چاولوں کی دیگ ۔ مختصر افسانہ

چاول بانٹے جارہے تھے، آواز لگائ جارہی تھی، غریب بچے ،میلے کچیلے ہاتھوں میں ان دھلے برتن پکڑے چاول کی دیگ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ سب کی معصوم آنکھوں میں ایک ہی حسرت تھی کہ کسی طرح وہ جلدی سے دیگ تک پہنچ جائیں۔

اس دوڑ میں ایک ننھا بچہ جس کے تن پر کوئ کپڑا نہیں تھا، بھاگ رہا تھا کہ ٹھوکر لگنے سے منہ کے بل جاگرا ، خون اس کی ناک سے بہہ رہا تھا، اس کے دوست نے اس کی طرف دیکھا ، اس کی مدد کے لیے بڑھا کہ اس کو اٹھائے، مگر چاولوں کی دیگ سامنے نظر آرہی تھی، وہ دیگ کی طرف دوبارہ بھاگا کہ کہیں چاول ختم نہ ہوجائیں۔

۔

عبدالباسط
 
Top