جوش پھر اُس طرف چلا ہوں

حسان خان

لائبریرین
پھر اُس طرف چلا ہوں فسانہ لیے ہوئے
ماضی کا ہر نفس میں ترانہ لیے ہوئے
پھر جا رہا ہوں جانبِ معمورۂ طرب
ویران دل میں غم کا خزانہ لیے ہوئے
پھر خود سے مکر کر کے رواں ہوئے سوئے نگار
سیر و سفر کا دل میں بہانہ لیے ہوئے
پھر کوئے سرخوشی کی طرف بڑھ رہا ہوں میں
شعر و شراب و چنگ و چغانہ لیے ہوئے
پھر جا رہا ہوں ذہنِ خرد آرمیدہ میں
بھولا ہوا جنوں کا زمانہ لیے ہوئے
پھر بزمِ رنگ و بو کی طرف مڑ رہا ہے دل
خوں گشتہ زندگی کا فسانہ لیے ہوئے
پھر گامزن ہوں میکدۂ دوش کی طرف
رفتار میں خُمارِ شبانہ لیے ہوئے
کیا نازِ عشق ہے کہ اُدھر جا رہا ہوں جوش
اس فقر پر بھی طبعِ شہانہ لیے ہوئے
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۰ء
 
Top