حزیں صدیقی کتنے باطل کے پرستار ہیں حق پر کتنے۔۔۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
کتنے باطل کے پرستار ہیں ، حق پر کتنے
بات اتنی تھی کہ برپا ہوئے محشر کتنے

یہ تو ہم ہیں نہ سلگتے نہ دھواں دیتے ہیں
ہوگئے خاک تری آگ میں جل کر کتنے

پہلو پہلو سے پرکھ لیجئے کھل جائے گا
کون آئینہ ہے اور کس میں ہیں جوہر کتنے

جس کو مقدورِ چراغاں ہے اسے کیا معلوم
اک دئے کو بھی ترستے ہیں یہاں گھر کتنے

جھانک ماضی کے دریچے سے کہ تجھ پر وا ہو
تو نے تعمیر کئے گنبدِ بے در کتنے

سیپیاں تیرتی پھرتی ہیں کنارے پہ بہت
ہاتھ آئے کسی غوّاص کے گوہر کتنے

بحر کی موجِ غلط بخش پہ مغرور نہ ہو
ڈوبتے دیکھے ہیں ساحل پہ شناور کتنے

زندگی جاگتے خوابوں کے سہارے گزری
اس کے باوصف کہ تھے ذات میں جوہر کتنے

ہاتھ ٹوٹیں جو کبھی پھول کوئی توڑا ہو
پھر بھی الزامِ چمن آئے مرے سر کتنے

گِن لئے آپ نے گردوں کے ستارے تسلیم
یہ تو فرمائیے ذرّے ہیں زمیں پر کتنے

ایک لمحے میں گزر جاتی ہیں صدیا ں کتنی
ایک لحظے میں بدل جاتے ہیں منظر کتنے

جذب ہو جائیں گے اِس خاک میں اک دن ہم بھی
پی گئی ہے یہ زمیں یونہی سمندر کتنے

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ ، بہت ہی خوبصورت غزل ہے اور خاص طور پر یہ شعر

ہاتھ ٹوٹیں جو کبھی پھول کوئی توڑا ہو
پھر بھی الزامِ چمن آئے مرے سر کتنے

لاجواب
 

مہ جبین

محفلین
Top