کراچی بین الاقوامی کتب میلہ 2012ء منعقدہ ایکسپو سنٹر کراچی اور ہماری خریداری

فلک شیر

محفلین
کراچی بین الاقوامی کتب میلہ 2012ء منعقدہ ایکسپو سنٹر کراچی اور ہماری خریداری
اتوار نو دسمبر کی صبح جب کراچی شہر کا ایک حصہ علم دوستوں اور کتاب سے محبت رکھنے والوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا اور چوتھے روز آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا، ہم نے بھی چوتھی مرتبہ ہال میں قدم رکھا اور جلدی جلدی سجے ہوئے اسٹالز کی جانب دوڑے گئے مبادا ہماری پسندیدہ کتب کوئی اور صاحب نہ لے اُڑیں۔ کل ہمارے ساتھ ایک مرتبہ تو یہی ہوا کہ ہم نے جس کتاب کو نگاہِ شوق سے دیکھا تھا اور اس کی قیمت دیکھ کر کچھ متذبذب ہوئے اور ارادہ کیا کہ کچھ دور تک ٹہل لگائیں اور اپنے دل کو اس قیمتی کتاب کے خرید نے کے لیے آمادہ کریں،قسمت کی کرنی دیکھیے کہ جب پندرہ منٹ بعد ہم واپس اس اسٹال پر پہنچے اور اپنے پرس کو سنبھال کر وہ خوبصورت کتاب اُٹھایا ہی چاہتے تھے کہ اچانک ہمیں احساس ہوا کہ وہ کتاب تو اپنی جگہ پر موجود ہی نہیں ہے اور کوئی اور منچلا ہماری واپسی سے پہلے ہی ہماری حماقت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کتاب کو لے جاچکا ہے۔ ہمارے دل ناتواں کے لیے یہ دھچکا اتنا شدید تھا کہ ہمیں اس شدید صدمے سے نکلنے میں بہت دیر لگی۔ دل کو سمجھا بجھا کر واپس آئے اور دن کا باقی حصہ اس کتاب کو اس ٹال کے دوسرے گوشوں میں تلاش کرتے ہوئے گزار دیا۔ آج صبح ہر اسٹال پر اس کتاب کی ڈھنڈیا مچائی۔ مآلِ کار اسی اسٹال پر اس کتاب کا غیر مجلد ایڈیشن ہاتھ آیا اور ہم بادلِ ناخواستہ اس پیپر بیک ایڈیشن کو خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ اس خوبصورت کتاب کا نام White Mughals by William Dalrymple تھا۔ اس کتاب کے بارے میں پھر کبھی بیان کریں گے۔ آج ذیل میں​
فقیر کے پاس ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم کا ہدیہ یہی کتاب موجود ہے......بڑی شاندار اور انوکھی چیز ہے.......
 

راشد اشرف

محفلین
خلیل الرحمٰن صاحب اور حسان خان صاحب دونوں کی خریداری بہت اچھی ہے اور چند کتابوں کےبارے دل میں خیال آیا کہ کاش ہم بھی کراچی میں ہوتے اور انہیں خرید سکتے۔
راشد اشرف صاحب بھی یقیناً اس کتاب میلے میں گئے ہوں گے، ان کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

ہندوستانی ناشرین (اردو کتب) کی آمد کا انتظار تھا، وہ حسب معمول نہیں آئے، اردو بازار کراچی کا پھیرا، لاہور سے کتابوں کی آمد اور ہندوستان سے کتابوں اور رسالوں کی آمد کے بعد کچھ ایسا سلسلہ بنا ہے کہ کتآبوں کو رکھنے کی نجی کتب خانے میں جگہ نہ رہی ہے، گھر کے نچلے حصے میں الماریاں علاحدہ سے بنوائی گئی ہیں لیکن کتابیں ہیں کہ تعداد میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے، سو اب کچھ محتاط ہوگیا ہوں۔
 
کراچی بین الاقوامی کتب میلہ 2012ء منعقدہ ایکسپو سنٹر کراچی اور ہماری خریداری
اتوار نو دسمبر کی صبح جب کراچی شہر کا ایک حصہ علم دوستوں اور کتاب سے محبت رکھنے والوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا اور چوتھے روز آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا، ہم نے بھی چوتھی مرتبہ ہال میں قدم رکھا اور جلدی جلدی سجے ہوئے اسٹالز کی جانب دوڑے گئے مبادا ہماری پسندیدہ کتب کوئی اور صاحب نہ لے اُڑیں۔ کل ہمارے ساتھ ایک مرتبہ تو یہی ہوا کہ ہم نے جس کتاب کو نگاہِ شوق سے دیکھا تھا اور اس کی قیمت دیکھ کر کچھ متذبذب ہوئے اور ارادہ کیا کہ کچھ دور تک ٹہل لگائیں اور اپنے دل کو اس قیمتی کتاب کے خرید نے کے لیے آمادہ کریں،قسمت کی کرنی دیکھیے کہ جب پندرہ منٹ بعد ہم واپس اس اسٹال پر پہنچے اور اپنے پرس کو سنبھال کر وہ خوبصورت کتاب اُٹھایا ہی چاہتے تھے کہ اچانک ہمیں احساس ہوا کہ وہ کتاب تو اپنی جگہ پر موجود ہی نہیں ہے اور کوئی اور منچلا ہماری واپسی سے پہلے ہی ہماری حماقت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کتاب کو لے جاچکا ہے۔ ہمارے دل ناتواں کے لیے یہ دھچکا اتنا شدید تھا کہ ہمیں اس شدید صدمے سے نکلنے میں بہت دیر لگی۔ دل کو سمجھا بجھا کر واپس آئے اور دن کا باقی حصہ اس کتاب کو اس ٹال کے دوسرے گوشوں میں تلاش کرتے ہوئے گزار دیا۔ آج صبح ہر اسٹال پر اس کتاب کی ڈھنڈیا مچائی۔ مآلِ کار اسی اسٹال پر اس کتاب کا غیر مجلد ایڈیشن ہاتھ آیا اور ہم بادلِ ناخواستہ اس پیپر بیک ایڈیشن کو خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ اس خوبصورت کتاب کا نام White Mughals by William Dalrymple تھا۔ اس کتاب کے بارے میں پھر کبھی بیان کریں گے۔ آج ذیل میں ہماری اردو خریداری کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔​
۱۔ قسطنطنیہ۔ اڑھائی ہزار سال کی سرگزشت از ہیرلڈ لیم مترجم غلام رسول مہر​
پبلشر فکشن ھاؤس لاہور​
اشاعت ۲۰۱۲ء​
ایک اچھوتا خیال اور ایک خوبصورت کتاب جو ، جہاں ایک طرف خیال کی نیرنگی کی آئینہ دار ہے وہیں دوسری طرف سفاکیِ زمانہ کی دہائی دیتی نظر آتی ہے۔ مولانا غلام رسول مہر اپنے زمانے کے مشہور مفکر، تاریخ داں، مصنف، مترجم اور مولف رہے ہیں ، لیکن آج ان کی کتاب پر ہیرلڈ لیم کا نام بطور مصنف کے اور ان کا اپنا نام بطور مترجم دیکھ کر پہلے تو ہم یہی سمجھے کہ انھوں نے ہیرلڈ لیم کی خوبصورت کتاب کا ترجمہ کیا ہے، لیکن کتاب کے مقدمے کے مندرجہ ذیل سطور نے ہم پر یہ حقیقت واضح کی کہ مہر صاحب نے ہیرلڈ لیم کی مختصر کتاب ’’ قسطنطنیہ ‘‘ کی تلخیص کرکے اسے اپنی کتاب کے پہلے حصے کے طور پر رکھا اور باقی دو حصے خود تحقیق کرکے لکھے۔ ملاحظہ ہو اس مقدمہ کی مذکورہ بالا سطریں:​
’’کتاب کی ترتیب بھی تھوڑی سی تفصیل کی متقاضی ہے یعنی قارئین کی خدمت میں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ کتا ب ملاحظہ فرمانے سے پیشتر وہ جان لیں کہ اس کی تدوین کن کن مراحل سے گزری ہے ۔ امریکہ کے مشہور مصنف ہیرلڈ لیم نے جو چنگیز ، تیمور ، سکندر وغیرہ کے متعلق کتابیں لکھ کر خاصی شہرت حاصل کرچکا ہے ، ایک مختصر سی کتاب کانسٹینٹینوپل’’ قسطنطنیہ‘‘ کے نام سے بھی لکھی تھی جس میں اصلاً قیصر جسٹینین کے عہد کی کیفیت پیش کرنا منظور تھا اور ضمناً ابتدائی حالات بھی اختصار سے بیان کردئیے گئے تھے۔ پیشِ نظر کتاب کا پہلا حصہ ہیرلڈ لیم کی اس کتاب کی تلخیص ہے یس میں کوئی ضروری واقعہ حتیٰ الامکان نظر انداز نہیں کیا گیا، یہ سرگزشت ۶۶۵ء پر ختم ہوگئی ۔
دوسرے حصے میں ساتویں صدی عیسوی کے وسط سے ۱۹۲۴ء تک وہ تاریخی واقعات بیان کیے گئے ہیں جن کے بغیر شہر کی سرگزشت پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ کم و بیش بارہ سو سال کے اہم تاریخی واقعات کا ایسا مرقع ہے جس کی تزئین و آرائش کے لیے بیسیوں تایخی دفتروں کی واق گردانی کرنی پڑی۔
تیسر ےحصے میں شہر کے مناظر، ماحول ، اہم مقامات، تاریخی مساجد و عمارات نیز علمی و فنی نوادر کا اجمالی نقشہ پیش کیا گیا ہے۔
میں کہہ نہیں سکتا کہ اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں ۔ اتنا جانتا ہوں کہ استنبول کے متعلق اس قسم کی جامع اور مختصر تاریخی و معلوماتی کتاب میرے علم کے مطابق اردو زبان میں کوئی نہ تھی۔ اور میں نے اپنی بساط کے مطابق اس ضرورت کو پورا کرنے کی سعی کی، خدا کرے میری یہ سعی مشکور ہو، آمین۔‘‘
۲۔ زندہ رُود۔( تلخیص) تصنیف ڈاکٹر جاوید اقبال۔ تلخیص: محمد سہیل عمر/ طاہر حمید تنولی​
پبلشر اقبال اکادمی پاکستان​
طبع اول ۲۰۱۲ء​
علامہ اقبا ل کی مشہور زمانہ سوانح زندہ رُود‘‘ کی عمدہ تلخیص جس کے متعلق خود جناب سہیل عمر/جناب طاہر حمید تنولی اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں۔​
’’ زندہ رُود اقبال کی سوانح پر لکھی جانے والی تمام کتب میں اپنی جامعیت اور تحقیقی اسنتناد کے حوالے سے امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں علامہ کی زندگی کے واقعات، علمی و فکری ارتقاء اور علامہ کی عملی جدو جہد کو زمانی ترتیب سے بیان کردیا گیا ہے۔
زندہ رُود کی تلخیص آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں تاریخی تفصیلات اور حواشی و حوالہ جات کو حذف کردیا گیا ہےاور بقیہ مواد کا اختصار کیا گیا ہے۔ ‘‘
اسی موضوع پر اصل کتاب جو سنگِ میل پبلشرز کی جانب سے شائع کی گئی ہے اور قیمتاً نو سو روپے میں دستیاب ہے،کے مقابلے میں پانچ سو صفحات کی یہ کتاب خریدنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔امید ہے زیادہ سے زیادہ شایقین اور عاشقین اقبال اس کتاب سے استفادی کرسکیں گے جو ہمیں اقبال اکیڈمی کے اسٹال سے آدھی قیمت یعنی اڑھائی سو روپے میں دستیاب ہوئی۔​
۳۔ کوکھ (ناول )۔ اوریانہ فلاشی ترجمہ سعدیہ امل۔​
ناشر: آصف جاوید برائے نگارشات پبلشرز​
سال اشاعت: ۲۰۰۹ء​
اوریانہ فلا شی کی انگریزی کتاب Interview with history ہم نے کبھی خریدی تھی (جس میں ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو بھی شامل تھا) اوراپنی کتابوںکے ذخیرے میں کہیں گم کرچکے ہیں، آج اس کے ناول کا اردو ترجمہ دیکھا تو اپنے اوپر قابو نہ پاسکے اور فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے اور اس کے خریدار بن گئے۔ کتاب عمدہ ہے اور امید ہے کہ ہماری توقعات پر پورا اترے گی۔​
۴۔ اقبال کا فارسی کلام۔ ایک مطالعہ از رفیق خاور​
ناشر: ڈاکٹر وحید قریشی۔ بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور​
طبع اول جولائی ۱۹۸۸ء​
۵۔ عکسِ جاوید۔ منظوم اردو ترجمہ جاوید نامہ مع حواشی از پروفیسر ظہیر احمد صدیقی​
ناشر: ڈاکٹر وحید قریشی۔ بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور​
طبع اول جنوری ۱۹۹۳ء​
۶۔ دیوانِ حافظ۔ مترجم مولانا قاضی سجاد حسین صاحب۔​
ناشر: فرید بکسٹال۔ لاہور​
علامہ اقبال اور حافظِ شیراز سے ہماری دلچسپی اور ہماری فارسی ناشناسی نے اس وقت ہمارے جیب پر تازیانے کاکام کیا جب مندرجہ بالا کتب ہمیں انتہائی سستے داموں میسر آئیں اور ہم نے بلا جھجک انہیں خرید کر اپنے کتابوں کے خزانے کو اور زیادہ معتبر کرلیا۔​
۷۔ اناطولِ فرانس کے شہرہ آفاق ناول کے خوبصورت اور مشہور ترجمہ از جناب عنایت اللہ صاضب دہلوی کو از سرِ نو فکشن ھاؤس لاہور نے سنہ ۲۰۱۰ء میں چھاپا اور ہم نے تینتیس فیصد رعائت پر خریدا ۔​
۸۔ افسانے جو مشہور ہوئے: انتخاب ارشد ملک​
پبلشر: رُمیل ھاؤس آف پبلیکیشنز​
موسمِ اشاعت: فروری ۲۰۱۰ء​
۹۔ مشہور ترکی مصنف اور اسلامی مفکر جناب فتح محمد گولن کا خدمتِ اقدس سرورِ کائینات جناب محمد مصطفےٰ ﷺ میں خراجِ عقیدت بنام ’’ نورِ سرمدی‘‘ بمع ایک عدد مزید خوبصورت کتاب ’’ اسلام اور دورِ حاضر : جدید ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات‘‘ از جناب فتح اللہ گولن جو ایک عدد خوبصورت پیشکش میں پروئی تھیں خریدیں۔​
’’ ارویانہ فلاشی کو دنیاء کی مشہور صحافی کا کطاب بھی ملا اور اس کی وجہِ شہرت اسکا Interview with history بنا جس میں اس نے تاریخ کے اور سیاست کے مشہور و معروف کرداروں کا انٹرویو بہت منفرد انداز میں کیا اور اسے اتنے ہی منفرد انداز میں لکھا۔‘‘​
ان دس اردو کتب کے متعلق مزید معلومات پھر کبھی۔​

زبردست محمد خلیل الرحمٰن صاحب،

کتابوں کی فہرست اور تعارف پڑھ کر لطف آ گیا اور بڑی کمی محسوس ہوئی کہ ایسے موقع پر میں کیوں نہ تھا۔ چلیں کچھ کمی آپ کی روداد نے پوری کر دی۔
 

تلمیذ

لائبریرین
کتابیں ہیں کہ تعداد میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے، سو اب کچھ محتاط ہوگیا ہوں۔

خوش قسمت ہیں آپ راشد صاحب، کہ اس زمانے میں کتابیں خریدنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور اس ضمن میں کتابوں کے شائقین اورقارئین کو تازہ خبروں اور رجحانات سے باخبر رکھنے کے لئے آپ کی خدمات انتہائی قابل ستائش ہیں۔ براہ مہربانی حتی المقدور اس کام کو جاری رکھئے گا۔ جزاک اللہ!!
 
زبردست خلیل بھائی! آپ نے تو کمال کردیا۔ ہم تین مرتبہ کتب میلہ سے استفادہ کرنے پہنچے۔ اس موقع پر محمود شام صاحب کی چار کتب کی تقریب رونمائی میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ متعدد احباب سے بھی ملاقات ہوئی اور ہاں آپ سے بھی تو ہیلو ہائے ہوئی تھی۔ بہت کامیاب میلہ رہا۔ لیکن انہی ایام میں آرٹس کونسل میں عالمی اردو کانفرنس بھی جاری تھی اور ہم چاہنے کے باوجود وہاں نہ جاسکے۔ کاش ایک ہی شہر میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والی ان تقاریب کے منتظمین اس امر کا بھی خیال رکھیں کہ کوئی دو پروگرام ایک ہی ہفتہ میں منعقد نہ ہوں۔
کمال تو جناب نے کیا۔ ہم نے یہ دیکھا کہ اس میلے میں شرکت کرنے والے افراد تین گروہوں میں تقسیم تھے۔ اول ناشرین و تاجرانِ کتب جن کا مطمحِ نظر کتاب بیچنا تھا۔ اس سلسلے میں گو ان کا یہ مطمحِ نظر بھی قابلِ ستائش ہے کہ تقریباً ہر اسٹالر کچھ نہ کچھ ڈسکاؤنٹ دے رہا تھا۔اللہ ان لوگوں کو خوش رکھے جنھوں نے کتابوں کو اس نیت سے بیچا کہ کم قیمت رکھنے کی وجہ سے زیادہ شائقین تک کتاب کی پہنچ ممکن ہوسکے گی۔ اقبال اکیڈمی والے ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی پچاس فیصد پر انتہائی خوبصورت کتب کویا تقسیم کررہے تھے۔

دوسرا گروہ ہماری طرح کتابوں کے دلدادہ شائقین کا تھا جو جوق در جوق اسٹالز پر منڈلا رہے تھے کہ کہیں کوئی کتاب مِس نہ ہوجائے۔ اس گروہ کے افراد کو دیکھا کہ خوش خوش کتابوں کے بیگ سنبھالے میلے سے واپس نکل رہے تھے کویا میلہ ہی لوٹ کر آرہے تھے۔

تیسری قسم ان افراد کی تھی جنھوں نے اس میلے کو ایک نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے یہاں پر اسٹال لے لیے تھے اور اپنے اپنے خیال کی ترویج میں مصروف تھے ۔ یہ سوشل روکر بھی قابل ستائش ہیں کہ صلے کی پروا کیے بغیر انتھک محنت میں مصروف تھے۔ ہمارے یوسفِ ثانی بھائی بھی اسی تیسرے گروہ میں شامل تھے۔ دیکھا کہ اسٹال نہ ملنے کے باوجود ایک جگہ کھڑے ہیں اور ’’قرآن و حدیث ۔ اوامر و نواہی‘‘ مفت تقسیم کررہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو جزائے خیر دے کہ جو معاشرے کی بہتری کے لیے دامے درمے سخنے دن رات کوشش میں مصروف ہیں۔ اللہ ان کی کوششوں کو مقبول و منظور فرمائے۔آمین۔
 
زبردست محمد خلیل الرحمٰن صاحب،

کتابوں کی فہرست اور تعارف پڑھ کر لطف آ گیا اور بڑی کمی محسوس ہوئی کہ ایسے موقع پر میں کیوں نہ تھا۔ چلیں کچھ کمی آپ کی روداد نے پوری کر دی۔

زبردست خلیل بھائی۔
کچھ دھواں سا کہیں سے نکلتا تو معلوم ہو رہا ہے کہ اتنا بڑا بک فئیر لگا ہوا ہے اردو کتب کا اور ہم ہیں پردیس میں۔۔ :evil:
آپ کی جانب سے کتابوں پر تبصرے کا انتظار رہے گا۔
نبیل بھائی اور محب علوی بھائی!
یہ دھواں سا جو آپ لوگوں کے دلوں سے اٹھتا ہے دراصل ہمیں اختر شیرانی کی نظم کی یاد دلاتا ہے۔
او دیس سے آنے والے بتا۔​
آپ لوگ جو اپنے دیس سے دور پردیس کاٹ رہے ہیں ، آپ کے دل ہمارے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ وطن میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، آپ اس میں شامل ہوتے ہیں۔اردو محفل نے اردو بولنے والوں کے لیے جو دنیاء کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں ، اپنے وطن کی خوشبو مہیا کررکھی ہے۔​
اردو محفل میں ہے بس تصویرِ یار​
جب ذرا نظریں اٹھائیں، دیکھ لی​
خوش رہیے

 
خلیل الرحمٰن صاحب اور حسان خان صاحب دونوں کی خریداری بہت اچھی ہے اور چند کتابوں کےبارے دل میں خیال آیا کہ کاش ہم بھی کراچی میں ہوتے اور انہیں خرید سکتے۔
راشد اشرف صاحب بھی یقیناً اس کتاب میلے میں گئے ہوں گے، ان کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
جزاک اللہ تلمیذ بھائی۔ کتابوں سے آپ کے عشق کا یہ عالم ہے کہ کتابوں کے تذکرے کو کسی بھی طرح مس نہیں کرسکتے۔ اللہ کرے کہ آپ کا یہ شوق بڑھتا رہے۔ علم و ادب کی یہ پیاس آپ کو خوبصورت اور عمدہ کتابوں کے ذخیروں سے ہمکنار کرتی رہے۔ آمین
سچ پوچھیے تو کتابوں کے بارے میں لکھنے کے لیے آپ کی فرمائش مہمیز کا کام دیتی ہے۔ تلمیذ بھائی موجود ہیں کتابوں کے رسیا، ان کے لیے کچھ لکھا جائے۔
خوش رہیے۔
 
Top