کسی کو اسکے ظاہری رکھ رکھاؤ سے جج نہیں کرنا چاہیے۔

ڈائری کا ایک ورق
9ستمبر 2015
آج مجھے پھر وہ گروپ مل گیا۔
میں نے پوچھا ہاں بھئی آج پھر ہو جائے کوئی انٹرویو شنٹرویو؟ اس پہ وہ سب کھلکھلا کر ہنسنے لگے مگر ان میں سے ایک کے چہرے پہ مردنی چھا گئی۔ اصل قصہ یہ ہے کہ کل یونیورسٹی سے واپسی پر میں بس سٹاپ پہنچا تو وہاں پنجاب کالج کے چند طلباء بھی موجود تھے۔ نیا سیشن، بیچارے سکول سے نکل کر پہلی مرتبہ کالج کی کھلی فضا میں آنیوالے نیا یونیفارم پہنے شوخی انکے چہرے سے ہویدا تھی۔ اور میں وہاں کھلے ڈلے کپڑے پہنے، ٹنڈ کروائے سر پہ مولویوں والی ٹوپی پہنےشاید ان کو آسان شکار لگا۔
ان میں سے ایک نے دوسرے کو آنکھ ماری اور وہ مجھ سے انگلش میں سوال جواب کرنے لگ گیا۔ میں چاہتا تو ان کو جواب دے سکتا تھا مگر مصلحتاََ خاموش رہا اور یوں اسے مزید حوصلہ مل گیا اور وہ منہ ٹیڑھا کر کر کے انگریزی بولتا گیا۔
اسی اثنا میں گاڑی آگئی اور میں نے اپنا سٹوڈنٹ آئی ڈی کارڈ نکال کر ان کو دکھایا اور کہا بیٹا میں یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کا طالب علم ہوں، تم پچھلے 20 منٹ سے غلط انگریزی بول رہے ہو۔ آپکی غلط انگریزی سے کم از کم میں امپریس بالکل بھی نہیں ہوا۔
میری اس بات پہ ایک زبردست قسم کا قہقہہ پڑا اور اس لڑکے کے ساتھیوں نے ہی مل کر اس کا خوب خوب توا لگایا۔
سچ ہے کہ کسی کو اسکے ظاہری رکھ رکھاؤ سے جج نہیں کرنا چاہیے۔
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ

لیکن انسان کو اچھا نظر بھی آنا چاہئے،،، پوری کائنات اللہ کی نعمت ہے اور خاص کر زمین کو اللہ نے انسانوں کے لئے مسخر کررکھا ہے تو اچھا پہن کر، کھاکر ، رہ کر، رب العالمین کا شکر ادا کرتے رہنا ہے ۔ اگر بہت کچھ دیا اللہ نے لیکن ظاہری طورپر بہت کنجوس ہے تو یہ بھی غلط ہے انسان جو بھی خرچ کرتا اپنے اوپر، وہ اسی کا ہے باقی سب دنیا میں رہ جانے والی چیزین ہیں،، اگر اپنے اوپر کرتے ہوئے ، اپنے گھر والوں پر، اپنے رشتہ داروں پر ، پڑوسیوں اور ضرورت مندوں پر خرچہ کرتا ہے تو وہ باعث ایصال ثواب جاریہ ہوجائے گا۔

لقد خلقناالانسان فی احسن التقویم۔
 
لقد خلقناالانسان فی احسن التقویم۔[/QUOTE]
ماشاءاللہ بھائی بہت عمدہ نصیحت کی آپ نے مگر کبھی کبھی سادگی بھی اچھی ہوتی ہے خاص طور پہ جب پسلی اتنی اجازت نہ دے۔
 
Top