ڈاکٹر یا ڈاکو؟

کعنان

محفلین
ڈاکٹر یا ڈاکو؟
بلاگر: سدرہ ایاز
بدھ 31 اگست 2016


ڈور بیل پر دروازہ کھولا تو پڑوسن سامنے تھیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے میرے بھائی محسن کا پوچھا، وہ اس وقت گھر پر موجود نہ تھا۔ میرا جواب سن کر انہیں بے حد مایوسی ہوئی، بتایا کہ ان کا بیٹا بیمار ہے اور شوہر گھر پر نہیں تھے تو خود ہی کالونی اسپتال لے گئیں۔ ڈاکٹر نے جو دوائیں لکھ کر دی ہیں وہ قریبی کیمسٹ کے پاس دستیاب نہیں۔ کیمسٹ نے انہیں کہا کہ یہ صرف اسی فارمیسی سے ملیں گی جہاں ڈاکٹر بیٹھتا ہے۔ وہ کہنے لگیں، میرا خیال تھا کہ یہاں اتنے بڑے میڈیکل اسٹور ہیں، کسی سے بھی لے لوں گی، مگر مل ہی نہیں رہیں۔ سوچا محسن سے منگوالوں۔ اب اتنی دور دوبارہ جانا میرے بس کی بات نہیں، مگر محسن جانے کب آئے گا۔ دوا تو ابھی دینی ہے۔

میں سمجھ گئی تھی کہ معاملہ کیا ہے، لیکن اس وقت انہیں مخصوص فارمیسی پر دوا کی دستیابی کا ’’راز‘‘ بتا کر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے کچھ کہے بغیر اندر آگئی۔ یوں بھی اس پریشانی میں وہ میری بات کو نہیں سمجھ پاتیں۔ میں اس بات کو تقریباً بھول چکی تھی کہ کل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے متعلق ایک خبر نظر سے گزری اور میں قلم اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔

کچھ دن پہلے یہ بھی سنا تھا کہ بعض دواؤں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید مختلف لیبارٹری ٹیسٹوں کی قیمتیں بھی بڑھی ہوں، مگر وہ نظروں میں کم ہی آتا ہے۔ خیر، ابھی کچھ دن پہلے کی ہی خبر ہے کہ ڈرگ اتھارٹی جعلی اورغیر معیاری دواؤں کی روک تھام کے لیے پاکستان میں پہلی مرتبہ بارکوڈ رولز متعارف کروانے جا رہی ہے اور اب خریدار موبائل فون کے ذریعے دوا کے اصل یا نقل ہونے کے بارے میں جان سکے گا۔ اس کے علاوہ اس پیشے سے منسلک جعل سازوں کے لیے مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں اور یہ کام ابتدائی مرحلے میں ہے۔ شاید اسی مہینے چند دوائیں نئی قیمتوں کے ساتھ مارکیٹ میں آئیں، جس کے ردعمل میں سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر اس کے خلاف ’’تحریک‘‘ چل پڑی ہے جبکہ میڈیا پر خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں، لیکن میری اس تحریر کی وجہ مذکورہ حکومتی فیصلہ یا قیمتوں میں اضافہ نہیں بلکہ پڑوسن کی پریشانی ہے۔

شاید آپ کو بھی تجربہ ہوا ہو کہ گلی محلوں میں قائم طبی مراکز اور نجی اسپتالوں میں بعض ڈاکٹر معائنے کے بعد نسخہ تھماتے ہوئے ہدایت کرتے ہیں کہ مریض فلاں فارمیسی سے ہی دوا خریدی جائے بصورت دیگر کوئی جعلی دوا بھی دے سکتا ہے اور وہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر کوئی بھی ڈاکٹر کو انتہائی ذمہ دار اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھے گا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے والا مریض دراصل مقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنی کی غیر معیاری دوا خرید کر اس نام نہاد مسیحا کی جیب بھاری کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

ایک ٹیبلٹ جس کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانچ، سات روپے تک ہو سکتی ہے، وہ اس ’’مہربان‘‘ ڈاکٹر کی وجہ سے بیس روپے یا اس سے زائد کی پڑتی ہے۔ جی ہاں! اس مقدس اور اہم ذمہ داری سے وابستہ ڈاکٹر اب ناجائز طریقے سے پیسہ بنانے کے لیے انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور ہمیں ان کے ’’طریقۂ واردات‘‘ کو سمجھنا اور اس کا راستہ روکنا ہو گا۔ اس کا سب سے زیادہ شکار ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی جو علاج معالجے کی سہولیات جیسے ضروری لیبارٹری ٹیسٹ، دواؤں سے متعلق بنیادی باتیں جیسا کہ معروف اور غیر معروف کمپنیوں کا فرق اور دوا کے معیاری یا اصل ہونے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔

ہم ڈاکٹر کی ہدایات کو بہت اہمیت دیتے ہیں جو کہ ضروری ہے، مگر ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ سفاک ڈاکٹرز اور غیر رجسٹرڈ دوا ساز ادارے کے گٹھ جوڑ سے ایسی بھی ٹیبلٹ بیچی جا رہی ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ قیمت 5 روپے ہو سکتی ہے، مگر وہ 40 سے 45 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا غیر معیاری ہے تو عام بیماریوں میں مبتلا زیادہ تر مریض صحتیاب کیسے ہوجاتے ہیں؟ اس کی وجہ اُسی نسخے میں لکھی گئی ایک نامور اور مستند کمپنی کی ٹیبلٹ یا سیرپ ہوتا ہے۔ دیگر دوائیں وہ ہوتی ہیں جن سے شفایابی تو ممکن نہیں ہوتی مگر ان کی خریداری ڈاکٹر کو ضرور مالی فائدہ پہنچاتی ہے۔

مہینے کے آخر میں غیر معیاری دواؤں کی فروخت کا حساب کتاب کر کے طے شدہ حصے پر رقم اس فارماسیوٹیکل کمپنی کی جانب سے ڈاکٹر کی جیب میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ اسی لوٹ کھسوٹ کی ایک شکل غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کرنا بھی ہے۔ مختلف مریضوں کو مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے اور اگر کوئی بیچارہ یہ کہہ دے کہ وہ فلاں جگہ سے ٹیسٹ کروالے گا تو ڈاکٹر اس لیبارٹری کی مشینوں اور اس کے طبی تجزیوں کو ناقص قرار دے کر صاف کہہ دیتا ہے کہ وہ رپورٹس تسلیم نہیں کرے گا۔ اس طرح مریض کو خوفزدہ کرنے سے جیت سفاک مسیحا کی ہوتی ہے اور مجبور مریض بیماری کی اذیت جھیلنے کے ساتھ مالی طور پر خسارے میں رہتے ہیں۔

میں اپنی معلومات کے مطابق جعل سازی اور دھوکا دہی کے کچھ عام طریقوں کی نشاندہی کر رہی ہوں، لیکن ملک کے طول وعرض میں موجود ایماندار ڈاکٹرز اور کیمسٹ حضرات سوشل میڈیا پر اپنے پیشے کی بدنامی کا باعث بننے والوں کے دیگر ’’طریقۂ واردات‘‘ سے بھی پردہ اٹھائیں تو بہت افراد کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت بھی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ایسے بدعنوان ڈاکٹروں کے کان کھینچے تو کئی زندگیاں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ ذرا ماضی قریب میں جائیے تو سرکاری اسپتالوں کے بظاہر مجبور اور بے بس ڈاکٹر تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر ہڑتال پر نظر آتے ہیں، مگر دوسری طرف ان کی اکثریت نجی اسپتالوں میں لوٹ کھسوٹ میں بھی مصروف ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمران اس حوالے سے حقیقی معنوں میں کوئی قدم اٹھاتے نظر نہیں آرہے۔ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں اب بھی کام کررہی ہیں اور ڈاکٹر سرکاری شفاخانوں سے غیرحاضر جبکہ نجی اسپتالوں میں حاضر نظر آتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ چند ماہ پہلے دوا ساز کمپنیوں نے قیمتوں میں اضافہ کیا تھا تو سوشل نیٹ ورکس پر صارفین یعنی عوام نے اضافے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے حکومت سے اس کے خلاف قانون کو حرکت دینے کا بھرپور مطالبہ کیا تھا، لیکن سرکاری سطح پر دوا سازوں سے بات چیت کا سلسلہ چلا تو لوگ مطمئن ہو گئے اور دو ماہ بعد فیس بک ہی کیا ہر طرف اس حوالے سے خاموشی چھا گئی۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر گروپ کی شکل میں نام نہاد سفاک منافع خوروں کے خلاف سرگرم ہو جائیں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر پڑھے لکھے اور طب و صحت کے شبعے سے وابستہ ایماندار اور باشعور لوگ آگے آئیں تو نام نہاد مسیحاؤں کے گھناؤنے کردار اور جعلی ادویہ ساز اداروں کے گٹھ جوڑ کا راز سب پر عیاں ہو سکتا ہے، جس سے لوگوں میں شعور و آگاہی پھیلے گی اور یہ ’’جرم‘‘ ٹھکانے لگ جائے گا۔

589764-image-1472026414-752-640x480.jpg

اس طرح مریض کو خوفزدہ کرنے سے جیت سفاک مسیحا کی ہوتی ہے اور مجبور مریض بیماری کی اذیت جھیلنے کے ساتھ مالی طور پر خسارے میں رہتے ہیں۔

ح
 

ربیع م

محفلین
ایک واقعہ یاد آگیا ہمارے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا!
ڈاکٹر نے نسخہ لکھ کر دیا اور کہا فلاں میڈیکل سٹور سے ادویات خرید لو، اب اس نسخہ میں یہ کمال ہوتا ہے کہ وہی سٹور والا ہی سمجھ پاتا ہے، خیر دوست سمجھدار تھا اسے کہا یہ ادویات چاہئیں اس نے نکال کر بل بنایا جو کہ 6000 تھا، دوست نے اتنی دیر میں دیکھ لیا کہ کون کون سی ادویات ہیں، اسے کہا میں ابھی آتا ہوں ۔
وہی ادویات جب دوسرے میڈیکل سٹور سے خریدیں تو 1500 میں ملیں!!!!
 

فاخر رضا

محفلین
سلام. بہت اچھا لکھا ہے. لیکن یہ صرف tip of the iceberg ہے. مسئلہ بہت گھمبیر ہے اور اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں. اس بات کو جتنا بھی ڈسکس کیا جائے کم ہے.
 

فاخر رضا

محفلین
یہاں میں ایک اور بات واضح کرنا چاہتا ہوں
بین الاقوامی دواساز کمپنیاں چار آنے کی چیز سو روپے میں بیچتے ہیں جو کہ زیادتی ہے. ساتھ ہی کم قیمت پر غیر معیاری دوا بیچنا بھی غلط ہے.
اب اسکا حل کیا ہے.
امیر آدمی تو مہنگے ڈاکٹر اور مہنگی دوا استعمال کرلیتا ہے مگر غریب کہاں جائے.
انڈیا میں کچھ اسٹیٹس، جن میں شاید گجرات بھی شامل ہے، نے سرکاری سرپرستی میں جینیرک دواؤں کی دکانیں کھولی ہیں جہاں سے ہر فارمولے کی معیاری مگر جینیرک دوا بہت ہی کم قیمت پر مل جاتی ہے.
پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں دواؤں کے متبادل بتانے کے لئے ویبسائٹ اور اینڈرواڈ ایپ موجود ہے. اس ذریعے سے آپ آسانی سے جینیرک دوا کا معلوم کرسکتے ہیں. اس طرح کی دکان کے لئے حکومت پچاس ہزار روپے دیتی ہے جو شاید تین سو ڈالر بنتے ہیں.
اس طرح کی کچھ این جی اوز بھی لوگوں کی آگاہی کے لئے کام کر رہی ہیں. انڈین ایکٹر عامر خان اس میں کافی سرگرم ہے.
لوگوں کو ایجوکیٹ کئے بغیر گزارہ نہیں ہے، اصل فساد کی جڑ ہی جہالت ہے.
دوسرے اگر ڈاکٹر خوف خدا اور تقوی اختیار کریں تو مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے.
تیسرے ڈاکٹر اور مریض کی جیب کا تعلق ختم کیا جائے. اس کے لیے انشورنس کا سسٹم کارگر ہوسکتا ہے
ڈاکٹرز کے معاشی مسائل حل ہوں.
ہر ڈاکٹر کا پاسپورٹ گورنمنٹ چیک کرے کہ وہ کس کانفرنس میں کس ادارے کی طرف سے گیا اور اس میں اس فارما کمپنی کو کیا فائدہ تھا.
اسی طرح اور بھی کچھ معروضات ہیں جو عرض کروں گا انشاء اللہ
 

قیصرانی

لائبریرین
آج سے بیس سال قبل ایک جی پی کو ٹائیفائیڈ کی ایک دوائی کی ایک سال کی پرسکرپشن پر کرولا جی ایل آئی اور ایک کارڈیالوجسٹ کو ایک سال ایک دوا تجویز کرنے پر ایک ہونڈا سوک ملتے دیکھی ہے ، ایک ڈی ایچ کیو لیول ہسپتال پر
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

اس مرتبہ پاکستان جانا ہوا تو ایک جان پہچان والا جو کہ پہلے کسی کمپنی کے ساتھ اٹیچ تھا پھر وہ کینسر کی دوائیوں پر کسی کمپنی کے ساتھ جاب کے لئے اٹیچ ہوا، اس نے بتایا کہ 20 دن میں کمپنی نے 20 لاکھ کی کار اس کے خرید کر دی کیونکہ 20 دن میں اسے بزنس بھی بہت لے کر دیا، پھر اس نے بتایا کہ اس کمپنی کے ساتھ کام کیا اور راستہ بنایا، اور اپنا کینسر کی دوائیوں پر اپنا کاروبار شروع کیا، کینسر کی دوائی کم سے کم 1 یا ڈیرھ لاکھ سے کم نہیں، اور یورپ کی ایک ہی کمپنی بناتی ہے، مگر انڈیا بھی اسی فارمولہ پر کینسر کی دوائیاں بنا رہا ہے جو ہمیں 6 ہزار میں بیچ رہا ہے، اور ہم اسے اصل قیمت میں مارکیٹ میں سیل کر رہے ہیں، جس پر سب کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ پھر تو کینسر پر جو ادوایات بیچی جا رہی ہیں وہ سب جعلی ہیں جس پر اس نے کہا کہ پھر کیا کریں پاکستان میں ہر بڑا کیمسٹ اس میں ملوث ہے۔ اور پکڑا وہی جاتا ہے جو حصہ نہیں پہنچاتا۔ اس نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اپنے علاقہ میں جاننے والے اگر اس سے ڈائریکٹ ملیں تو وہ انہیں ہی صرف اصل دوائی فرہم کرتا ہے۔

جیسا کہ فاخر بھائی نے مفید پیش کش کی ہے تو اس گورنمنٹ میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ایک دوسرے ادارہ کا سرکاری ملازم ہو کر ٹاؤں ھال سے اپنے بچہ کا پیدائش کا سرٹیفکیٹ کاؤنٹر پر جا کر رپورٹ کر کے نہیں بنا سکتا جب تک وہ بیک دوڑ پیمنٹ کو استعمال میں نہ لائے، ایسی بے شمار سچ مثالیں ہیں۔ جب تک پورا نظام درست نہیں ہو گا تب تک اچھے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

والسلام
 

فاخر رضا

محفلین
مثالیں اور تنقید بلا شبہ ٹھیک ہے اور اس کا میں نے ایک لفظ میں اظہار بھی کیا، tip of the iceberg.
ساتھ ساتھ حکومت کی نااہلی کی بات ہوئی ایسے میں کوئی بیچ کا راستہ تو نکالنا ہوگا. عام آدمی آخر کہاں جائے. اپنے حصے کا دیا تو جلانا پڑے گا میرے بھائی. قبر میں سوال ادراک کے لحاظ سے ہوگا اور قیامت میں درجات بھی علم اور عمل کی بنیاد پر ہونگے.
حکومت شاید مجموعی طور پر بری ہو مگر بعض مرتبہ کہیں ایک آدمی بھی اچھا مل جائے تو کام ہوجاتا ہے. امید بہار نہیں چھوڑنی چاہیے.
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں میں ایک اور بات واضح کرنا چاہتا ہوں
بین الاقوامی دواساز کمپنیاں چار آنے کی چیز سو روپے میں بیچتے ہیں جو کہ زیادتی ہے. ساتھ ہی کم قیمت پر غیر معیاری دوا بیچنا بھی غلط ہے.
اب اسکا حل کیا ہے.
امیر آدمی تو مہنگے ڈاکٹر اور مہنگی دوا استعمال کرلیتا ہے مگر غریب کہاں جائے.
انڈیا میں کچھ اسٹیٹس، جن میں شاید گجرات بھی شامل ہے، نے سرکاری سرپرستی میں جینیرک دواؤں کی دکانیں کھولی ہیں جہاں سے ہر فارمولے کی معیاری مگر جینیرک دوا بہت ہی کم قیمت پر مل جاتی ہے.
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں 1973ء یا 74ء میں اس وقت کے وزیرِ صحت شیخ رشید (اصلی شیخ رشید، بابائے سوشلزم) نے برانڈ کے ساتھ دوائیوں کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی، اور جینرک ناموں سے فروخت شروع کر دی تھی۔ ڈاکٹروں پر برانڈڈ دوائی لکھنے پر پابندی تھی اور میڈیکل اسٹور والوں پر بیچنے کی، خلاف ورزی کرنے پر دونوں کے خلاف مقدمہ اور جرمانہ تھا۔ اس اقدام سے ملک میں دوائیوں کی قیمتوں میں راتوں رات خاطر خواہ کمی ہو گئی تھی۔

شیخ رشید نے اپنی خود نوشت میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح اس منصوبے کو ختم کرنے کے لیے اس پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا گیا، رشوت دھمکیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ چند مہینے ہی یہ اسکیم چل پائی، بلآخر بھٹو نے مداخلت کی، نہ صرف اسکیم ختم کر دی بلکہ شیخ رشید کی وزات بھی بدل دی گئی۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

جی بجا فرمایا آپ نے ان دنوں مجھے اپنے دادا جان کے لئے دوائیوں کی ضرورت ہوتی تھی جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہوتی تھیں، کیونکہ چوری سے بھی ملنے پر ختم ہو جایا کرتی تھیں، پھر کسی نے بتایا کہ فضل دین اینڈ سنز، دی مال لاہور یہ ہر قسم کی دوائی بنا کر دیتے ہیں، اس کے بعد ان کے پاس جانا، کوئی 1 گھنٹہ کا وقت دیتے تھے اور دوائی تیار کر کے یہاں سے مل جاتی تھی۔

والسلام
 
Top