چاک گریباں ہم نہیں کرتے پتهر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

غزل .... !

گهر کی روٹی مل جائے تو باہر ہم نہیں کهاتے ہیں...
اور اگر گهر جا نہ پائیں دن بهر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

ہم نے دوانوں کی بستی میں ریت نئی یہ ڈالی ہے...
چاک گریباں ہم نہیں کرتے پتهر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

خودداری کے صدقے ہم تو بهوکے سو جاتے ہیں مگر..
او نچی اونچی سرکاروں کے در پر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

جهوٹ کی روٹی مکر کا سالن آتا ہے لوگوں کو راس
ہم ہیں سچائی کے مارے اکثر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

خدشہ ہو کس بات کا دل کو قسمت اپنی لکهی ہے
گردش دوراں کے پهیرے میں چکر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

سچائی کے جملوں میں بهی جهوٹ کی آمیزش ہے یہاں ...
ہم جو بهی الفاظ ہیں کہتے مصدر ہم نہیں کهاتے ہیں ...

عشق کی راہگزر پے چلنا خوب ہمیں آتا ہے حسیب
پیر ہمارے زخمی ہیں پر ٹهوکر ہم نہیں کهاتے ہیں ..

 
Top