یاد ہے تسکین اب تک وہ زمانہ یاد ہے
جب چھڑایا تھا فلک نے میرے دلبر سے مجھے
(وہب آتا ہے نسیمہ خاموش ہو جاتی ہے)
وہب : خاموش ہو گئیں ، یہی سن کر تو مین آیا تھا ۔
نسیمہ : اپنا درد کیوں سناؤں جب کوئی سننا نہ چاہے ۔
وہب : شکوہ کرنے کا حق تو میرا ہے ، پھر اسے تم زبردستی چھینے لیتی ہو۔
نسیمہ : تم کہتے ہو تم میرے ہو پر مجھے اس کا یقین نہیں آتا ۔ مجھے ہر دم یہی اندیشہ رہتا ہے کہ تم مجھے بھول جاؤ گے۔ تمہارا دل مجھ سے بیزار ہو جائے گا ۔ مجھ سے بے اعتنائی کرنے لگو گے ۔ یہ خیال دل سے نہیں نکلتا ، تب میں رونے لگتی ہوں اور غم ناک خیالات خوفناک صورتیں اختیار کر کے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ مجھے ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہماری بہار بہت تھوڑے دنوں کی مہمان ہے ، میں تم سے منت کرتی ہوں کہ مجھ سے بے اعتنائی نہ کرنا قرنہ میرا جگر پاش پاش ہو جائے گا ۔ مجھے یہاں آںے سے پہلے کبھی نہ معلوم ہوا تھا کہ میرا دل اتنا نازک ہے ۔
وہب : میری کیفیت اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ میرے دل میں ایک نئی قوت پیدا ہو گئی ہے ۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ اب دنیا کی کوئی فکر ، کوئی ترغیب ، کوئی تمنا میرے دل پر فتح نہیں پا سکتی ۔ کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جس کا میں مقابلہ نہ کر سکوں یہاں تک کہ مجھے اب موت کا بھی غم نہیں ہے ۔ محبت نے مجھے دلیر ، بے خوف اور مستحکم بنا دیا ہے ۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محبت قوت دل کی کیمیا ہے ۔
نسیمہ : وہب تمہاری ان باتوں سے مجھے وحشت ہو رہی ہے ۔ شاید کہیں ہماری تباہی کے سامان ہو رہے ہیں ۔ اب میں تمہیں جانے نہ دوں گی ۔ مجھے اس کی فکر نہیں ہے کہ کون خلیفہ ہوتا ہے اور کون امیر ۔ مجھے مال و زر کی اور جاگیر کی مطلق تمنا نہیں ، میں تمہیں چاہتی ہوں ، صرف تمہیں ۔
( قمر آتی ہے )
قمر : بیٹا وہب ، دیکھ دروازہ پر ظالم زیاد کے سپاہی کیا غضب ڈھا رہے ہیں انہوں نے تیرے والد کو گرفتار کر لیا ہے اور جامعہ کی طرف کھینچے لیے جاتے ہیں ۔
نسیمہ : ہائے ستم اسی لیے تو مجھے وحشت ہو رہی ہے ۔
( وہب اٹھ کھڑا ہوتا ہے ، نسیمہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے)
وہب : نسیمہ میں ابھی لوٹ آتا ہوں ۔ تم گھبرانا نہیں ۔
نسیمہ : نہیں نہیں تم مجھے یہاں زندہ چھوڑ کر نہیں جاسکتے میں زیاد کو جانتی ہوں تمہیں بھی جانتی ہوں ، زیاد کے روبرو جا کر پھر تم واپس نہیں آ سکتے ۔
قمر : وہب اگر نسیمہ تجھے نہیں جانے دیتی تو مت جا ، مگر یاد رکھ تیرے منہ پر ہمیشہ کے لیے ذلت کا داغ لگ جائے گا ۔ میں خود جاتی ہوں ، نسیمہ شاید اب تجھ سے پھر ملاقات نہ ہو گی ۔ شاید یہ آخری ملاقات ہے ۔ رخصت ، وہب یہ گھر بار تجھے سونپا ۔ خدا مجھے نیکی کی توفیق دے اور تیری عمر دراز کرے ۔
وہب : اماں جان ، میں بھی چلتا ہوں ۔
قمر : نہیں تجھ پر اپنی بیوی کا حق سب سے زیادہ ہے ۔
وہب : نسیمہ خدا کے لیے ۔ ۔ ۔
نسیمہ : "نہیں میرے پیارے آقا ، مجھے زندہ چھوڑ کر نہیں۔"