پھر بھی مری حیات کا پھیکا سا رنگ ہے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رگ رگ میں ایک شخص ہے جو شوخ و شنگ ہے
پھر بھی مری حیات کا پھیکا سا رنگ ہے

کیوں میری آہ کا نہیں پڑتا ہے کچھ اٹر
سینے میں ہے جو تیرے وہ دل ہے کہ سنگ ہے

مجھ کو نہیں ہے باعثِ آزار اب کچھ اور
دل کو جو کھائے جاتی ہے دل کی امنگ ہے

یوں دشتِ جاں میں گلشنِ ہستی ہے کھل اٹھا
ہر زخم زخم آج مرا لالہ رنگ ہے

ہر ضرب کر رہی ہے بلند اور زمزمہ
یہ زندگی بھی جیسے کوئی جل ترنگ ہے

کس طرح پائے گا وہ دلِ مضطرب سکوں
جس کے مقدروں میں سدا ایک جنگ ہے

بازار ہیں یوں حرص و ہوس کے سجے ہوے
ہر راستہ ہی شہرِ مروت کا تنگ ہے
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top