پیمانہء عمر بھر چکا تو تقدیر کی شرافت نظر آئی

محسن حجازی

محفلین
جب ہماری عمر شریف کوئی پندرہ برس کی ہوئی تب ہم میٹرک سے فارغ ہو چکے تھے اور انٹر کی

تیاری میں تھے۔ ان دنوں ایک پیچیدہ اور پراسرار بیماری میں بھی خاصی شدت سے مبتلا تھے جس میں کہ۔۔۔ آہو!

اس دور میں بہت کچھ بہت تیزی سے سیکھا۔ اگر چہ شاعری تو آٹھ سال یا اس سے قبل ہی شروع

کر دی تھی مگر پندرہ سے اٹھارہ سال عروج رہا ہے۔ میری تمام کلیات بارش کی نظر ہوگئیں کیوں کہ

انہیں چھت پر مٹی کے گھڑے میں چھپا کر رکھا کرتا تھا! سو سب کی سب تحلیل ہو کر جانے کہاں

بہہ گئیں۔۔۔ ایک آدھ بچی ہے اور یہ اس وقت کی ہے جب ہم ابھی ٹین ایجر تھے۔۔ کوئی چھے سال

پرانی غزل۔۔۔۔ بے وزن۔۔۔ مگر اچانک نکل آئی۔۔۔ دراصل اس میں مجھے یاد ہے کہ اپنے آپ کو ستر

سال آگے لے جا کر دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت موجودہ حالات کو کس طرح سے دیکھوں

گا۔۔۔
پیش خدمت ہے۔

پیمانہء عمر بھر چکا تو تقدیر کی شرافت نظر آئی
مجھ کو گھڑی عمر کی ہر اک امانت نظر آئی
سوچتا ہوں عالم نادانی کا وہ بھی عجب تھا جاناں
تیری زلفوں کی اسیری میں زندگی کی ضمانت نظر آئی
طبع نازک بے قصور، چشم جواں ہی بے حیا تھی
اس عمر میں تیری اک اک ادا قیامت نظر آئی
آفتیں مجھ پر کچھ اور بھی آ پڑیں شاید اسی لیے
تیری چشم بے مروت بھی ہم کو آفت نظر آئی
اک عمر کہ تیری محبت بالاتر سچائی کوئی نہ تھی
پھر اک عمر تھی کہ تجھ سے وفا اپنی حماقت نظر آئی
دل کی دھڑکن کیا رکی آمد بھی تھم سی گئی محسن
رکھا ہی تھا قلم کہ غزل تمام قابل ملامت نظر آئی

اب تو بس پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہی فرصت ہی نہیں ملتی کہ فکر سخن کی جائے۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
کمال ہے اتنی ذبردست عزل پر ابھی تک کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا گیا اور یوں اس غزل کو بھی بارش کے پانی میں بہا دیا گیا------------- آھو
 

دوست

محفلین
اچھی چیز ہے۔ انداز فکر بھی بہترین ہے۔
شاید مجھ سے مس ہوگئی تھی جو کہ اکثر خطوط ہوجایا کرتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
بہت ہی خوب محسن بھائی ۔۔۔ کبھی کبھی ہماری بھی شاعری کی اصلاح کر دیا کرو ۔ :cry:
 
Top