 ڈھایا ہے کیا تو نے غضب برملا ۔ ۔ گرم کیا معرکہ کربلا
61 طرفہ ستمگار ہے عالم میں تو ۔ ۔ ۔ ۔ عید مناتی ہے محرم میں تو
62 پھٹ نہ گیا کیوں ترا ظالم جگر ۔ ۔ ۔ ۔ ڈوب مری کیوں نہ تو اے خیرہ سر
63 قہر الٰہی سے جو ڈرتی کبھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرتی پہ یہ کام نہ کرتی کبھی
64 ہند پہ محمود کی لشکر کشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد دلاتی ہے تری سرکشی
65 بدلی ہوا ایک تیری چال میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوٹ پڑی دولت جے پال میں
66 کیا ہی نظر سوز تھی تیری چمک ۔ ۔ دھاک تھی کالجنروقنوج تک
67 یاد ہیں کچُھہ تجھکو عجب داؤ گھات ۔ ۔ توڑ دیا بت کدہ سومنات
68 تو نے ہڑپ کر لیے لاکھوں ہی سر ۔ ۔ ۔ کم نہ ہوئی پر تری جوع البقر
69 غور سے جس دم تری آندھی چلی ۔ ۔ ۔ ۔ ہند کی سینا میں مچی کھلبلی
70 رائے پتھورا کا وہ جاہ وجلال ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو گیا پل مارتے خواب و خیال
71 بن گئی ہر بزم طرب غم کدہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دہلی و اجمیر تھے ماتم کدہ



76صفحہ

72 سوگ میں رانی نے کیا سینہ چاک ۔ ۔ ۔ آتش ِ سوزاں میں ہوئی جل کے خاک
73 رائے رہا اور نہ رانی رہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زیبِ سخن تیری کہانی رہی
74 چونک پڑا فتنہ جنگِ تتار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لشکرِ چنگیز کا اُٹھّا غبار
75 چھا گیا اِک ابرِستم چار سو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خون کے سیلاب بہے کوبکو
76 کٹ گئے خوارزم وخراساں کے باغ ۔ ۔ ۔ ۔ زمزمہ بلبل کا بنا شورِ زاغ
77 دیلم و بغداد پہ ٹوٹا غضب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درہم برہم ہوئی بزمِ عرب
78 صرصر تارج چلی سر بسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آگ وہ بھڑکی کہ جلے خشک و تر
79 تیرے ہی کوتک تھے یہ اے نابکار !۔ ۔ ۔ کیا کہوں بس تجھہ کو خدا کی سنوار
80 کشورِ یورپ سے اُٹھا غلغلہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وادیِ یردن میں پڑا زلزلہ
81 حربِ صلیبی تھی وہ خونخوار جنگ ۔ ۔ ۔ ٹوٹ پڑا جس کے لیے کلُ فرنگ
82 تو جو برہنہ ہوئی او فتنہ گر !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تن سے جُدا ہو گئے نولاکھہ سر
83 نِکلا تجھے لے کے جو تیمورِ لنگ ۔ ۔ ۔ پھونک دیا چار طرف صورِ جنگ
84 چوس لیا رُوس کا خونِ جگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ داب دئے قاف میں دیووں کے سر
85 خون سے گل خاکِ صفا ہاں ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ کانپ اُٹھی تختگہِ ہند بھی
86 ناحئہ شام سے تاحّدِ چیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مقتلِ انساں بنادی زمیں
87 تو جو بنی ہمدمِ نیپولین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بول دی یورپ میں صداے بزن

صفحہ 77

88 تاجور اطراف کے تھّرا گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناک میں ہمسایوں کے دَم آگئے
89 جب ہوئی نادر کی توزیبِ کمر ۔ ۔ ۔ ۔ خلقِ خدا بول اُٹھی الحذر
90 حضرتِ دہلی کنفِ عدل و داد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کو کیا تھا کبھی خسرو نے یاد
اُسکی یہ حالت ہوئی زاروزبوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوچئہ وبرزن میں بہی جوی خوں 91
92 دینے لگے اُس میں صدا خوف و بیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زلزلة الساعة شئی عظیم
93 کیجئے اقصّہ کہاں تک بیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فردِ مظالم ہے تِری داستاں
94 میری غرض تیری فضیحت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ بلکہ بجز پندونصیحت نہیں
95 تند تھی ازبسکہ صریر قلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سُن کے ہوئی تیغِ دودم بھی علم
96 آتشِ غیظ اُس کی بھڑکنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجلی کی مانند کڑکنے لگی
97 ڈانٹ کے بولی کہ خبردار ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب مری باری ہے لے ہشیار ہو
98 بد ہوں خدا جانے کہ ہوں نیک میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکھتی ہوں دل اور زباں ایک میں
99 مُجھہ کو دو رنگی نہیں بھاتی ذرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میل ملاتی نہیں کھوٹا کھرا
100 مہر ہو تو مہر جوکیں تو کیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یک جہتی ہے مِرا آئین و دیں
101 بات کی ہرگر نہیں زنہار پچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا خمیر اور مِرا کَس بَل ہے
102 حُجّتِ قاطع ہوں میں سر تابپا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑتی باقی نہیں تسمہ لگا
103 جبکہ نہ ہو فصلِ خصومت بہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے سوا کون بنے واں حَکَم
104 عیب کہو میرا اسے یا ہنر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فیصلہ دو ٹوک اِدھر یا اُدھر
105 تیری طرح کا ہے کو باتیں گھڑوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑنے پر آؤں تو میں سنمکھہ لڑوں
106 خوب کیا تو نے نکالی جو چھیڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونگی ابھی میں ترے بخیے اُدھیڑ



78 صفحہ

107 جنگ کا بوتی ہوں اگر بیج میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینچ کے پھر اِس کو بتدریج میں
108 پود بڑہاتی ہوں وہ نِعم البَدل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رفق و مُدارا کے لگیں جس میں پھل
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی
صفحہ نمبر 78


(53) شمع ہستی

اے شمع ہستی ! اے زندگانی !
بھاتی ہے دل کو تیری کہانی
ہے کوچ تیرا ہر لمحہ جاری
جاتی ہے بگ ٹٹ تیری سواری
بجلی سے بڑھکر بے تاب ہے تو
یا واہمہ ہے یا خواب ہے تو
کیوں چُپ چُپاتی ہر دم رواں ہے ؟
آئی کہاں سے جاتی کہاں ہے ؟
ظاہر ہیں یوں تو سب پر ترے گُن
لیکن نہ پایا تیرا سروبُن
گزرا نہ کوئی اِس ہفت خواں سے
جاہل ہیں تیرے سّرِ نہاں سے
فی الجملہ ہمّت سب ہار بیٹھے
ہیں سر بّرا نو ناچار بیٹھے
اے زندگانی ! اے شمع ہستی !
سونی پڑی تھی تُجھہ بن یہ بستی
چاروں طرف تھی چھائی اندھیری
ناگاہ اُٹّھی اِک ڈیک تیری
وہ ڈیک تھی بس نور علٰے نور
کاہ ےکو رہتی پردہ میں مستور
پھولوں میں جھلکی تاروں میں چمکی
بخشی جہاں کو رونق اِرم کی
ہوتا نہ یاں جو تیرا ٹھکانا
چوپٹ ہی رہتا یہ کارخانہ


صفحہ 79

کیا پھونک ماری دنیا کے تن میں !
گویا لگا دی دَوں خشک بن میں
بزمِ جہاں میں رونق ہے تجھہ سے
اِس میکدہ میں ہو حق ہے تجھہ سے
ہے تیرے دم سے اے عالم آرا !
بزم عروسی آفاق سارا
سرگرم ہے تو جادوگری میں
ہیں تیرے عشوے خشکی تری میں
مٹّی کا جوبن تو نے نکھارا
دیے دے کے چھینٹے اُس کو اُبھارا
بے حِس کو بخشا اِحساس تو نے
دی مُشتِ گِل کو بو باس تو نے
تھی بھولی بھالی بھونڈی بہنگم
تو نے سکھایا اُس کو خم و چم
کرتب سے تیرے سانچے میں ڈھلکر
کنُدن سے نکلی رنگت بدلکر
ٹُھکرا کے تو نے کہدا "قم "
اُٹھہ بیٹھی فورا کرتی تبّسم
بھولی ہے اپنی اوقات پہلی
پھرتی ہے خوش خوش کیا اہلی گھلی
پاتی ہے خلقت جب تیری آہٹ
ہوتی ہے پیدا ایک گُدگُداہٹ
مچتا ہے پھر تو اودھم غضب کا
بجتا ہے ڈنکا عیش وطرب کا
کہتی ہے دنیا تو ہے تو کیا غم
تو آئے نِت نِت تو آئے جم جم "
جیتے ہیں جب تک مرتے ہیں تُجھہ پر
سب کُچھہ تصّدق کرتے ہیں تُجھہ پر
کیا مال ہے جو تیرے سوا ہے
تو ہی نہ ہو تو سب پردھتا ہے
اے سب کی پیاری سب کی چہیتی
کہہ مُنہ زبانی کُچھہ آپ بیتی
قُدرت کے گھر کی میں لاڈلی ہوں
نازو نعم سے برسوں پلی ہوں
تقویمِ احسن میرا لگن تھا
فردوسِ اعلٰی میرا وطن تھا
حورومَلک کی آبادیاں تھیں
بے فکریاں تھیں آزادیاں تھیں


صفحہ 80

چلتی تھی ہر دم بادِ بہاری
شیروعَسَل کی نہریں تھیں جاری
میری ادا پر مرتے تھے قُدسی
سجدہ پہ سجدہ کرتے تھے قُدسی
تکریم میری ہوتی تھی ازحد
ہیں داستانیں جس کی زباں زد
پھر دیس چھوٹا گزری سو جھیلی
پردیسیوں کا اللہ بیلی !
پَل مارنے کا ہے یاں بسیرا
حُبّ ِ وطن ہے ایمان میرا
آب و ہوا میں دشت وجبل میں
میری رسائی ہے ہر محل میں
لیکن یہاں میں خلوت نشیں ہوں
ہوں اِس طرح پر گویا نہیں ہوں
خوابِ گراں کی حالت ہے طاری
مستی میں گُم ہے سب ہوشیاری
جب آتے آتے سبزہ میں آئی
کروٹ بدل کر میں لہلہائی
انگڑائیاں لیں مُنہ کھول ڈالا
پَر آنکھہ سے کُچھہ دیکھا نہ بھالا
داخل ہوئی جب حیواں کے تن میں
اِک شور اُٹّھا اِ انجمن میں
انساں کا جامہ جب میں نے پہنا
اللہ رے میں کیا میرا کہنا !
کس کس جتن سے میں نے بنایا
رُتبہ رُتبہ پایہ بہ پایہ
جامد کو نامی نامی کو حیواں
حیوان کو وحشی وحشی کو انساں
پھیلایا میں نے کیا کیا بکھیڑا
شادی و غم کے ارگن کو چھیڑا
نیکی بدی کے میلے جمائے
جھوٹ اور سچ کے سکّے چلائے
جو ناچ میں نے جس کو نچایا
وہ ناچتے ہی اُس کو بَن آیا
القصّہ ہوں میں وہ اسمِ اعظم
ہے جس کے بس میں تسخیرِ عالم
کُچھہ کُچھہ کھُلے ہیں انداز میرے
دیکھے ہیں کس نے اعجاز میرے
مجھکو نہ سمجھو تم آج کُل کی
ہوں موجِ مضطر بحرِ ازل کی
رکھوں گی جاری یونہی سفر میں
قعرِ ابد کی لوں گی خبر میں
ہے میری ہستی اِک طرفہ مضموں
کچُھہ بھی نہیں ہوں پر میں ہی میں ہوں
سنتے رہو گے میری کہانی
جب تک ہے باقی دُنیائے فانی
 

خرد اعوان

محفلین
کلیات اسمٰعیل میرٹھی
صفحہ نمبر 80




(54) مثنوی فی العقائد

ذاتِ حق اپنے آپ ہے موجود
کوئی اُس کے سوا نہیں معبود
اُس کا جوڑا نہیں مثال نہیں
اُس کو گھاٹا نہیں زوال نہیں
اُس کا جو وصف ہے سو کامل ہے
نہ کسی سے جدا نہ شامل ہے
اُس کا ساجھی نہیں شریک نہیں
اور کو مانئے تو ٹھیک نہیں
جانتا ہے وہ اَن ہوئی باتیں
دیکھتا ہے ڈھکی چُھپی گھاتیں
ہے وہ بے آنکھہ دیکھتا سب کو
ہے وہ بے کان سُنتا مطلب کو
اپنی مرضی سے کام کرتا ہے
بے زباں وہ کلام کرتا ہے
اونگھتا ہے کبھی نہ سوتا ہے
سب ارادہ سے اُس کے ہوتا ہے
وہ قوی ہے کبھی نہیں تھکتا
وہ ہر اک چیر کو ہے کر سکتا
زندہ ہے زندگی کا مالک ہے
جو ہے اُس کے سوا سو ہالک ہے
کہہ سکے کون اُس کو کیسا ہے
آپ ہی جانتا ہے جیسا ہے
 

نایاب

لائبریرین
محترم خرد اعوان جی
السلام علیکم
سدا خوش رہیں آمین
یہ صفحات " کلیات اسماعیل " کے صفحہ نمبر ایک سے دو سو مجھے لکھنے کے لئے دیئے گئے تھے ۔
اور ایک سو تیس صفحات میں لکھ کر پوسٹ بھی کر چکا ہوں ۔
کیا آپ کو بھی یہی صفحات دئے گئے ہیں ۔ ؟
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کو صفحہ اکسٹھ سے چوراسی نہیں بلکہ تین سو اکسٹھ سے لیکر تین سو چوراسی دئے گئے ہوں گے ۔
امید ہے لائیبریری منتظمین کی نگاہ سے بھی یہ تحریر گزرے گی ۔ اور وہ اس غلط فہمی کا ازالہ کریں گے ۔
نایاب
 
Top