پھر رزق کیلئے بے صبری کیوں؟

پھر رزق کیلئے بے صبری کیوں؟ (داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ )

اس واقعہ کو آج بیس سال ہوگئے ہیں حاجی صاحب صحت وعافیت کے ساتھ سلامت ہیں۔ مگر ہر روز کئی بار یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے رزاق ہیں چاول کا ایک دانہ حرم پر بیٹھی ہوئی چڑیا تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کیسا انتظام فرمایا
ایک صاحب کو بریانی کھاتے وقت ان کو اچھو لگا‘ سانس رک گیا‘ گھر والوں نے گردن سہلائی‘ پانی پلایا‘ خدا خدا کرکے سانس آیا چاول دماغ کی طرف چڑھ سے گئے تھے۔ دو تین روز کے بعد ان کو سر بھاری سا محسوس ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ تکلیف بڑھتی گئی‘ سر میں درد ہونے لگا اور وہ درد روز بروز شدید ہوتا گیا بہت علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت سے ٹیسٹ کرائے دماغ کی جانچ ہوئی مگر مرض سمجھ میں نہیں آتا تھا درد کی شدت سے نیند نہیں آتی تھی بے خوابی کی وجہ سے پورے جسم پر اثر پڑا‘ کمزوری بڑھتی گئی:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
صحت سے مایوسی ہونی شروع ہوگئی اور کچھ دنوں میں زندگی سے بھی مایوسی ہوگئی‘ عزیزوں اور رشتے داروں کا عیادت کیلئے تانتا بندھنے لگا۔ جمعہ کی نماز میں امام صاحب حج کی فضیلت اور فرضیت پر تقریر کررہے تھے ان کو خیال ہوا کہ موت قریب ہے حج فرض ہے چلو حج کرلیں‘ تاکہ موت کی تیاری ہو۔ حج کی درخواست دے دی نام بھی آگیا‘ خیال تھا کہ زندگی کا تو بھروسہ نہیں رہا ذرا جلدی چلیں تاکہ حرمین شریفین میں خوب اطمینان سے رہیں اور زندگی بھر کے اپنے گناہوں کی جی بھر کے معافی مانگ لیں۔ اللہ کے فضل سے حجاز مقدس پہنچے۔ جاکر عمرہ کیا زندگی کی تو کوئی امید باقی نہیں رہی تھی گو اس حال میں بھی صحت کی دعا جاری تھی۔ کمزوری حد درجہ تھی بھیڑ میں طواف مشکل تھا اس لیے آہستہ آہستہ بیت اللہ سے ذرا دور خالی جگہ میں طواف کرتے تھے اور ایسے وقت طواف کرتے جب حرم میں بھیڑ کم ہو۔ چلچلاتی دھوپ میں ایک روز طواف کررہے تھے مطاف بالکل گویا خالی تھا۔ اچانک ایک چھینک آئی اور چھینک کے ساتھ ناک سے ایک چاول نکل کر مطاف میں گرا‘ بیت اللہ کی دیوار پر ایک چڑیا بیٹھی ہوئی تھی جو گویا اس چاول کے انتظار میں تھی‘ پھُڑ سے آئی اور مطاف سے چاول کا دانا چونچ میں دبا کر پھڑ سے اڑگئی۔ اس چاول کا نکلنا تھا کہ سر بالکل ہلکا ہوگیا اور درد تو گویا تھا ہی نہیں‘ درد ختم ہوا تو نیند بھی معمول پر آگئی اور بھوک اور ہاضمہ سب شروع ہوگیا اور چین سے واپس میرٹھ آگئے۔
اس واقعہ کو آج بیس سال ہوگئے ہیں حاجی صاحب صحت وعافیت کے ساتھ سلامت ہیں۔ مگر ہر روز کئی بار یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے رزاق ہیں چاول کا ایک دانہ حرم پر بیٹھی ہوئی چڑیا تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کیسا انتظام فرمایا کہ ان کے سر میں دو سال تک اس کو محفوظ رکھا اور ہندوستان کے شہر میرٹھ سے کس طرح اس کو حجاز پہنچایا۔
اس لیے کہ ”اور کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں جس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو۔“(ھود6) کیسی صحیح بات فرمائی ”قسم ہے آسمان و زمین کے پروردگار کی کہ وہ برحق ہے جیسا تم باتیں کرتے ہو۔ اور تمہارا رزق جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آسمان میں ہے۔“نہ جانے کیوں انسان ایسے پیارے رازق و رزاق کے وعدہ رزق پر بھروسہ کرنے کے بجائے بے صبری سے حلال اور حرام کی تمیز کے بغیر ہوس میں مبتلا رہتا ہے۔
 
اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ انسان تو بس اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ شائد اس ساری واردات کا مقصد یہ تھا۔ یہ حاجی صاحب کی اپنی سوچ ہی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
حضرت علی کر اللہ وجہ کا قول ہے کہ رزق دو اقسام کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کی تلاش میں انسان ہوتا ہے۔ اور ایک رزق وہ ہوتا ہےجو انسان کی تلاش میں ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کورزق کے بارے میں قطعاً متفکر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ذمہ داری خالق کائنات کے پاس ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو ہر حال میں رزق پہنچاتا ہے۔ تاہم، اس کے حصول کے لئےمحنت و تگ و دو انسان پر فرض ہے۔
 
Top