پنجاب میں سکھوں کی مثلیں

سکھوں کی حکومت کے مختلف ادوار ہیں ، مغلوں کی پنجاب پر گرفت کمزور ہونے اور نظام حکومت کے تلپٹ ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں سکھوں کی مقامی حکومتیں عمل میں آگئیں جو مثلیں کہلاتی تھیں بنیادی طور پر علاقے کے طاقت ور اور ایسے افراد جو مالی اور افرادی قوت کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے علاقوں پر اپنا تسلط بنانے اور قائم رکھنے میں کامیاب رہے وہ ان مثلوں کے سربراہ قرار پائے ۔ ان مثلوں کی تعداد بارہ تھی جن کے نام درج ذیل ہیں ۔
1۔ بھنگیوں کی مثل
2۔ سرداران رام گڑھیوں کی مثل
3- سرداران کہنیا کی مثل
4- نکیوں سکھوں کی مثل
5۔ سرداران آلو والیوں کی مثل
6- ڈلی والے سکھوں کی مثل
7-نشان والے سکھوں کی مثل
8- فیض اللہ پوریوں کی سکھی مثل
9-شہید بنگیوں کی سکھی مثل
10-پھلکیوں کی سکھی مثل
11- نابھہ کی ریاست اور جند کی ریاست
12- سکرچکیوں کی مثل

ان سب پر یکے بعد دیگرے گفتگو کریں گے ۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں مددگار مواد کنہیا لال کی کتاب تاریخ پنجاب سے بھی لیا گیا ہے اور مصادر دیگران بھی استعمال ہوئے ہیں لہذا موقع کی مناسبت سے مصادر کا ذکر کیا جاتا رہے گا ۔ امید واثق ہے کہ احباب اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار الگ دھاگے میں کریں گے تاکہ اس کا تسلسل خراب نہ ہو پاوے ۔

شکرگزار
فیصل
 
بھنگیوں کی مثل


پہلی اور سب سے بڑی مثل کا بیان
یہ سکھوں کی سب سے بڑی اور مشہور مثل تھی ۔ جو امرت سر ، چنیوٹ ، گجرات کے علاوہ لاہور کے بھی تیسرے حصے پر قابض تھے ۔ یہ پہلی مثل تھی جس نے سکھوں میں لوٹ مار کے بعد ایک ریاست کی طرف پہلا قدم بڑھایا اور پہلی مثل کے طور پر نام کمایا ۔ یہ مثل شروع ایسے ہوئی کہ ایک شخص جس کا نام چھجا سنگھ تھا وہ امرتسر کے قریب ایک گاؤں بیج وڑ میں رہتا تھا ۔ اس نے سکھوں کے گورو گوبند سنگھ کے ہاتھوں پر سکھ مت قبول کیا اور سکھ بنا ۔ کیونکہ یہ شخص بھنگ بہت پیتا تھا اس لئے بھنگی نام سے موسوم ہوا ۔ اس سے بھیما سنگھ اور نتھا سنگھ نے سکھ مذہب قبول کیا ۔ اس طرح سے ان تینوں کا جگلا بنا (جگلا پنجابی میں تین افراد کی سنگت کو کہتے ہیں۔ اس سے آگے چوکڑی کا لفظ آتا ہے جس سے مفہوم چار افراد کی سنگت کا لیا جاتا ہے) ۔ ان تینوں کا تعلق مضبوط ہوا اور بہت زیادہ دوستی ہو گئی ۔ ان کی ملاقات مزید تین اافراد مہیان سنگھ ، جگت سنگھ اور مہان سنگھ سے ہوئی چونکہ یہ تینوں امرتسر سے چھے میل کے فاصلے پر گاؤں وہوسہ کے رہنے والے تھے ۔ یہ بھی چھجا سنگھ کے ہاتھوں سکھ ہو گئے ۔پھر کہروڑ سنگھ جو کہ چوپہال گاؤں کا رہائشی تھا یہ چوپہال گاؤں بھی امرتسر کے قریب ہی واقع ہے ، پھر گوربخش سنگھ جو کہ اورانوالہ گاؤں کا رہائشی تھا اور ذات کا سندھو جٹ تھا بھی سکھ مذہب میں داخل ہوا ، اسی دوران واگر سنگھ کنکوڑہ جو جے سنگھ والا گاؤں کا رہنے والا تھا بھی سکھ ہوا اور ساون سنگھ رندھاوا بھی سکھ ہوا۔ چونکہ ان سب نے سکھ مذہب چھجا سنگھ کے ہاتھوں قبول کیا تھا لہذا ان کی آپس میں ایک جماعت بن گئی جس نے آپس میں مل کر گرو گوبند سنگھ کی اس بات کو پورا کرنے کا ارادہ کیا جب اس نے کہا تھا کہ ایک دن آئے گا کہ ہمارا خالصہ راج کرے گا ، مغلیہ سلطنت جو توڑ پھوڑ کا شکار ہو رہی ہے اس پر ہاتھ پاؤں ماریں اور اسے مکمل ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ تاکہ گورو کی منادی کل ہندوستان میں ہو سکے۔ اس عقیدہ کو دل میں رکھتے ہوئے انہوں نے گروہ بنا کر لوٹ مار شروع کی اور دور دور کے گاؤں میں حملے کر کے لوٹ مار کرتے اور اس طرح انہوں نے مالی اور افرادی طور سے کافی طاقت پکڑ لی ۔


جاری ہے​
 
چند برس بعد چھجا سنگھ جو اس جماعت کا سربراہ تھا مر گیا تو بہما سنگھ اس جماعت کا سربراہ بنا۔ چونکہ یہ لاولد تھا اس نے تنجور کے ایک رہائشی ہری سنگھ کو جو چھوٹی عمر میں ہی بہما سنگھ کے ساتھ ہی سکھ بنا تھا اپنا لے پالک کیا اور اپنا وارث نامزد کیا ، بہما سنگھ کی موت کے بعد ہری سنگھ پوری مثل کا وارث بنا اور یہ بہت شاطر آدمی تھا۔ اس سے قبل ان کا گروہ راتوں کو غارت گری کرتا تھا لیکن اس نے دن دیہاڑے اپنی کاروائیوں کو شروع کیا اور سو سو کوس دور تک حملے کر کے غارت گری کرتا ۔ اس نے اپنی چھاپہ مار جماعتوں کو اچھے اچھے سواروں اور گھوڑوں سے آراستہ کیا اور اس کے زمانے میں اس کا مال اور سلطت میں کوئی مقابل نہ تھا ۔ چودھری ملہا ساکن تنجور کی لڑکی سے اس کا بیاہ ہوا اور اس کے بطن سے گنڈا سنگھ پیدا ہوا اور چندا سنگھ پیدا ہوئے ۔ ہری سنگھ کی دوسری بیوی سے تین لڑکے پیدا ہوئے جن کے نام چڑت سنگھ ، دیوان سنگھ اور دیسو سنگھ پیدا ہوئے اس طرح ہری سنگھ کے پانچ بیٹے ہوئے ۔ یہ پانچوں ہوشیار اور کارگزار تھے مگر جب ہری سنگھ گزر گیا تو ان میں سے کسی کو سرداری نہ ملی اور مہیان سنگھ سردار بنا ، یہ پانچوں اس کے ماتحت گھڑسوار بنے اور گروہ کی کاروائیوں میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ، مہیان سنگھ جب اس جہاں سے کوچ کیا تو گلاب سنگھ نے چاہا کہ وہ سردار بنے لیکن ان پانچ بھائیوں میں سے چندا سنگھ اور گنڈا سنگھ اپنی زیرک فہمی اور گروہ میں اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر سردار بنے اور تمام ذیلی سرداروں نے ان کی اطاعت قبول کی ۔
چندا سنگھ نے بارہ ہزار سواروں کے ہمراہ جموں پر حملہ کردیا ۔ جس کا راجہ اس وقت رنجیت دیو تھا ۔ اس مقابلے میں چندا سنگھ مارا گیا ۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا گنڈا سنگھ مثل کے واحد سردار کی صورت سامنے آیا ۔ کچھ عرصے بعد گنڈا سنگھ بھی پٹھان کوٹ میں حقیقت سنگھ گہنیہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ اب اس کا بیٹا گلاب سنگھ سردار بننا چاہیئے تھا لیکن اس کی چھوٹی عمر کی وجہ سے اسے سردار نہ چنا گیا بلکہ اس کے چچا دیسو سنگھ کو سردار بنا دیا گیا ۔ جب دیسو سنگھ مر گیا تو گلاب سنگھ تب تک با شعور ہو چکا تھا لہذا وہ سردار بنا ۔ اس کے وقت میں رنجیت سنگھ (جسے سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام سے جانتے ہیں ) نے لاہور فتح کر لیا ۔ گلاب سنگھ کو اس بات کا رنج ہوا تو اس نے دیگر مثلوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی جمیعت اکٹھی کی اور لاہور پر حملہ آور ہونے کے ارادہ سے روانہ ہوا۔ ابتدائی جھڑپ ہوئی بھسیں کے مقام پر (جہاں آج کل لاہور کے موضع لکھو ڈھیر کا بسی موڑ ہے) اس جھڑپ کے بعد ابھی بڑا مقابلہ ہونا باقی تھا کہ گلاب سنگھ نے شراب نوشی میں اعتدال کا دامن اپنے دست عطش سے چھوڑ دیا اور انگور کی بیٹی (محاورتا کہا ہے ورنہ نامعلوم وہ بنت انگور تھی یا ابن آلو) کے ہاتھوں زیر ہو کر دنیائے فانی کو ترک کر گیا ۔ اس واقعہ سے تمام جمیعت جو رنجیت سنگھ سے مقابلہ کے لیئے جمع تھی تتر بتر ہوئی اور گوردت سنگھ جو گلاب سنگھ کا بیٹا تھا مثل کا حاکم بنا۔ اس نے ارادہ کیا کہ باپ کی طرح ایک مرتبہ پھر سے جمیعت اکٹھی کر کے لاہور پر حملہ آور ہو لیکن اس سے پہلے کہ اس کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا رنجیت سنگھ کو خبر ہو گئی اور اس کے اس پر حملہ کر کے اس کی مثل کو اپنے زیر حکم کر لیا ۔ ازراہ مہربانی کچھ گاؤں اسے گزارہ کے لیئے دے دیئے گئے جو چند ماہ بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے واپس لے لیئے ۔ گوردت سنگھ کے مرنے کے بعد اس کے دو فرزند ہوئے مول سنگھ اور گنڈا سنگھ جو ویسے ہی ابتر حال رہے اور ان میں کوئی ایسا پیدا نہ ہوا جو ان کی گزری ہوئی شان و شوکت واپس لا سکتا ۔ اس دوران رنجیت سنگھ نے چنیوٹ پر حملہ آور ہو گر ان کے رشتہ دار جسا سنگھ بھنگی جو کرم سنگھ بھنگی کا بیٹا تھا کو بے دخل کیا اور گجرات میں سے صاحب سنگھ بھنگی کو جو وہاں کا سردار تھا بے دخل کر کے اس مثل پر اپنے قبضے کو مکمل کر دیا ۔ اس مثل کے احوال کے اختتام پر کنہیا لال کا اپنا شعر وہ اپنی کتاب میں یوں لکھتا ہے۔
صاحب دولت بہت دنیا میں آئے چل دیئے
کتنے گل اس باغ میں جلوہ دکھائے چل دئیے​
 
آخری تدوین:
دوسری مثل ( رام گڑھی سکھوں کی )
اس مثل کے ماتحت تین ہزار سوار تھے جو جواں مردی و غارت گری و تاراج و قتل و کشت و خون میں مشہور و معروف تھے۔ بانی مبانی اس مثل کا سردار جسا سنگھ بھگوانا گیانی کا بیٹا تھا جو موضع ایچوگل علاقہ ضلع لاہور میں رہتا تھا۔ جو لاہور کی مشرق کی طرف بفاصلہ دس کوس کے واقعہ تھا۔ ابتدائے عمر میں جسا سنگھ بھی اپنے باپ کی طرح گیانیوں کے زمرے میں رہ کر اپنے باپ دادا کا کسب کرتا تھا۔ جب اس کام میں اس کا گزارا نہ ہوا تو اس نے بھی چاہا کہ سکھ بن کر غارت گری پر کمر باندھے اور دولت مند بن جائے۔ اس ارادے پر اس شخص نے گورو دیال سنگھ پنچ گھریہ سے پاہل لی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انند سنگھ روڑانوالی سے پاہل لے کر سکھ بنا۔ جب سکھ بن چکا تو پیشہ قزاقی و رہزنی اختیار کیا۔ چند مدت میں عزت و اثاثہ پیدا کر کے معتبر بن گیا اور داڑھی کے بال بہت بڑھا لیئے۔ جب فی ما بین سکھاں دوآبہ اورآدینہ بیگ خان صوبہ دوآبہ جالندھر کے تنازع برپا ہوا تو سکھوں نے ایسے ایک شخص کو معتبر تصور کر کے اپنا وکیل بنایا اور جواب و سوال کے لیئے آدینہ بیگ خان کے پاس بھیجا۔ اس کی ہوشیاری اور خوش تقریری اور معتبر شکل دیکھ کر آدینہ بیگ خان بہت خوش ہوا اور چاہا کہ یہ شخص ہمارے پاس ہی رہے۔ چنانچہ بہ مشاہرہ معقول اس کو اپنے پاس نوکر رکھ لیا اور کام تحصیل داری ایک بڑے علاقے کا اس کے سپرد کردیا۔ جب آدینہ خان بیگ بہ قضائے الٰہی مر گیا ۔ تو جس قدر علاقے میں آدینہ بیگ خان کی جانب سے یہ تحصیل دار تھا اس کا مالک و خود مختار بن بیٹھا۔ چند سال بعد اس کی عداوت سردار جے سنگھ کنہیا کے ساتھ پیدا ہوئی اور جے سنگھ کنہیا نے بعد بہت سی لڑائیوں کے اس کو علاقہ مقبوضہ سے بے دخل کر کے ستلج پار اتار دیا۔
چند سال اس نے ہندوستان کے ملک میں لوٹ مار کر کے گذارہ کیا آخر جب فی مابین سردار جے سنگھ کنہیا اور سردار مہان سنگھ پدر ِ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عداوت پیدا ہوئی اور نوبت بہ جنگ و فساد پہنچی تو مہان سنگھ نے جسا سنگھ کو ہندوستان کے ملک سے اپنی امداد کے لیئے طلب کیا ۔ جب یہ آیا تو دونوں سرداروں میں سخت لڑائی ہوئی ۔ آخر جے سنگھ نے شکست فاش کھائی اور گور بخش سنگھ جے سنگھ کا بیٹا عین لڑائی میں مارا گیا۔ اس فتح نمایاں کے بعد جسا سنگھ دوبارہ اپنے علاقہ قدیمی پر قابض و دخیل ہو گیا۔ چند سال اس نے با اختیار حکومت کی اور مر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد جودہ سنگھ اس کا بیٹا مالک و قابض علاقہ پدری کا ہوا۔
جب ستارہ اقبال مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ہوا تو جودہ سنگھ نے اس کی اطاعت کر لی ۔ اگرچہ کوئی تعداد باج سالانہ کی نہ تھی ۔ مگر رنجیت سنگھ جب تنگ کرتا ، کچھ دے چھوڑتا آخر جب جودہ سنگھ بھی جاں بہ حق تسلیم ہو گیا تین بیٹے اس کے دیوان سنگھ، ہیرا سنگھ ، بیر سنگھ باقی رہے ۔ ان میں سے ہر ایک ریاست کی گدی اپنے واسطے چاہتا تھا۔ آخر یہ بات ٹھہری کہ ملک و مال تین حصص میں برابر تقسیم ہو اور حصص کی تقسیم کے لیئے مہاراجہ رنجیت سنگھ منصف و ثالث مقرر ہوا ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ فی الفور اپنا لشکر لے کر ان کے علاقے میں داخل ہوا اور ایسی منصفی کی کہ ان کے تمام علاقے میں اپنے کارگزار بھیج دیئے اور خزانہ و دولت سب کچھ ضبط کر لیا وہ تینوں اس کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ آپس کی نا اتفاقی کا ان کو یہ ثمرہ ملا کہ ملک و مال سے جاتے رہے۔

شعر:
اہل دولت گر نہیں رکھیں گے باہم اتفاق
ہے یقیں فی الفور گم وہ خانداں ہو جائےگا
چار دن میں آبرو برباد کر بیٹھیں گے وہ
بے نشاں ہر ایک کا نام و نشاں ہو جائے گا​
 
تیسری مثل سرداران کہنیا کی
اس مثل کا سرگروہ و بانی مبانی سردار جے سنگھ کہنیہ تھا۔ چوں کہ وہ متوطن موضع کاہنا کا تھا جو لاہور سے جنوب کی جانب بہ فاصلہ دس کوس کے آباد ہے۔ اس واسطے اس کو سردار جے سنگھ کہنیہ کہتے تھے۔ یعنی موضع کاہنا کا رہنے والا۔ اصل حال اس مثل کا اس طرح درج تواریخِ سکھی ہے کہ مسمیٰ خوشحال سندھو جاٹ ، کاہنا کا رہنے والا ایک غریب و مفلس آدمی تھا اور ایسی ناداری اس پر طاری تھی کہ اکثر اوقات گزارہ اس کا گدائی اور دریوزہ گری کے ذریعے سے ہوتا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے : ایک جے سنگھ اور دوسرا چندہ سنگھ۔ ان میں جے سنگھ جس کا اول نام جے چند تھا۔ بڑا اولو العزم و صاحب داعیہ نکلا ۔ اس نے چاہا کہ کسی طرح مفلسی اور فاقہ کشی سے عذاب سے نکل کر ہاتھ پاؤں ہلائے، شاید کہ خدا مہرباں ہو ، مشکل آسان ہو۔ اسی فکر میں تھا کہ یکایک سکھوں کی فتح اور فیروزی کا آوازہ عالم گیر ہوا ۔اس نے بھی چاہا کہ میں سکھ بنوں اور زمانے کو لوٹ کھاؤں۔ یہ ارادہ اس نے دل میں مصمم کر لیا اور سردار کپور سنگھ فیض اللہ پوریہ کی خدمت میں جا کر اس نے پاہل لی اور سکھ بن گیا۔ اس کی مثل کے ہمراہ ہو کر رہزنی وغارت گری کرنے مٰیں سرگرم ہوا اور بہ سبب کمال جرات و بہادری اپنی کے اپنے ہمسروں اور ہم چشموں سے بڑھ گیا۔ ہوتے ہوتے جب بہت سے آدمی اپنی بستی کے بھی اس نے سکھ بنا کر اپنے ساتھ شامل کر لیئے تو اپنی مثل اس نے الگ بنا لی اور دور جا کر پے درپے ڈاکے مارے۔ بڑے بڑے قصبے اور گاؤں لوٹے اور خوب جمیعت بہم پہنچائی۔

جب سلطنت شاہان دہلی اور کابل کی پنجاب سے بالکل نیست و نابود ہو گئی تو اس نے بھی بہت سا ملک اور سکھوں کی طرح دامن کوہ شمالی کا دبا لیا اور خیالات اس کے بہت بلند ہو گئے۔ چوں کہ اس وقت مہاراجہ سنسار چند والیِ کوہستان بھی اپنے علاقے کی حدود بڑھانے میں مصروف تھا ۔ اور مہاراجہ مذکور قلعہ کانگڑہ پر مہم کرکے چاہتا تھا کہ کسی طرح کانگڑہ میرے تصرف میں آجائے۔ مگر نواب سیف علی خان قلعدار کانگڑہ جو سلاطین چغتائی کے وقت سے قلعے پر قابض تھا اس کو قلعے پر قابض نہیں ہونے دیتا تھا ۔ اور مدت محاصرے کی آٹھ ماہ تک طول کھینچ گئی تھی، اس واسطے مہاراجہ سنسار چند نے سردار جے سنگھ کہنیا کو اپنی امداد پر بلایا۔ یہ فی الفور اپنی مثل کے سوار ہمراہ لے کر کانگڑے جا پہنچا۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی خبر آئی کہ نواب سیف علی خاں قلعدار بہ قضائے الہی مر گیا ہے۔ یہ خبر سن کر جے سنگھ نے قلعے والوں کو بہت ڈرایا اور دھمکایا اور سیف علی خاں کے بیتے جیون خاں کو طمع دینا کر کے قلعہ خالی کرا لیا ۔ قلعے کے خالی ہوتے ہی سردار جے سنگھ خود قلعے پر قابض ہو بیٹھا اور مہاراجہ سنسار چند کو صاف جواب دے دیا۔

چونکہ جمیعت سردار جے سنگھ کی مہاراجہ سنسار چند کی سپاہ سے اس وقت زیادہ تھی، علاوہ اس کے قلعے میں اس نے اپنا قرار واقعی قبضہ کر لیا تھا ۔ سنسار چند بہ حالت ناچاری خاموش رہا۔ یہ ترقی و جاہ و جلال سردار جے سنگھ کا دیکھ کر سردار جسا رام گڑھیہ کو کمال حسد ہوا اور اس کے علاقے سے مزاحمت کرنی شروع کی۔ جے سنگھ نے اس پر بھی فوج کشی کی اور لڑائی میں اس کو شکست دے کر ستلج پار اتار دیا۔جب رام گڑھیوں کا علاقہ بھی تمام و کمال جے سنگھ کے قبضے میں آگیا تو جے سنگھ کمال مغرور ہو گیا اور بابت حصہ مال و اسباب غارت شہرجموں سردار مہان سنگھ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باپ کے ساتھ خصومت شروع کی۔ اگرچہ یہ دعویٰ اس کا سچا تھا کہ اس نے مہان سنگھ کی ہمراہی میں شہر جموں کو لوٹا تھا اور غارت کر کے پورا حصہ نہ پایا تھا مگر سردار مہان سنگھ کو اب وہ حصہ دینا مشکل ہوگیا۔ پہلے تو سردار مہان سنگھ نے جے سنگھ کی بہت خوشامد کی اور چاہا کہ کسی طرح یہ اپنے دعوے سے باز آجائے۔ جب چاپلوسی زبانی سے کام نہ چلا تو جنگ کی تیاری کی اور سردار جسا سنگھ رام گڑھیہ کو ستلج کے پار سے اپنی امداد کو طلب کیااور مہاراجہ سنسار چند سے بھی دوستی کر لی۔اب دو دشمن قوی زور آور اور تیسرا مہان سنگھ، جے سنگھ کی سرکوبی پر مستعد ہو گئے۔

یہ خبر جب جے سنگھ نے سنی ، مسمی گوربخش سنگھ دودیہ کو جو اس کا مصاحب تھا ، فوج دے کر بھیجا کہ جسا سنگھ رام گڑھیہ کا راستہ روک کر اس کو اس طرف آنے نہ دیوے۔ وہ ستلج پار اتر گیا اور قریب پٹیالہ کے دونوں میں لڑائی ہوئی۔ لڑائی میں گوربخش سنگھ دودیہ مارا گیا۔ دوسری لڑائی اس کی جے سنگھ کے بیٹے گوربخش سنگھ سے اس کے ملک کی سرحد پر ہوئی۔ اس لڑائی میں دوسرا گوربخش سنگھ ، یعنی جے سنگھ کا بیٹا بھی قتل ہوا۔ ادھر تو یہ حال گزرا ادھر مہاراجہ سنسار چند نے پہاڑ سے اتر کر جے سنگھ کے علاقے کی ضبطی شروع کی۔ جب جے سنگھ پر چاروں طرف سے دشمنوں کا ہجوم ہو گیا تو سخت گھبرایا اور کوئی چارہ بن نہ آیا۔سوائے اس کے کہ قلعہ کانگڑہ مہاراجہ سنسار چند کو دے کر راضی کرلے۔ چنانچہ فی الفور اس نے قلعہ مہاراجہ کو دے دیا اور اس کی مزاحمت سے رہائی پائی اور مہان سنگھ کے بیٹے رنجیت سنگھ کے ساتھ جو آخر مہاراجہ رنجیت سنگھ والی پنجاب ہوا، اپنے پوتے گوربخش سنگھ کی بیٹی مسماۃ مہتاب کنور کا ، جو سدا کنور کے پیٹ سے تھی ناطہ کر کے اس سے بھی صلح کر لی۔ سردار مہان سنگھ نے انہی ایام مٰیں اپنے فرزند رنجیت سنگھ کی شادی مہتاب کنور سے کر لی اور باہم دو سرداروں میں کمال اتحاد پیدا ہوگیا۔ اس وقت سردار مہان سنگھ نے صلح اس شرط پر کی تھی اور ناطہ لیا تھا کہ سردار جسا سنگھ رام گڑھیہ بھی بہ دستور اپنے علاقے پر قابض و متصرف ہو جائے۔ چنانچہ وہ ہو گیا۔اگرچہ سردار جے سنگھ نے ان تدابیر سے آتش فتنہ و فساد کو سرد کیا مگر شعلہ غم و الم اپنے بیٹے گرو بخش سنگھ مقتول کا جو بڑا جواں مرد و بہادر و لائق کار تھا۔ اس کےسینے میں ایسا مشتعل تھا کہ فرو ہونا اس کا مشکل تھا۔اگرچہ دو بیٹے اس کے اور بھی مسمیان ندھا ن سنگھ اور بھاگ سنگھ تھے مگر وہ لیاقت سرداری و حکمرانی کی نہ رکھتے تھے۔ اس غم و الم میں اس نے سمت 1819 مطابق 1227 ھجری میں رحلت کی ۔ اس کے مرنے کے بعد رانی سدا کنور زوجہ گوربخش سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ساس اس کے مقبوضہ علاقے پر قابض و متصرف رہی ۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور پر یورش کی تو رانی سدا کنور مع اپنی فوج کے اس کے ہمراہ تھی اور مدت دراز تک اس کے ممد و معاون رہی ۔ آخر باہم نا اتفاقی ہوگئی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کا علاقہ مکیریاں وغیرہ ضبط کر کے اس کو قید میں رکھااور وہ قید میں ہی مر گئی اور خاندان سرداران کہنیا کا نیست و نابود ہوگیا:

خدا باقی ہے اور دنیا ہے فانی
نہیں یہ ملک ملک جاودانی
زمانہ جب گزر جائے گا تیرا
فقط رہ جائے گی باقی کہانی
NORTHERN_INDIA_1780_by_hellbat.jpg

ایک نظر مثلوں کے محل وقع پر​
 
چوتھی مثل نکیوں سکھوں کی
اس مثل کاابتدائی حال اس طرح پر لکھا ہے کہ ہیرا سنگھ قوم جاٹ گوت سندھو ایک غریب مفلس آدمی کا بیٹا تھا اور محنت و مزدوری پر گزارہ معاش تھا۔ جب مزدوری نہ ملتی تو گدائی سے کام چلا لیتا تھا۔موضع بھڑوال سابق پرگنہ فرید آباد حال پرگنہ چونیاں واقع ملک نکہ میں اس کی سکونت تھی۔ جب وہ عیال دار ہوا اور گھر کے آدمی بڑھ گئے تو ان کا پیٹ اس کی محنت و مزدوری اور گدائی سے نہ بھرتا تھا۔ ایک ہفتے میں چار دفعہ فاقہ ہوتا تھا۔ جب اس سے کوئی صورت نہ بن پڑی اور اس نے دیکھا کہ سینکڑوں آدمی سکھ بن کر رہزنی کرتے ہیں اور آسودہ حال ہو جاتے ہیں ، میں بھی سکھ بن جاؤں اور رہزنی پر کمر باندھ لوں ۔ بارے کھانا تو فراغت سے ملے گا اور پیٹ بھر کر خود بھی کھاؤں گا اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی کھلاؤں گا ۔ اس ارادے پر اس نے پاہل لی اور سکھ بن گیا۔ اپنے گاؤں کے ہم عمر بھی بہت سے آدمی اپنے ہمراہ کر لیے اور ڈاکہ مارنا شروع کیا ۔ پہلے پہل تو نزدیک نزدیک کے گاؤں رات رات لوٹے، پھر آگے قدم بڑھایا اور دور دور کے ملکوں کو لوٹنے لگے ۔ دن بدن ستارہ بخت کا چمکتا گیا۔ دولت نے اپنا چہرہ اس کے گھر کی طرف کر لیا ۔ جب مال دولت بہت سا چند سال میں جمع کر لیا تو گھر کے ملازم گھوڑ چڑھے نوکر رکھے اور سوار و پیادہ لشکر معقول بہم پہنچایا۔ حکومت اپنی کل علاقے پر قائم کر لی۔ پھر آگے قدم بڑھایا اور دریائے ستلج کے کنارے کنارے دور تک ملک فتح کیا اور فرماں فرمائے ملک نکہ ہوگیا اور بڑے استحکام کے ساتھ ریاست قائم کی۔ چونکہ اسی علاقے میں ریاست و جاگیر شیخ سبحان قریشی سجادہ نشین خانقاہ فرید گنج شکر چشتی کی واقع تھی اور ان کے علاقے میں گاؤ کشی کا رواج تھا۔ یہ بات ہیرا سنگھ پر ناگوار گزری اور بڑی جمیعت کے ساتھ پاک پتن پر یورش کی ۔ عین معرکے میں ایک گولی ہیرا سنگھ کے مغز میں لگی کہ سر پاش پاش ہو گیا۔ ہیرا سمگھ کے مارے جانے کے بعد لشکر اس کا بھڑوال کو واپس چلا گیا۔
اگرچہ شیخ سبحان نے چار ہزار سواروں کے ہمراہ ان کا تعاقب کیا مگر وہ دستیاب نہ ہوئے ۔ ہیرا سنگھ مقتول کا بیٹا دل سنگھ نام اس وقت خرد سال تھا اس واسطے ناہر سنگھ برادر زادہ اس کا قائم مقام اس کا ہوا۔ اس کی مسند نشینیکو نو ماہ ہی گزرنے پائے تھے کہ تپ دق کے آزار میں گرفتار ہو کر مر گیا۔ اس کے پیچھے وزیر سنگھ نام ناہر سنگھ کا چھوٹا بھائی مالک ہوا۔ اس مثل کے ذمہ داروں میں سے ایک شخص سردار چتر سنگھ نام تھا ۔ اس شخص کی دختر دل سنگھ خرد سال ہیرا سنگھ مقتول کے بیٹے سے منسوب تھی۔ اتفاقا وہ چتر سنگھ مر گیا۔ دل سنگھ خرد سال داماد اس کا ان کی نصف ریاست کا حق دار تھا۔ لیکن وزیر سنگھ نے اس کی ریاست پر بھی قبضہ کر لیا اور دل سنگھ کو جو ہیرا سنگھ بانی مثل کا بیٹا تھا بالکل محروم کر دیا اور نصف ریاست باقی ماندہ کا حق دار اس کا بڑا بیٹا بھگوان سنگھ تھا۔جب وہ جانشین ہوا تو وزیر سنگھ نے اس پر بھی فوج کشی کر کے اس کو مطیع کیا اور کچھ تھوڑا ملک بھگوان سنگھ اور اس کے دونوں چھوٹے بھائیوں گیان سنگھ و خزان سنگھ کو بطور مدد معاش دے دیا۔
یہ لڑکے کچھ بہت ہوشیار نہیں تھے۔ ان کے علاقے کا کاروبار ان کے اہلکار انجام دیتے تھے۔ بھگوان سنگھ نے اپنی بیٹی راجکوراں کو (جس کے پیٹ سے مہاراجہ کھڑک سنگھ پیدا ہوا) مہاراجہ رنجیت سنگھ ، مہان سنگھ کے بیٹے کے ساتھ منسوب کر دیا اور سردار مہان سنگھ کو اپنا مددگار بنایا۔ چونکہ عداوت سخت درمیان وزیر سنگھ اور بھگوان سنگھ کے برپا تھی۔ آخر وزیر سنگھ کے ہاتھ سے بھگوان سنگھ مارا گیا۔ اور اس کا چھوٹا بھائی گیان سنگھ اس کی جگہ بیٹھا اور انہی ایام میں وزیرسنگھ کو دل سنگھ بانیِ مثل کے بیٹے نے قتل کر دیا مگر دل سنگھ بھی قتل گاہ سے جانے نہ پایا، اسی دم اور اسی مقام پر اس کو وزیر سنگھ کے نوکروں نے قتل کردیا۔غرض وزیر سنگھ اور دل سنگھ دونوں ایک ہی دن کھیت رہے۔ مہر (موہر) سنگھ و مہر(ماہر) سنگھ دو بیٹے وزیر سنگھ کے باقی رہے اور بعد مرنے گیان سنگھ کے خزان سنگھ اس کا چھوٹا بیٹا جانشین ہوا اور کانہا سنگھ گیان سنگھ کا بیٹا کہ بہت ہی چھوٹا تھا اس کے زیر حکم رہا۔ آخر الامر مہاراجہ رنجیت سنگھ بہادر نے نکہ پر فتح یاب ہوکر سب سرداران کا ملک ضبط کر لیا اور منجملہ سب ملک کے لیئے بارہ ہزار روپے کی جاگیر تو خزان سنگھ اور کانہا سنگھ کو عطا کی اور کچھ تھوڑا علاقہ مہر سنگھ ، وزیر سنگھ کے بیٹے کے لیئے مقرر کیا۔ اب چند سال ہوئے ہیں کہ کانہا سنگھ سردار بھی بہت ضعیف ہو کر مر گیا ہے۔ اس کے بیٹوں کے لیئے اب کچھ گزارہ سرکار انگریزی کی طرف سے مقرر ہے جس سے وہ پرورش پاتے ہیں۔

(اکثر احوال اس میں کنہیا لال ہندی کی کتاب تاریخ پنجاب سے لیا گیا ہے۔ لہذا غیر جانبداری کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں جو رائے اور جذبات بیان ہو رہے ہیں وہ کنہیا لال ہندی کے ہیں۔ میرے نہیں ۔ فیصل عظیم فیصل ۔ ناقل بر اردومحفل)​
 
پانچویں مثل آہلو والیوں سکھوں کی​
مورخان صادق الاقوال اس مثل کی بنیاد کا احوال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ موضع آلو (یا آہلو) جو لاہور سے جانب شرق مائل بہ جنوب بفاصلہ چھے کوس (کروہ بمعنی کوس) کے ہے ، اس میں ایک شخص بھاگو نام کا نہایت مفلس و قلاش پریشان حال رہا کرتا تھا۔ پہلے وہ اپنے ہی گاؤں میں شراب فروشی کی دکان کرتا رہا۔ جب وہاں کام نہ چلا اور تنگ دستی نے بہت ستایا تو اس نے لاہور کے حصار سے باہر کی آبادی میں محلہ تیل پورہ و گنج جہاں اب (1850) بعد ویرانی شہرِ بیرونی کے موضع گنج آباد ہے۔ دوکان شراب فروشی کی جاری کی اور چند مدت یہ کام کرتا رہا۔ مگر اس میں بھی اس کا کام نہ چلا اور گزارہ نہ ہو سکا۔یہ سخت ناچار ہو گیا ۔اس وقت اس نے دیکھا کہ سکھوں کا کام بہت ترقی پر ہے اور وہ جدھر جاتے ہیں ملکوں کے ملک لوٹ کر لے جاتے ہیں کوئی پوچھنے روکنے والا نہیں ہے۔ میں بھی سکھ بن جاؤں اور قزاقی و رہزنی کر کے آسودگی پاؤں۔
اس خیال پر اس نے اپنا تمام دوکان کا اسباب فروخت کر کے ایک گھوڑا مول لے لیا اور بمقام فیض اللہ پور ، سردار کپور سنگھ کے پاس جا کر پاہل لی اور سکھ بنا۔ اور اس کی مثل کے ہمراہ ہو کر رہزنی اور غارت و تاراج میں مصروف ہوا۔ چونکہ آدمی چست و چالاک و ہوشیار تھا ، تھوڑے ہی عرصے میں ایک چھوٹی سی جماعت کا سردار ہو گیا۔ روز بروز اس کو یہ خیال پیش نہاد خاطر تھا کہ کسی طرح بہت سے آدمی لائق اپنے ہمراہ لے کر ایک معقول مثل کا سردار بن جاؤں۔ دو سال کے عرصے میں اس نے بہت سے آدمی اپنے گاؤں اور گردو نواح کے دیہات کے اپنے ساتھ شامل کر کے جمیعت معقول بہم پہنچائی۔سردار کپور ، فیض اللہ پوری بھی اس پر کمال مہربان تھا کہ بھاگ سنگھ ہر کام میں اس کی رضامندی کو مقدم جانتا تھا۔ایک روز کپور سنگھ، بھاگ سنگھ کے گھر گیا۔وہاں اس نے بھاگ سنگھ کی بیوہ بہن کو دیکھاکہ پاہل لے کر سکھنی بنی ہوئی ہے اور رباب لے کر گورو کی بانیاں بہ آواز خوش گا رہی ہیں ۔ کپور سنگھ کو اس کی آواز بہت خوش معلوم ہوئی اور یہ عبادت و عمل اس کا اس نے بہت پسند کیا ۔اس پر مہربان ہو کر پہلے تو اس کو کچھ نقد روپیہ انعام دیا اور پوچھا کہ تیرے گھر میں کوئی اولاد بھی ہے کہ نہیں ؟۔ اس نے اپنا بیٹا جسا سنگھ نامی پیش کیا۔ بچہ خوبصورت تھا اس کو دیکھ کر کپور سنگھ بہت خوش ہوا اور کہا کہ اس لڑکے کو ہمارے ساتھ کر دے۔ ہم اس کی پرورش کریں گے۔ چند روز میں یہ بڑا جواں مرد سپاہی اور سردار بن جائے گا۔ یہ تقریر سن کر اس عورت نے اپنے بیٹے کہ بانہہ کپور سنگھ کے ہاتھ میں دے دی اور اس کے ساتھ کر دیا۔ وہ اس کو اپنے ہمراہ لےگیا اور کمال پرورش کی نظر اس پر رکھی اور تھوڑے عرصے میں اپنی ریاست میں اس کو صاحب اختیار کر دیا۔ یہاں تک کہ جسا سنگھ اپنے ماموں بھاگ سنگھ سے بھی بڑھ گیا۔
آخر کار جب بھاگ سنگھ مر گیا اور کوئی صلبی بیٹا اس کا وارث نہ تھا تو جسا سنگھ اس کا وارث قرار پایا اور اس طرح کل جائداد اندوختہ بھاگ سنگھ جسا سنگھ کو مل گئی۔ پھر یہ ایک صاحب دولت سردار بن گیا۔چونکہ جسا سنگھ ایک نہات دانا و لئیق آدمی تھا اپنی کمال ہوشیاری و لیاقت کے سبب نواب آدینہ بیگ خاں ناظم و حاکم دو آبہ بست جالندھر کا مقرب و مصاحب بن گیا۔ اور جب تک آدینہ بیگ خاں زندہ رہا۔ یہ اس کی مصاحبت میں رہ کر بڑی عزت و اقتدار بہم پہنچایا۔

جب آدینہ بیگ خان مر گیا اور سکھوں نے ملک گیری شروع کی۔تو جسا سنگھ نے اول سرہند کی طرف کچھ فتوحات حاصل کیں اور شہر فتح آباد وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر ایک چھوٹی سی لڑائی میں کپورتھلہ اور ملک متعلقہ کپور تھلہ کا رائے ابراہیم بھٹی سے چھین کر اپنے ماتحت میں کر لیا اور بہت اعلیٰ استعداد بہم پہنچائی۔ دولت، لشکر، ملک ، فوج ، خزانہ ہر ایک چیز اس کے پاس موجود ہوگئی۔

ایک مرتبہ احمد شاہ درانی جب ولایت کابل کو الٹا جاتا تھا اور دو ہزار دو سو عورتیں ہندو ہندوستان سے پکڑ کر اپنے ہمراہ وہ قید کئے ہوئے لئے جارہا تھا ، یہ بات سکھوں کو ناگوار گزری مگر کسی میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ بادشاہ کے پنجے سے ان عورتوں کو چھڑا لائے۔ اس وقت جسا سنگھ نے جواں مردی کی اور احمد شاہ کی فوج پر اپنی جمیعت کے ہمراہ رات کو جا پڑااور شب خون مار کر ان تمام عورتوں کو چھڑا کر لے آیا اور ہر ایک کو خرچ دے کر اس کے گھر پہنچا کر آیا۔ یہ عمل نہایت اچھا جسا سنگھ سے سرزد ہوا جس سے اس کی تمام پنجاب میں نام وری ہو گئی ۔ اور ہر ایک کے دل میں اس کی بہادری اور جواں مردی کا رعب سما گیا۔ جب سردار جسا سنگھ مر گیا تو کوئی صلبی بیٹا اس کا وارث نہ رہا جو ریاست کا وارث بنتا صرف دو رشتہ دار مسمی بھاگ سنگھ اور مہر سنگھ باقی رہ گئے ۔ ان میں سے سردار جے سنگھ کہنیا کی تجویز پر بھاگ سنگھ کو گدی پر بٹھایا گیا۔ یہ بھی نہایت لئیق و دانا و جواں مرد شخص تھا ۔ جب اس نے بھی عالم فانی سے ملک جاودانی کو کوچ کیا تو پھر اس کی جگہ سردار فتح سنگھ گدی نشین ہوا ۔ یہ سردار نہایت دانا و صاحب عقل و ہوش تھا ۔اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ کمال دوستی پیدا کیا اور ہر ایک مہم میں اس کا حامی و مددگار رہا۔کبھی نافرمانی نہ کی ۔ فتوحات ملک پنجاب جو رنجیت سنگھ کو نصیب ہوئیں ان میں سردار فتح سنگھ نے ہر مہم میں جانفشانی سے اس کی مدد و معاونت کی اور اپنی فوج ہر مہم میں رنجیت سنگھ کی فوج کے ہمراہ دشمن کے مقابلے میں رکھی۔

جب دریائے ستلج حدِ فاصل بین علاقہ پنجاب اور علاقہ سرکارِ انگریزی کے قائم ہو گیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نیت اس کی طرف سے بھی بدل گئی اور چاہا کہ اس کو بھی اس علاقے سے بے دخل کر دیا جائے مگر اس کو وقت پر خبر ہو گئی ۔اور کپورتھلہ سے صاحبانِ انگریز کے علاقے میں چلا گیا ۔ چونکہ علاقہ متعلقہ اس کا بھی انگریزی عمل داری میں جمعی پانچ لاکھ روپیہ کا موجود تھا ، صاحب ایجنٹ نواب گورنر جنرل کے یہاں سے ایک خط مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام جاری ہوا کہ چونکہ علاقہ سردار فتح سنگھ آلو والیہ کا سرکار انگریزی کے علاقے میں بھی جمعی پانچ لاکھ کا موجود ہے، آج کی تاریخ سے وہ زیر حمایت سرکار انگریزی متصور ہوگا۔ مہاراجہ صاحب بہادر والی پنجاب کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ اس کے علاقے واقع دوآبہ جالندھر پر بھی دست درازی کرے بلکہ رابطہ محبت و اتحاد کا جو فی مابین ہر دو سرکار ذوی اقتدار ہے، مقتضی اس بات کا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر بھی اس کو بہر نوع من انواع اپنے دربار سے محفوظ و مامون تصور فرمائیں اور کوئی ایسا امر وقوع میں نہ لائیں جس سے دوستانِ محبت کیش کی دل شکنی ہو۔
جب یہ تحریر سرکار انگریز کی مشتہر ہو گئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ اس علاقے میں دست درازی سے باز آیا۔ یہ واقعہ 1826 میں گزرا ہے تو بعد استحکام اس امر کے فتح سنگھ واپس اپنے علاقہ ریاست کپور تھلہ میں آگیا۔
 
آخری تدوین:
تکملہ : پانچویں مثل آہلو والیوں سکھوں کی​
مورخان صادق الاقوال اس مثل کی بنیاد کا احوال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ موضع آلو (یا آہلو) جو لاہور سے جانب شرق مائل بہ جنوب بفاصلہ چھے کوس (کروہ بمعنی کوس) کے ہے ، اس میں ایک شخص بھاگو نام کا نہایت مفلس و قلاش پریشان حال رہا کرتا تھا۔ پہلے وہ اپنے ہی گاؤں میں شراب فروشی کی دکان کرتا رہا۔ جب وہاں کام نہ چلا اور تنگ دستی نے بہت ستایا تو اس نے لاہور کے حصار سے باہر کی آبادی میں محلہ تیل پورہ و گنج جہاں اب (1850) بعد ویرانی شہرِ بیرونی کے موضع گنج آباد ہے۔ دوکان شراب فروشی کی جاری کی اور چند مدت یہ کام کرتا رہا۔ مگر اس میں بھی اس کا کام نہ چلا اور گزارہ نہ ہو سکا۔یہ سخت ناچار ہو گیا ۔اس وقت اس نے دیکھا کہ سکھوں کا کام بہت ترقی پر ہے اور وہ جدھر جاتے ہیں ملکوں کے ملک لوٹ کر لے جاتے ہیں کوئی پوچھنے روکنے والا نہیں ہے۔ میں بھی سکھ بن جاؤں اور قزاقی و رہزنی کر کے آسودگی پاؤں۔
اس خیال پر اس نے اپنا تمام دوکان کا اسباب فروخت کر کے ایک گھوڑا مول لے لیا اور بمقام فیض اللہ پور ، سردار کپور سنگھ کے پاس جا کر پاہل لی اور سکھ بنا۔ اور اس کی مثل کے ہمراہ ہو کر رہزنی اور غارت و تاراج میں مصروف ہوا۔ چونکہ آدمی چست و چالاک و ہوشیار تھا ، تھوڑے ہی عرصے میں ایک چھوٹی سی جماعت کا سردار ہو گیا۔ روز بروز اس کو یہ خیال پیش نہاد خاطر تھا کہ کسی طرح بہت سے آدمی لائق اپنے ہمراہ لے کر ایک معقول مثل کا سردار بن جاؤں۔ دو سال کے عرصے میں اس نے بہت سے آدمی اپنے گاؤں اور گردو نواح کے دیہات کے اپنے ساتھ شامل کر کے جمیعت معقول بہم پہنچائی۔سردار کپور ، فیض اللہ پوری بھی اس پر کمال مہربان تھا کہ بھاگ سنگھ ہر کام میں اس کی رضامندی کو مقدم جانتا تھا۔ایک روز کپور سنگھ، بھاگ سنگھ کے گھر گیا۔وہاں اس نے بھاگ سنگھ کی بیوہ بہن کو دیکھاکہ پاہل لے کر سکھنی بنی ہوئی ہے اور رباب لے کر گورو کی بانیاں بہ آواز خوش گا رہی ہیں ۔ کپور سنگھ کو اس کی آواز بہت خوش معلوم ہوئی اور یہ عبادت و عمل اس کا اس نے بہت پسند کیا ۔اس پر مہربان ہو کر پہلے تو اس کو کچھ نقد روپیہ انعام دیا اور پوچھا کہ تیرے گھر میں کوئی اولاد بھی ہے کہ نہیں ؟۔ اس نے اپنا بیٹا جسا سنگھ نامی پیش کیا۔ بچہ خوبصورت تھا اس کو دیکھ کر کپور سنگھ بہت خوش ہوا اور کہا کہ اس لڑکے کو ہمارے ساتھ کر دے۔ ہم اس کی پرورش کریں گے۔ چند روز میں یہ بڑا جواں مرد سپاہی اور سردار بن جائے گا۔ یہ تقریر سن کر اس عورت نے اپنے بیٹے کہ بانہہ کپور سنگھ کے ہاتھ میں دے دی اور اس کے ساتھ کر دیا۔ وہ اس کو اپنے ہمراہ لےگیا اور کمال پرورش کی نظر اس پر رکھی اور تھوڑے عرصے میں اپنی ریاست میں اس کو صاحب اختیار کر دیا۔ یہاں تک کہ جسا سنگھ اپنے ماموں بھاگ سنگھ سے بھی بڑھ گیا۔
آخر کار جب بھاگ سنگھ مر گیا اور کوئی صلبی بیٹا اس کا وارث نہ تھا تو جسا سنگھ اس کا وارث قرار پایا اور اس طرح کل جائداد اندوختہ بھاگ سنگھ جسا سنگھ کو مل گئی۔ پھر یہ ایک صاحب دولت سردار بن گیا۔چونکہ جسا سنگھ ایک نہات دانا و لئیق آدمی تھا اپنی کمال ہوشیاری و لیاقت کے سبب نواب آدینہ بیگ خاں ناظم و حاکم دو آبہ بست جالندھر کا مقرب و مصاحب بن گیا۔ اور جب تک آدینہ بیگ خاں زندہ رہا۔ یہ اس کی مصاحبت میں رہ کر بڑی عزت و اقتدار بہم پہنچایا۔

جب آدینہ بیگ خان مر گیا اور سکھوں نے ملک گیری شروع کی۔تو جسا سنگھ نے اول سرہند کی طرف کچھ فتوحات حاصل کیں اور شہر فتح آباد وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر ایک چھوٹی سی لڑائی میں کپورتھلہ اور ملک متعلقہ کپور تھلہ کا رائے ابراہیم بھٹی سے چھین کر اپنے ماتحت میں کر لیا اور بہت اعلیٰ استعداد بہم پہنچائی۔ دولت، لشکر، ملک ، فوج ، خزانہ ہر ایک چیز اس کے پاس موجود ہوگئی۔

ایک مرتبہ احمد شاہ درانی جب ولایت کابل کو الٹا جاتا تھا اور دو ہزار دو سو عورتیں ہندو ہندوستان سے پکڑ کر اپنے ہمراہ وہ قید کئے ہوئے لئے جارہا تھا ، یہ بات سکھوں کو ناگوار گزری مگر کسی میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ بادشاہ کے پنجے سے ان عورتوں کو چھڑا لائے۔ اس وقت جسا سنگھ نے جواں مردی کی اور احمد شاہ کی فوج پر اپنی جمیعت کے ہمراہ رات کو جا پڑااور شب خون مار کر ان تمام عورتوں کو چھڑا کر لے آیا اور ہر ایک کو خرچ دے کر اس کے گھر پہنچا کر آیا۔ یہ عمل نہایت اچھا جسا سنگھ سے سرزد ہوا جس سے اس کی تمام پنجاب میں نام وری ہو گئی ۔ اور ہر ایک کے دل میں اس کی بہادری اور جواں مردی کا رعب سما گیا۔ جب سردار جسا سنگھ مر گیا تو کوئی صلبی بیٹا اس کا وارث نہ رہا جو ریاست کا وارث بنتا صرف دو رشتہ دار مسمی بھاگ سنگھ اور مہر سنگھ باقی رہ گئے ۔ ان میں سے سردار جے سنگھ کہنیا کی تجویز پر بھاگ سنگھ کو گدی پر بٹھایا گیا۔ یہ بھی نہایت لئیق و دانا و جواں مرد شخص تھا ۔ جب اس نے بھی عالم فانی سے ملک جاودانی کو کوچ کیا تو پھر اس کی جگہ سردار فتح سنگھ گدی نشین ہوا ۔ یہ سردار نہایت دانا و صاحب عقل و ہوش تھا ۔اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ کمال دوستی پیدا کیا اور ہر ایک مہم میں اس کا حامی و مددگار رہا۔کبھی نافرمانی نہ کی ۔ فتوحات ملک پنجاب جو رنجیت سنگھ کو نصیب ہوئیں ان میں سردار فتح سنگھ نے ہر مہم میں جانفشانی سے اس کی مدد و معاونت کی اور اپنی فوج ہر مہم میں رنجیت سنگھ کی فوج کے ہمراہ دشمن کے مقابلے میں رکھی۔

جب دریائے ستلج حدِ فاصل بین علاقہ پنجاب اور علاقہ سرکارِ انگریزی کے قائم ہو گیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نیت اس کی طرف سے بھی بدل گئی اور چاہا کہ اس کو بھی اس علاقے سے بے دخل کر دیا جائے مگر اس کو وقت پر خبر ہو گئی ۔اور کپورتھلہ سے صاحبانِ انگریز کے علاقے میں چلا گیا ۔ چونکہ علاقہ متعلقہ اس کا بھی انگریزی عمل داری میں جمعی پانچ لاکھ روپیہ کا موجود تھا ، صاحب ایجنٹ نواب گورنر جنرل کے یہاں سے ایک خط مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام جاری ہوا کہ چونکہ علاقہ سردار فتح سنگھ آلو والیہ کا سرکار انگریزی کے علاقے میں بھی جمعی پانچ لاکھ کا موجود ہے، آج کی تاریخ سے وہ زیر حمایت سرکار انگریزی متصور ہوگا۔ مہاراجہ صاحب بہادر والی پنجاب کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ اس کے علاقے واقع دوآبہ جالندھر پر بھی دست درازی کرے بلکہ رابطہ محبت و اتحاد کا جو فی مابین ہر دو سرکار ذوی اقتدار ہے، مقتضی اس بات کا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر بھی اس کو بہر نوع من انواع اپنے دربار سے محفوظ و مامون تصور فرمائیں اور کوئی ایسا امر وقوع میں نہ لائیں جس سے دوستانِ محبت کیش کی دل شکنی ہو۔
جب یہ تحریر سرکار انگریز کی مشتہر ہو گئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ اس علاقے میں دست درازی سے باز آیا۔ یہ واقعہ 1826 میں گزرا ہے تو بعد استحکام اس امر کے فتح سنگھ واپس اپنے علاقہ ریاست کپور تھلہ میں آگیا۔​
سردار فتح سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا نہال سنگھ تخت نشین ہوا۔ اس لئیق سردار نے اپنی ریاست کے کاروبار میں نہایت مصروفیت ظاہر کی اور بڑی بڑی عمارتیں کپورتھلہ میں بنوائیں ۔ اس کے وقت میں فی مابین فوج سکھی اور صاحبان انگریز سے جنگ ہوئی۔اگرچہ اس کا ارادہ مصمم تھا کہ کپورتھلہ کو چھوڑ کر ستلج پار کے ملک چلا جائے ۔اور سکھوں کے شامل ہو کر سرکار انگریزی کی طرف سے مطعون نہ ہو مگر اس کی فوج نے کہ تمام و کمال سکھ تھے، یہ بات منظور نہ کی اور کہا کہ ہم ایسے وقت میں اپنی قوم کی ہمراہی نہیں چھوڑتے۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ فوج نے جلوخانہ سردار کا گھیراؤ کر لیا اور توپیں رکھ دیں ۔اور سوال کیا کہ سردار کو سکھوں کی ہمراہی سے غلام محمد وزیر باز رکھتا ہے۔وزیر کو ہم ضرور قتل کر ڈالیں گے ۔ اگر سردار ان کی حمایت کرے گا تو اس کے بھی ہم دشمن ہیں ۔جب سردار نہال سنگھ فوج کے ہاتھ سے نہایت تنگ آیا اور جانا کہ اب فوج وزیر کی رفاقت میں مجھے بھی قتل کر ڈالے گی تو وزیر کو رخصت کیا ۔وزیر غلام محمد المتخلص بہ غلامی نہایت لئیق و شاعر و عالم و فاضل و صاحبِ تدبیر مشیر تھا۔اگرچہ داہنا ہاتھ اس کا بیکار تھا مگر وہ بائیں ہاتھ سے ایسا خوش خط لکھتا تھا کہ اپنا ثانی خوش خطی میں نہ رکھتا تھا۔

جب وزیر کو سردار نے فوج کے بلوے کے وقت رخصت کیا تو وہ برہنہ تلوار بائیں ہاتھ میں لے کر میدان میں تنہا آیا ۔اور سکھوں کو آواز دی کہ میں ایک ہاتھ کا مالک ہوں ۔ایک ایک شخص میرے ساتھ لڑنے کے واسطے آجائے ۔ یہ سن کر ایک جوان سکھ اکال اکال کرتا ہوا اس پر آپڑا مگر وزیر نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا۔اسی طرح چند سکھوں کا کام وزیر نے جب تمام کیاتو سکھوں نے مل کر بندوقیں اس پر جھونک دیں ۔اور وہ نمک حلال وزیر ناحق و بے موجب شہید ہو گیا۔

اس کو قتل کر کے فوج کا بلوہ موقوف ہوا ۔جب صاحبان انگریز بہادر فتح یاب ہوئے اور سکھانِ نا عاقبت اندیش میدان سے بھاگ بھاگ کر اپنے اپنے گھروں میں آگئے تو آں روئے دریائے ستلج پار کا علاقہ جو اس ریاست سے متعلق تھا ۔ضبط کر لیا۔صرف وہ علاقہ جو دوآبہ بست جالندھر میں واقع تھا باقی رہ گیا۔

اس وقت سردار نہال سنگھ نے بہت سے عذرات کئے اور فوج کے بلوے اور وزیر کے قتل کا احوال بھی اظہار کیا مگر نواب گورنر جنرل بہادر نے ان کے عذرات کو فضول جان کر کچھ سماعت نہ کی ۔ بروقت واگزاری علاقہ کپور تھلہ کے نواب گورنر جنرل بہادر کے حضور سے سردار نہال سنگھ کو راجگی کا خطاب ملا اور جگراؤں کا ملک واقع شرقی دریائے ستلج بالکل اس رئیس کے تصرف سے نکل گیا۔اور پانچ لاکھ کا علاقہ ، جو دوآبہ بست جالندھر میں باقی رہا اس میں ایک لاکھ بتیس ہزار روپیہ نقد سالانہ رئیس کی جانب سے سرکار انگریزی کو نقد دینا قرار پایا۔

جب راجہ نہال سنگھ فوت ہوا تو اس کا بڑا بیٹا مہاراجہ رندھیر سنگھ جانشین ہوا ۔یہ شخص سرکار انگریز بہادر کا کمال خیر خواہ تھا ۔1857 میں جب فوج انگریزی بگڑ گئی اور تمام اقلیم ہندوستان میں سخت فساد برپا ہوا اور ہزاروں انگریزوں کو مفسدوں نے قتل کر ڈالا ۔ اس وقت یہ لئیق اور وفادار رئیس اپنی فوج سمیت خدمت میں حاضر ہوا اور بڑے بڑے کام کئے۔بعد انتظام سرکار انگریزی نے اس کی کمال قدر دانی کی اور لکھنؤ کے علاقے میں اس کو ایک لاکھ روپے سالانہ کی زمینداری نصف جمع پر بہ صیغہ استمراری عطاء فرمائی ۔ اور پچس ہزار روپیہ سالانہ زرِ باج مقررہ سے کم کیا ۔اور ایک لاکھ بتیس ہزار روپیہ ایک سال کا جو بہ ذمہ ریاست واجب الادا تھا بالکل معاف ہوا ۔اور دس ہزار روپے کا خلعت برسر دربار بہ کمال عزت و احترام نواب گورنر جنرل بہادر نے رئیس کو مرحمت کیا ۔علاوہ اس کے جاگیر جمعی پچیس ہزار روپیہ سالانہ اسمی سردار نہال سنگھ جو علاقہ دوآبہ باری میں اس کے حین حیات تک واگزار تھی اور بعد وفات اس کے1852 سے ضبط ہو چکی تھی وہ بھی دوبارہ بنام راجہ رندھیر سنگھ واگزار و معاف ہوئی اور مہاراجہ کا خطاب ملا ۔1869 میں مہاراجہ رندھیر سنگھ بہ عزم سیرِ ولایت جہاز میں بیٹھ کر روانہ ہوا ۔جب جہاز شہر عدن پہنچا، مہاراجہ بیمار ہو کر مر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد راجہ کھڑک سنگھ اس کا بڑا بیٹا جانشین ہوا ۔اور وہ اب تک (1872 وقت تحریر کتاب تاریخ پنجاب از کنہیا لال ہندی) گدی پر موجود ہے۔
 
چھٹی مثل ڈلی والے سکھوں کی
بانی اس مثل کا سب سے اول مسمیٰ گلابا کھتری تھا جو موضع ڈلی وال میں دکان بقالی (کریانہ فروش) کی کرتا تھا۔ ایک رات اس کی دکان چوروں نے نقب لگا کر لوٹ لی اور تمام مال و اسباب و سامان نقد و جنس اس کا چرا کر لے گئے۔ جب یہ مفلس محض رہ گیا تو اس نے چاہا کہ دوبارہ کچھ روپیہ بہم پہنچا کر دکان جاری کرے لیکن روپیہ اس کو کہیں سے نہ ملا۔ بہ حالت ناچاری پاہل لے کر سکھ بن گیا اور غارت و رہزنی پر کمر باندھ لی۔ دس بیس آدمی خانہ بدوش ادھر ادھر کے اس کے شامل ہو گئے۔اور نزدیک نزدیک کے گاوؤں پر اس نے دست اندازی شروع کی۔ چونکہ مسکن اس کا ڈیرہ بابا نانک کے قریب اور دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے اور موضع بوڑا ڈالا بھی اس کو کہتے ہیں۔دیہات اور قرب و جوار کے زمیندار اس کی دست درازی سے تنگ آگئے اور سب نے مل کر بابا نانک کے ڈیرے جا کر وہاں کے مسند نشین کے پاس اس کی فریاد کی ۔ اس نے اس کو روبرو بلایا اور ممانعت کی کہ اگر تم سکھ ہوئے ہو اور غارت پر کمر باندھ لی ہے تو اپنے ہمسائے کو مت لوٹو، دور دور کے علاقوں میں تمہارا اختیار ہے۔ پھر تو گلاب سنگھ (گلابا کھتری سکھ ہونے کے بعد سے اب گلاب سنگھ تھا) نے دور دور کے ملکوں میں گردش و غارت شروع کی اور پانچ چار برس میں اچھی خاصی جمعیت بہم پہنچا ئی۔ جب مر گیا تو کوئی صلبی بیٹا اس کا موجود نہ تھا اس واسطے اس کے مصاحبوں میں سے ایک شخص تارا سنگھ نام ، جس کا خطاب غیبہ تھا جانشین ہوا۔ یہ شخص اول موضع بوڑا ڈلی کا گڈریا یعنی مال مویشی چرانے والا تھا۔اور گزارہ اس کا باپ دادا سے اسی پر تھا۔یہ تمام گاؤں کے مویشی دن بھر جنگل میں چراتا اور زمینداروں سے اس کے عوض میں غلہ لے کر گزر اوقات کرتا تھا۔جب گلابا (یا گلاب سنگھ) نے غارت گری شروع کی تو یہ اپنا کام چھوڑ کر اس کے ساتھ شامل ہو گیا اور خوب وسعت بہم پہنچا کر امیر بن گیا۔گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد یہ اپنی ہوشیاری و جواں مردی کے سبب سے اس مثل کا سردار بن گیا۔چونکہ غیبہ نہ زبانِ پنجابی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو بے سمجھے بوجھے باتیں منہ سے نکالے اور ہر وقت بک بک کرتا رہے۔اس سردار کو بھی اس صفت سے موصوف دیکھ کر اس کا خطاب غیبہ مقرر کر دیا گیا تھا۔یہ خطاب اس کا ایام مفلسی سے مقرر تھا۔پہلے اس کے گھر کی بکریوں کا گلہ بقدر ایک سو بکری کے تھا اور گاؤں کا مال علاوہ اس کی تحویل میں رہتا تھا۔گلاب سنگھ کے کہنے سے اس نے بکریاں فروخت کر ڈالیں اور ایک رہوار گھوڑا خرید ا اور پاہل لے کر سکھ بن گیا۔

جب سرداران بھنگی نے قصور پر یورش کی اور حسین خاں قصور کا حاکم مارا گیا اور قصور غارت ہوا تو یہ بھی مع گلاب سنگھ کے ان کے ہمراہ تھا ۔اس کوقصور کی غارت سے بڑا مال حاصل ہوا ۔ یہاں تک کہ علاوہ مال نقد کے چار لاکھ روپے کا تو زیور اس کو ملا۔اس واسطے اس نے اپنی مثل علیحدہ قائم کر لی اور اپنے خویش و اقرباء اس نے سب سکھ بنا کر اپنے ساتھ شامل کر لئے بلکہ گوہر داس چودھری موضع گنگ کو، جو ایک موضع مغربی کنارے دریائے ستلج کے واقع ہے۔اپنے ساتھ ملا کر سکھ بنا لیا۔

جب گوہر داس سکھ بن کر گوہر سنگھ ہوا تو اس کے ساتھ اس کا تمام گاؤں بھی سکھ ہو گیا اور سب نے تارا سنگھ کی رفاقت پر کمر باندھ لی۔اور تارا سنگھ کی مثل میں دس ہزار سوار جرار ہو گیا۔جب سکھوں نے باہم اتفاق کر کے سرہند کو لوٹا اور ایسے بڑے شہر کو جو بعد میں بربادی بندہ بیراگی کے دوبارہ آباد ہو گیا تھا ، بیخ سے اکھاڑ دیا تو وہاں بھی اس نے بڑا خزانہ پایا جب وہاں سے لوٹ کر آیا تو بہت علاقے فتح آباد وغیرہ پر قابض و متصرف ہو گیا۔ پھر تو حاکم با استقلال و فرمان فرمائے خود مختار بن گیا ۔ مدت تک حکومت کرتا رہا ۔سات ہزار سوار اس اور ملازم رکھے ۔آخر جب نیر اقبال رنجیت سنگھ کا چمکا اور ترقی پہ ترقی نصیب ہوئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سدار فتح سنگھ آلو والیہ کے نام حکم جاری کیا کہ تارا سنگھ غیبہ کو مغلوب کر کے اس کا ملک شامل ممالک محروسہ کے کرے۔

چنانچہ سردار فتح سنگھ نے اپنی فوج اور مہاراجہ سنجیت سنگھ کی فوج کے ساتھ اس پر یورش کی ۔ اگرچہ اس وقت ، اس کے پاس بھی بہت فوج تھی مگر ڈر گیا اور مقابلے سے بھاگ گیا۔کل علاقہ اس کا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قلم رو میں داخل ہوا ۔ چند ماہ بعد وہ تو اسی غم و غصہ میں مر گیا اور اس کے دو بیٹے ، سندھا سنگھ و چندا سنگھ ، مہاراجہ رنجیت سنگھ بہادر کی خدمت میں حاضر آئے ۔مہاراجہ نے بہ نظر پرورش چند گاؤں ان کے گزارے کے لئے مقرر کر دیئے مگر چند ماہ کے بعد بابا بکرم سنگھ بیدی نے دو گاؤں ان کی جاگیری کے بھی ضبط کر لئے ۔ اور مہاراجہ نے بہ خاطر داری بابا بکرم سنگھ کے خاموشی اختیار کی اور اس مثل کی دولت مندی بہ اختتام پہنچی ۔
 
ساتویں مثل نشان والے سکھوں کی
اس مثل کے بانی مبانی دو کس مسمیان سنگت سنگھ اورمہر سنگھ قوم جاٹ تھے جنہوں نے آں روئے دریائے ستلج کے علاقے میں قتل و غارت کا بازار گرم کر کے وسعت و دولت بہم پہنچائی ۔ دس ہزار سوار کا مجمع اس مثل میں تھا۔اور بہت دور دور تک وہ ڈاکہ زنی کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ وہ شہر میرٹھ پر جا پڑے اور بڑی دولت لوٹ کر لائے ۔شہر انبالہ ان کا دار الحکومت تھا۔چونکہ وہ اپنی مثل میں ایک اونچا نشان موجود رکھتے تھے اس واسطے تمام سکھ ان کو نشان والا کہتے تھے ۔ان دونوں میں پہلے سنگت سنگھ مر گیا۔اور کل ریاست مہر سنگھ کے قبضے میں رہی پھر وہ بھی لاولد مر گیا۔ چونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دائرہ دولت بھی اس وقت دریائے ستلج کے پار تھا ۔اور مہاراجگان و رئیسان سس ستلج سے نذرانے وصول ہو رہے تھے ۔ رئیس انبالہ کی وفات کی خبر سن کر مہاراجہ نے دیوان محکم چند کو مامور کیا کہ فی الفور مع اپنی فوج کے انبالہ جا کر اپنا قبضہ کرلے ۔ جب دیوان محکم چند کا لشکر انبالہ پہنچا ، خفیف مقابلے کے بعد اس مثل کے سوار متفرق ہو گئے ۔اور بڑا بھاری خزانہ و اسباب برسوں کا جمع کیا ہوا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے قبضے میں آیا۔بعد ازاں جب فیمابین سرکار انگریزی اور سرکار مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حدود کا فیصلہ ہو کر دریائے ستلج حد قائم ہو گئی اور مہاراجہ کا اختیار ستلج پار کے علاقوں سے جاتا رہا تو انبالہ و غیرہ علاقہ مقبوضہ اس مثل کا سرکار انگریزی نے لے لیا اور نشان والی مثل کا کچھ نشان باقی نہ رہا۔
 
Top