پھر زیرِ خواب آگ کہیں ہے لگی ہوئی۔اسلم کولسری

پھر زیرِ خواب آگ کہیں ہے لگی ہوئی
پھر نخلِ جان پہ ایک پھننگ سی ہری ہوئی
اُترا ہے کون دشتِ غزل کے نواح میں
آئی ہے مشکِ بار ہوا جھومتی ہوئی
میں جس طرف نگاہ کروں ، وہ دکھائی دے
بے نام رابطہ نہ ہوا، عاشقی ہوئی
چمکا تو ہے ذرا سا لہو سنگِ چشم پر
آیا تو دیر سے ہے وہ، لیکن خوشی ہوئی
شاید کہ مل ہی جائے کوئی ادھ جلی دعا
دیکھو تو چھو کے راکھ، لبوں پر ملی ہوئی
جس کی تلاش تھی وہ کسک دل کے داغ تک
آئی، مگر کسی کا پتہ پوچھتی ہوئی
آنکھوں میں دلگداز تحّیر تو دیکھنا
اظہارِ مدعا نہ ہوا، شاعری ہوئی
اسلمؔ تمام دوست ہمارے بچھڑ گئے
کٹیا ہوئی، چراغ ہوا، بانسری ہوئی
 
Top