چند سائنسی معمّے!

arifkarim

معطل
440366-fewsciencelogic-1453920118-339-640x480.jpg

سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں اس سال حل کر لیا جائے گا ۔ فوٹو : فائل
کرۂ ارض پر آغازِ زندگی سے لے کر اب تک ان گنت راز ایسے ہیں جن سے انسان پردہ نہیں اٹھا سکا ہے اور کائنات کے تمام ہونے تک بے شمار بھیدوں سے انسان واقف نہیں ہو سکے گا۔ تاہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے انسان اسرار کائنات سے پردہ اٹھانے کی کوشش ضرور کررہا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان سائنسی گتھیوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کے بارے میں برطانیہ کے تین معروف سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس برس انھیں سُلجھا لیا جائے گا۔
بگ فُٹ حقیت ہے یا کوئی افسانہ؟
گزرے عشروں کے دوران بے شمار لوگوں نے دعوے کیے کہ انھوں نے اس پُراسرار مخلوق کی موجودگی کے شواہد تلاش کر لیے ہیں، تاہم یہ شواہد ایسے نہیں تھے جو بگ فُٹ کا وجود ثابت کر پاتے۔ تاہم رواں سال یہ گتھی سُلجھ سکتی ہے۔ اس امید کی وجہ Trail camera ہے۔
یہ بے حد مختصر کیمرے ہیں جو انفرار ریڈ شعاعوں کے تسلسل کے ٹوٹنے پر ازخود فعال ہوجاتے ہیں۔ ان کیمروں کو بگ فٹ کی موجودگی کے متوقع مقامات پر طویل عرصے کے لیے چھوڑا جاسکتا ہے، کیوں کہ انھیں چلانے کے لیے انسان کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جنگلی حیات کے مطالعے کے لیے ان کیمروں کا استعمال تیزی سے فروغ پارہا ہے۔
ان کی مدد سے حال ہی میں، چین میں باسٹھ سال کے وقفے کے بعد نایاب نسل کا تیندوا دیکھا گیا جس کے بارے میں خیال تھا کہ یہ نسل ناپید ہوچکی ہے۔ ٹریل کیمروں کے علاوہ جنگلی حیات پر تحقیق کے لیے کیمرا بردار ڈرون طیارے بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان طیاروں کے ذریعے وہ علاقے بھی سائنس دانوں کی دسترس میں آگئے ہیں جو پہلے ناقابل رسا تھے۔ ان طیاروں کو بھی بگ فٹ کا سراغ لگانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
خلائے بسیط میں وجودِ حیات
زمین پر کہیں بھی پانی کی موجودگی کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہاں زندگی بھی کسی نہ کسی شکل میں ضرور ہو گی۔ اسی طرح کسی سیارے پر اگر پانی بہتا ہو تو وہاں بھی زندگی کے وجود سے آسانی سے انکار نہیں کیا جاسکے گا۔ خلائی بسیط میں حیات کی کھوج کے سلسلے میں مریخ ماہرین فلکیات کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ برس کی جانے والی تحقیقات کے اہم نتائج سامنے آئے اور ایک زبردست پیش رفت بھی ہوئی۔
ہمیں پتا چلا کہ ماضی میں اس سیارے پر پانی بہتا تھا، اور اب بھی اس پر کھارا پانی موجود ہے۔ مریخ کی سرزمین پر اور اس کے مدار میں ناسا کی کئی تحقیقی گاڑیاں اور خلائی جہاز موجود ہیں۔ رواں برس جولائی میں Juno نامی تحقیقی خلائی جہاز مشتری کے مدار میں پہنچے گا۔ یہ خلائی جہاز نظام شمسی کے جسیم ترین سیارے پر پانی کا سراغ لگانے کی کوشش کرے گا۔ ان کے علاوہ زحل کا چاند Enceladus بھی سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں اس کی فضا میں آبی بخارات کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس دریافت کے بعد یہاں زندگی کی موجودگی کے امکانات کو اہمیت دی جاریہ ہے۔
ڈارک میٹر کیا ہے؟
ڈارک میٹر ایک ایسا پُراسرار مادّہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کائنات میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے، نیز اس کی مقدار کائنات کی تمام مادّی اشیا تشکیل دینے والے مادّے سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ تاہم سائنس داں اس پُراسرار مادّے کے وجود کا کوئی براہ راست ثبوت تلاش کرنے سے ہنوز قاصر ہیں۔
بالواسطہ شواہد البتہ موجود ہیں۔ جب تک ڈارک میٹر کی براہ راست پیمائش نہ کرلی جائے اس کی حقیقت افشا نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ پتا چل سکے گا کہ یہ مادّہ پارٹیکل فزکس کے معیاری نمونے پر کس طرح پورا اُترے گا۔ Large Underground Xenon ( Lux ) جیسے تجربات انتہائی درست پیمائش کی نئی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ ان کی مدد سے سائنس داں ڈارک میٹر کی ایک شکل تک براہ راست پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں جو عام مادّے سے تعامل کرتی ہے۔ پیش گوئی کی گئی ہے کہ اس میں کام یابی ماہرین کو ڈارک میٹر تک پہنچا دے گی۔
ثقلی موجیں ہوتی ہیں یا۔۔۔؟
جس طرح میکسویل کی مساوات برائے برقی رَو اور مقناطیسیت نے برقی مقناطیسی موجوں جیسے روشنی کے وجود کی پیش گوئی کی تھی، بالکل اسی طرح آئن اسٹائن کا عمومی اضافیت کا نظریہ ثقلی موجوں کی موجودگی کی خبر دیتا ہے جو زماں و مکاں کی چادر میں ہچکولے لیتی ہیں۔ تاہم اس نظریے کو ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی سائنس داں ان موجوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لہریں ناقابل تصور حد تک مختصر ہوتی ہیں۔
Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory ( Ligo) کے ذریعے ان موجوں کی پیمائش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیگو ڈھائی میل کی طوالت میں پروٹان سے بھی دس ہزار گنا چھوٹے ہٹاؤ پیدا کرتی ہے۔ لارج ہیڈرن کولائیڈر کی طرح لیگو بھی اپ گریڈیشن کے بعد پچھلے سال ہی فعال ہوئی ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ اس رصدگاہ کی مدد سے وہ یہ جاننے میں کام یاب ہوجائیں گے کہ آئن اسٹائن غلط تھا یا صحیح۔
کیا مزید عناصر کی تخلیق ممکن ہے؟َ
1930ء ہی سے سائنس داں ذرات کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر مصنوی عناصر تخلیق کرتے آرہے ہیں۔ دوری جدول میں ایسے عناصر کی تعداد 24 تک پہنچ چکی ہے۔ 117ویں عنصر کی تالیف اور حالیہ عرصے کے دوران دریافت شدہ چار عناصر کو شناخت ملنے کے بعد دوری جدول میں کوئی جگہ خالی نہیں رہی۔
سائنس داں دوری جدول کو بڑھانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ حالیہ کوشش کے دوران انھوں کیلشیئم 48 کو ’’ نیوکلیئر بُلٹ‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس سے دوسرے بھاری بھرکم مرکزے کو نشانہ بنایا تاکہ نیا عنصر تخلیق کیا جاسکے۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ بھاری عناصرکا ایک نیا گروپ اس سال وجود میں آسکتا ہے۔
لنک
 
Top