چاند، تُو چھپ کیوں نہیں جاتا

ایک افسانچہ آپ کی خدمت میں، امید ہے کہ پسند کیجیے گا
اظہرم

چاند، تُو چھپ کیوں نہیں جاتا
وہ بالکل میرے جیسی تھی، معمولی شکل صورت، گندمی سا رنگ۔ اکثر بغیر نہائے گندے بوسیدہ کپڑوں میں ہمارے گھر آ جایا کرتی کہ پانی ہمارے جیسے گھروں میں کبھی کبھار ہی غلطی سے آتا تھا۔ ہم لوگ کون سے آسمان سے اُترے تھے، کبھی چائے بنانے کو شکر نہ ہوتی تو اُسی کے گھر سے مانگ لیا کرتے تھے اور اکژ اُس کی امی بھی ہمارے گھر آٹا، دال یا چاول مانگنے آتی رہتی تھیں۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ اُس کے صرف بھائی مدرسہ میں پڑھتے تھے اور اُن کے اخراجات کی وجہ سے چاچا جی (ارے نیمو کے ابا نا) اُسے سکول بھیجنے سے قاصر تھے۔ ویسے بھی اُن کے خیال میں چولہا بھاڑ ہی تو کرنا ہوتا تھا لڑکیوں کو ، کیا فائدہ پڑھانے سے؟
نیمو کو میرے ساتھ کھیلنے کی کھلی چھٹی یوں مل جاتی تھی کہ وہ میری بہن کے ساتھ کھیلنے آتی تو ہم تینوں ہی مل کر کھیلا کرتے تھی ۔ پورے محلے میں نیمو اور میری بہن کے ہان کی (ارے عمر کی نا جی، سمجھا کیجیے) اور کوئی لڑکی نہیں تھی، جو تھیں وہ باجیاں تھیں، اور وہ نیمو یا میری بہن کو ساتھ رکھنا گوارا ہی نہیں کرتی تھیں ۔ خوش قسمتی تھی نا میری؟
میری دنیا میں کچھ تھا تو وہ ماں، بہن، نیمو اور چاند تھا، کیا کہا آپ نے؟ چاند کیوں؟ پتہ نہیں کیوں لیکن چاند جیسے مجھ پر سحر کر دیتا تھا ، پہروں بیٹھا اُسے تکتا رہتا تھا اور وقت کا احساس نہ ہوتا۔ اور ہاں سُنیے کہ چونکہ مجھے چاند پسند تھا تو نیمو کو کیسے نہ ہوتا، ہے نا؟ سو اُسے بھی تھا۔
نیمو اکثر ہمارے گھر آ جاتی اور ہم دونوں گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے، چاند کی باتیں، پاس پڑوس کے لڑکے لڑکیوں کی باتیں، گڑ کی گچک کی باتیں ، میٹھے حقہ کی باتیں جو ڈنڈے والا بنا کر دیتا تھاایک ماچس کی تیلی پر اور ہم لوگ چاٹ چاٹ کر کھایا کرتے، کبھی جی کرتا تو چینجو کھیلتے، اور آس پاس سے اگر بچے آ جاتے تو پٹھو گرم اور کوکلا چھپاکی بھی چلا کرتا۔ آصفہ اکثر تو اپنی گُڑیوں ، کیا کہا؟ آصفہ کون؟ ارے معاف کیجیے گا میری بہن کا نام ہے نا۔ تو میں کہ رہا تھا کہ وہ اکثر تو اپنی گُڑیوں سے کھیلا کرتی، لیکن کبھی کبھار ہمارے ساتھ کھیلنے آ جاتی تھی۔ پھر یہ سب تبھی رکتا جب دونوں کی مائیں بلند آواز میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر کیا بتاوں، آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہی ہوں گے جو گلی محلوں میں پل کر جوان ہوئے۔ آگے بڑھتے ہیں۔
نیمو کے جانے کے بعد میں پڑھائی کرتا اورخوب محنت سے کرتا۔ رات ہوتے ہی چھت پر چلا جاتا کہ وہاں چاند اور نیمو، دونو جیسے میرے ہی انتظار میں ہوتے ۔ اشاروں میں باتیں ہوتیں۔ میرا دل کیا کرتا کہ نیمو ساتھ بیٹھی ہو اور پورا چاند اپنی مکمل آبُ تاب سے نکلا ہو اور اُس کی چاندنی ہم دونوں پر پڑ رہی ہو اور وہ چاند کبھی ڈوبے نہ ، لیکن ایسا کبھی نہ ہوا کہ رات کو چاچا اور چاچی اُسے گھر سے نکلنے نہیں دیتے تھے۔ البتہ ہر روز جب ملتے دن میں تو یہ بات ضرور ہوتی کہ رات چاند کیسا تھا، اُس میں چرخے والی بڑھیا کیسی لگ رہی تھی وغیرہ۔
ساتھ کھیلتے کھیلتے کب وہ جوان ہوئی ، کب میں ، پتہ ہی نہ چلا۔ بس جو پتہ چلا وہ یہ تھا کہ چاچا اب اُسے دن میں بھی میرے ساتھ کھیلنے نہیں دیتے تھے۔ بس اُن کی غیر موجودگی میں وہ ہمارے گھروں کے بیچ کی نیچی دیوار پھاند کر ہمارے کوٹھے پر آ جاتی اور ہم کچھ نہ کچھ کھیلتے رہتے۔
یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا یہاں تک کہ میں نے امتیازی نمبروں سے انجیرنگ کا امتحان پاس کر لیا۔ ہاں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ نیمو کے بھائی اسی بیچ ڈپلومہ کر چکے تھے اور سرکاری اداروں میں ملازمت کرتے تھے۔ میں بھی بہت قسمت کا دھنی نکلا کہ پہلے انٹرویو میں ہی کامیابی نے قدم چومے اور ایک سرکاری ادارے میں گریڈ سترہ کی ملازمت مل گئی۔ ماں نے بڑی ٹوکری لڈووں کی منگوا کر پورے محلے میں تقسیم کروائی ۔ سب اتنے خوش تھے کہ کیا بتاوں۔
ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا شام کو گھر آیا تو نیمو ملنے آ گئی ، اُسے پتہ تھا کہ اُس رات چودھویں تھی چاند کی۔ میں نیمو سے رات نکلنے والے چاند کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا اور اُسے یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ چاند دیکھ کر اُسے کچھ بتاوں گا، کہ ماں نے آواز دی، ایک کے بعد دوسری، پھر تیسری آواز ، میں بھاگتا نیچے گیا کہ شائد کچھ ہو گیا ہے۔
تو اب نیمو سے نہ ملا کر، ماں نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔ کیوں ماں ، میں نے حیرانی سے پوچھا۔ بس اُس کے ابا کو یہ پسند نہیں، جا اُسے بول کہ گھر چلی جائے۔ اتنے میں نیمو نیچے اُتر آئی تھی اور حیرانی سے ہمیں دیکھ رہی تھی، شائد اُس کے کان میں بات پڑ گئی تھی۔ ماں نے اُسے حکمیہ انداز میں جانے کو کہا ۔ اور وہ چلی گئی۔
ماں یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ میں نے پوچھا ۔ تجھے جتنا کہا جائے کیا کر اور بک بک نہ کیا کر۔ ماں یہ کہ کر چلتی بنیں۔ میں پیچھے پیچھے۔ ماں اپنے کمرے میں بستر پر لیٹ گئیں ، میں اُن کے پاوں دبانے لگا۔
ماں بولیں ، دیکھ میں اب تیرا بیاہ کرنا چاہتی ہوں۔ جوان لڑکی سے تیرا اس طرح میل جول اب ٹھیک نہیں ہے۔
ماں ساری زندگی وہ میرے ساتھ رہی ہے اب کیا ہوا ہے؟
تب کی بات اور تھی، کل کچھ مہمان آنے والے ہیں گھر میں ، شام کو آتے ہوئے مٹھائی لیتے آنا، اور سموسے بھی۔ یہ کہتے ہوے ماں نے پرس میں سے ایک تصویر نکالی اور میرے ہاتھ میں تھما دی۔ وہ ایک حسین لڑکی تھی۔
یہ کیا ہے ماں؟ میں نے پوچھا
یہ تیری دلھن ہے، ہمارے ہم پلہ ہیں یہ لوگ، اور دیکھ بالکل چاند جیسی ہے نا؟ ماں بولیں
ہاں ماں بہت حسین ہے لیکن
کچھ مت بول چپ رہ، ماں بولیں ۔ پھر پتہ نہیں کتنی دیر کیا کیا بات ہوئی بس اتنا یاد ہے مجھے کہ جب میں باہر نکلا صحن میں تو جیسے چاندنی میں نہا گیا، چودھویں کا چاند پوری آبُ تاب کے ساتھ موجود تھا ، اور تب میں نے پہلی بار کہا کہ ۔۔
چاند تُو چھپ کیوں نہیں جاتا۔۔
 
Top