کاکے نہیں ہوتے

گل زیب انجم

محفلین
ہوتی ہیں خون ریزیاں جہاں پڑتے ہیں ڈاکے
دیکھا اکثر کے وہاں کبھی ناکے نہیں ہوتے

روز پھٹتے ہیں بم سکولوں میں مسجدوں میں
لیکن دہشت گردوں کی دہشت میں فاقے نیں ہوتے

چینی گندم گھی وغیرہ کر لیے سٹا ک یہ سوچ کر
کہ سدا کے لیے اسیے حسین مواقعے نہیں ہوتے

جانے کس مرض کی دی دوا منضوبہ بندی والوں نے
سب کہہ رہے ہیں کاکیاں ہوتی ہیں اب کاکے نہیں ہوتے

جانے کھا گئی کس کی نظر میرے پھولوں جیسے دیس کو
زیبّ گذرتا نہیں کوئی دن ایسا جس دن دھماکے نہں ہوتے
 
Top