پروف ریڈنگ۔۔بار اولّ۔۔صفحات 38 تا 69

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 38 - 39

ہوا تھا! صفدر نے سوٹ کیس کو پہچاننے میں غلطی نہیں کی تھی۔ مگر مچھ کی کھال کا سیاہ سوٹ کیس!

صفدر نے عمران کی توجہ بھی اس کی طرف مبذول کرائی۔

"تمہیں یقین ہے کہ یہ وہی سوٹ کیس ہے ؟" عمران نے پوچھا۔

"مجھے یقین ہے! میری آنکھیں بہت کم دھوکہ کھاتی ہیں!"

"تب پھر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ آدمی اس وقت سے باہر نکلا ہی نہیں۔" عمران نے تشویش کن لہجہ میں کہا۔

صفدر کچھ نہ بولا! عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا! " یہ آدمی بھی خطرے میں ہے!"

"کیوں۔۔۔؟"

"بھلا وہ آدمی جہاز کی سیڑھیوں سے گر کر کیوں مر گیا تھا ؟ اور یہ سوٹ کیس تھانے کیوں نہیں پہنچا ؟ قاعدے سے مرنے والے کی ایک ایک چیز پر فی الحال پولیس کا قبضہ ہونا چاہیے تھا!"

"ہاں یہ تو ہے۔!"

"ہو سکتا ہے کہ اسی سوٹ کیس کی وجہ سے اس کی جان گئی ہو!"

"ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے عمران صاحب لیکن آخر یہ چکر کیا ہے؟"

"تم نے پھر وہی سوال کیا؟ حالانکہ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں بھی تمہاری ہی طرح اندھیرے میں ہوں۔ بس جتنا کہا جا رہا ہے اُسی کے مطابق کسی مشین کی طرح عمران بھی چل پڑا ہے!"

صفدر خاموش ہو گیا لیکن اس کا عمران کے بیان سے اطمینان نہیں ہوا تھا۔

"اس پر نظر رکھو۔" عمران نے کہا۔

"لیکن جیسے وہ ختم ہو گیا تھا اُسی طرح یہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔"

"ضروری نہیں ہے۔ یہ کافی محتاط معلوم ہوتا ہے۔ تم شاید یہ سمجھتے ہو کہ اس وقت تمہارے ہی خیال دلانے سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا ہے۔"

"پھر ۔۔۔؟"

"میں اُسے دیر سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ ویٹروں کی لائی ہوئی چیزیں پہلے انہیں ہی چکھا دیتا ہے۔ پھر خود کھاتا پیتا ہے۔ چونکہ یہ بڑے آدمیوں کا کلب ہے، اس لئے ویٹر کو ایسی حرکات پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ وجہ یہی ہے کہ ان کی دانست میں یہاں اُس سے بھی زیادہ وہمی اور سنکی آدمی آتے ہیں!"

"تو کیا آپ اس کا سوٹ کیس ہتھیانے کی فکر میں ہیں؟"

"مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے۔!" عمران بائیں آنکھ دبا کر مسکرایا۔

"مطلب یہ کہ ابھی تم لال ٹائی والے کے اصل ٹھکانے تک نہیں پہنچے۔ میرا خیال ہے کہ وہ کسی قسم کا خطرہ ہی محسوس کر کے یہاں آ جما تھا۔ اور اب بھی یہیں موجود ہے۔۔۔ ائیر پورٹ سے یہاں تک وہ کیسے آیا تھا؟"

"ٹیکسی میں۔"

"ہوں۔۔۔! تمہیں اب پھر اس کا تعاقب کرنا ہے۔ لیکن تعاقب کرنے سے پہلے اپنی مونچھیں نکال دینا۔ تا کہ رانا تہور علی کے سیکرٹری
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 40 – 41

کی حیثیت ختم ہو جائے!"

"پتہ نہیں کیا چکر ہے؟" صفدر بڑبڑایا۔

"ایک بات ذہن نشین کر لو۔۔۔ اگر اس بہری لڑکی کو یہ معلوم ہو گیا کہ کل رات دلکشا میں ہم ہی دونوں تھے تو ہماری کھوپڑیوں میں یہیں سوراخ ہو جائیں گے!"

"اوہ ۔۔۔ !" صفدر سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر رہ گیا۔ چند لمحے پلکیں جھپکاتا رہا پھر بولا !" تب جوزف سے یہ چھیڑ چھاڑ؟"

"اتفاقیہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بڑی دلچسپ جگہ ہے۔ صفدر صاحب! رانا تہور علی صاحب صندوقی یہاں اکثر آتا رہتا ہے۔"

"مگر ملازمین کے انداز سے تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ آپ کو پہچانتے ہوں۔"

"یہاں ملازمین بدلتے رہتے ہیں۔ باہر جتنے موجود تھے اُن میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پہچانتا تھا لیکن یہاں اندر تو میرے خاص آدمی بھی موجود ہیں۔ ورنہ میں سنگترے کا شربت نہ پی رہا ہوتا۔ حالانکہ بوتلوں میں پرتگالی شرابوں کے لیبل موجود ہیں۔"

صفدر نے ایک طوریل سانس لی! اور اب یہ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ عمران ضرورتاً بھی نہیں پی سکتا۔!

"مگر یہاں آپ کا کیا کام؟"

"ملک و قوم کے دشمن جھونپڑیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانوں میں نہیں ملتے۔!"

صفدر پھر خاموش ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد بولا۔ " اگر جوزف والا واقعہ اتفاقیہ نہ ہوا تو؟"

"دیکھا جائے گا۔!" عمران نے لاپرواہی کے اظہار میں شانوں کو جنبش دی۔ "رانا تہور علی صندوقی چوہے دان میں نہیں مر سکتا! ویسے یہ جگہ ایسی ہی ہے۔ پچھلے دنوں یہاں ایک بڑا شاندار واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک ڈاڑھی والے نواب صاحب تشریف رکھتے تھے۔ ایک بڑی شریر قسم کی لڑکی ناچ رہی تھی۔ نواب صاحب کے قریب پہنچ کر اس نے گانا شروع کر دیا۔ افریقہ کے کسی جنگلی گیت کا انگریزی ترجمہ تھا۔ اچانک گاتے گاتے اس نے نواب صاحب کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ اس وقت وہ گا رہی تھی کہ جھاڑیاں ہوا سے ہلتی ہیں۔۔۔ یہ منظر اس نے داڑھی ہلا کر دکھایا۔ نواب صاحب بدک کر اُچھلے اور لڑکی کی پشت پر ایک دھپ رسید کر دی! میں سمجھا تھا شاید اس پر ہنگامہ برپا ہو جائے گا! مگر لوگ ہنسنے لگے تھے۔ پھر یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ نواب صاحب اپنی چھڑی سنبھالے سارے ہال میں اس کے پیچھے دوڑتے پھرتے رہے۔ لڑکی دوڑ رہی تھی آرکسٹرا بج رہا تھا اور لڑکی کا گیت بھی جاری تھا۔ اب وہ گا رہی تھی کہ ایک لکڑ بگھا میرا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔ جھاڑیاں ہوا سے نہیں ہل رہی تھیں بلکہ ان میں لکڑ بگھا چھپا ہوا تھا۔ مجھے بچاؤ۔۔۔ نواب صاحب بوڑھے تھے اور لڑکی بیحد پھرتیلی تھی۔ وہ ہر بار ان کی چھڑی کی زد سے نکل جاتی تھی۔ اس کا جنگلی گیت بھی جاری تھا اور لوگ بے تحاشہ ہنس رہے تھے۔ آخر نواب صاحب اسی طرح دوڑتے ہوئے ایک بار ہال سے باہر ہی نکل گئے۔۔۔! اگر وہ زیادہ اچھل کود مچاتے
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 42 – 43

تو شاید اٹھا کر باہر پھینک دیئے جاتے۔ یہاں کی تفریح یہی ہے۔! اس وقت جوزف بھی ان کی تفریح کا باعث بن گیا ہوتا۔ لیکن میں نے اُسے قابو رکھا۔!"

"خاصی دلچسپ جگہ ہے ۔۔۔ اب جب بھی تشریف لائیے رانا صاحب اس خادم سیکرٹری کو نہ بھولیئے۔" صفدر نے مسکرا کر کہا ۔۔۔ پھر یک بیک سنجیدہ نظر آنے لگا۔ وہ کنکھیوں سے سُرخ ٹائی والے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے عمران کی طرف دیکھا جو سُرخ ٹائی والے کے پاس دو فوجی آفیسروں کو کھڑا دیکھ کر ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگا۔ ایک فوجی نے سوٹ کیس اٹھایا اور دوسرا سُرخ ٹائی والے سے کچھ کہنے لگا۔

"اٹھوں؟" صفدر نے عمران سے پوچھا۔

"نہیں پیارے !" وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ " ٹھنڈک۔! مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔!"

"کیا مطلب؟"

"کچھ نہیں۔۔۔ ! تم شیری پیو گے یا شیرا؟ یہاں شاید بکری اور بکرا بھی مل جائیں۔ چلو فکر نہیں اگر ایک طرف سے ٹھنڈک نصیب ہوئی ہے تو دوسری طرف سے یقیناً ۔۔۔ یقیناً ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ وہ پھر آ رہی ہے۔!"

صفدر مڑا۔ لڑکی تھرکتی ہوئی پھر اُدھر ہی آ رہی تھی۔

"باس۔۔۔! میں پاگل ہو جاؤں گا۔۔۔!" جوزف غرایا۔

"نہیں ۔۔۔ تم اٹھ کر کام شروع کر دو۔۔۔ پانچ سو ڈنڈ اور ایک ہزار بیٹھکیں۔!"

"نہیں ۔۔۔ باس ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ مجھے بخار چڑھ آیا ہے۔!"

بہری لڑکی پھر جوزف کی میز کے قریب رُک کر تھرکنے لگی!

"اے ۔۔۔ !" دفعتاً عمران غرایا۔ " تم ہماری توہین کر رہی ہو۔ ہماری موجودگی میں ہمارے ملازمین سے دل لگاتی ہو۔ آنکھیں لڑاتی ہو۔ ہماری ریاست میں ہوتیں تو ہم تمہیں بتاتے۔!"

دفعتاً لڑکی اس کی طرف مڑی اور گانے لگی!

"تم خزاں کے ببول ہو اور وہ آبنوس کا ہرا بھرا درخت ہے۔
تم ایک خارش زدہ مُرغ ہو اور وہ چمکدار پہاڑی کوا ہے!
تم جھلسا دینے والی دوپہر ہو۔
اور وہ ایک ٹھنڈی اندھیری رات ہے۔!"
پھر بتاؤ میں تمہیں کیسے چاہوں!"

یک بیک عمران بھی اٹھ کر انگریزی میں حلق پھاڑنے لگا۔ اُس کے انداز سے ایسا ہی معلوم ہو رہا تھا جیسے بہت زیادہ نشہ ہو گیا۔ وہ گا رہا تھا۔

"تم میٹھے پانی کی ایک سُبک رو ندی ہو۔
اور میں ایک پیاسا ارنا بھینسا ہوں۔
ایک یتیم اور لاوارث بچھڑا۔
جس کی ماں دکھن کی طرف چلی گئی ہو اور باپ اُتر کی طرف۔ چرتے چرتے دونوں نہ جانے کہاں جا نکلے ہوں۔
کیا تم مجھے ایک گھونٹ بھی نہ دو گی۔"
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 44 – 45

تم میری ماں ہو۔
میں تمہارا باپ ہوں۔"

قہقہوں سے چھت اڑی جا رہی تھی۔ لڑکی بھی ہنس رہی تھی۔ جوزف بھی ہنس رہا تھا۔ لڑکی اب بھی تھرکے جا رہی تھی۔ اور آرکسٹرا کان پھاڑ رہا تھا۔

عمران بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر سچ مچ یتیمی برسنے لگی تھی۔

اب صفدر کو سُرخ ٹائی والے کا ہوش آیا۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹکا ہوا سگار پی رہا تھا۔ سوٹ کیس اور دونوں فوجی غائب تھے۔

"کیا تم نہیں پیو گے؟" دفعتاً لڑکی نے جوزف سے پوچھا۔

"ماہ ۔۔۔!" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں دھاڑا۔

"تم پر پھٹکار۔۔۔ خدا کرے تم بھی جلدی سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں پہنچ جاؤ کالے سانپ بن کر۔!" اس نے کہا۔ بوتل اور گلاس سمیٹے اور تھرکتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔"

جوزف کانپ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے جاڑا دے کر بخار آ گیا ہو۔ چہرہ سُت گیا تھا اور آنکھیں خوفزدہ تھیں۔ وہ اٹھ کر اُسی طرح کانپتا ہوا عمران کی میز کے قریب آیا۔

"بھاگ چلو گورنر۔۔۔!" اس نے کانپتی ہوئی اور خوفزدہ آواز میں کہا۔ "وہ کوئی بُری روح ہے۔ کیا تم نے نہیں سُنا کہ اس نے مجھے بد دعا دی تھی۔۔۔ میرے مالک۔۔۔ سرکنڈوں کی جھاڑیاں۔۔۔"

"کیا بکواس ہے؟"

"سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں ان کی روحیں سانپ بن کر رہتی ہیں جن کی مشمبا مشامبا ہڈیاں چبا جاتا ہے۔!"

"کیا تمہیں شراب کی بُو سے بھی نشہ ہو جاتا ہے؟" عمران نے متحیرانہ انداز میں کہا۔

"نہیں باس اس نے بد دعا دی ہے۔ میرے مالک آج بُدھ کی رات ہے۔۔۔ ارے باپ رے۔۔۔ " جوزف اور تیزی سے کانپنے لگا۔

"بیٹھو۔۔۔!" عمران اس کی میز کی طرف اشارہ کر کے غرایا۔

"رحم ۔۔۔ رحم میرے ۔۔۔۔ آج بدھ کی رات ہے۔۔۔ مشمبا مشامبا۔!"

"ہمارے ملک میں مشمبا مشامبا نہیں چلے گی۔ کیونکہ یہاں ہر وقت اس کا سینہ ہوائی جہاز چیرتے رہتے ہیں۔ بیٹھو۔۔۔ اس طرح نہ کانپو ورنہ بدہضمی ہو جائے گی۔"

"ہیضہ بھی ہو سکتا ہے، گورنر۔" جوزف ہانپتا ہوا بولا۔ "مشمبا مشامبا۔"

"کیا میں اٹھوں اور یہیں شروع کر دوں؟" عمران نے اُسے دھمکی دی اور جوزف اسی طرح کانپتا ہوا اپنی میز کی طرف مڑ گیا۔

"یہ مشمبا مشامبا کیا بلا ہے!؟" صفدر نے عمران سے پوچھا۔

"دریائے کانگو کے کنارے بسنے والوں کا دیوتا۔!" عمران بولا۔

"تم اسے طوفان کا دیوتا بھی کہہ سکتے ہو۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ اس دیوتا کی نذر ہوتے ہیں۔ ان کی روحیں سرکنڈوں کی جھاڑیوں
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 46 - 47

میں سانپ بن کر رہتی ہیں۔!"

" ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کا دم ہی نکل جائے گا۔" صفدر جوزف کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ " پتہ نہیں یہ جانور کہاں سے آپ کے ہاتھ لگا۔"

"بیحد ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ شیروں سے لڑ جائیں گے، مگر مشمبا مشامبا جیسے توہمات سے ان کا دم نکلتا رہے گا۔"

تھوڑی دیر تک خاموشی ہی رہی۔ پھر صفدر نے کہا۔ " اب ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ اب تو سوٹ کیس بھی نکل گیا۔!"

"اب ہم یہ سوچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ لڑکی واقعی بہت حسین ہے۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

" خدا رحم کرے اس کے حال پر۔!"

اتنے میں صفدر نے دیکھا کہ سُرخ ٹائی والا بھی اٹھ کر جا رہا ہے۔

" وہ جا رہا ہے!" اس نے آہستہ سے کہا۔

"جانے دو۔!" عمران کے لہجے میں لاپروائی تھی۔

صفدر بیک وقت بہت سے سوالات اس کے سامنے رکھنا چاہتا تھا مگر یہ سوچ کر خاموش رہ جاتا تھا کہ جوابات اوٹ پٹانگ ہی ہونگے لہٰذا اپنا مغز چٹوانے سے کیا فائدہ۔

"ہم شاید یہاں رات گزارنے کے لئے آئے ہیں۔!" صفدر نے تھوڑی دیر بعد کہا۔

"اٹھو یار۔۔۔!" عمران جھنجلا کر بولا۔" ایسا سیکرٹری نہیں چلے گا۔"

وہ اٹھا اور پھر بیٹھ گیا۔ کیونکہ ابھی اسے بل کی قیمت ادا کرنی تھی۔

اسے اٹھتے دیکھ کر وہی ویٹر اُن کی طرف جھپٹا تھا جس نے شراب کی کشتی لگائی تھی۔

بل ادا کر کے عمران اٹھ گیا اور صفدر نے جوزف کے چہرے پر اطمینان کی لہریں دیکھیں۔ وہ باہر آئے۔ ڈرائیور نے ان کے لئے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور دونوں اندر بیٹھ گئے!۔ جوزف ڈرائیور کے برابر جا بیٹھا اور کار چل پڑی۔

"کیوں زین خاں۔!" عمران نے ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ " کیا باہر ملٹری کا ٹرک آیا تھا۔"

"جی ہاں۔!"

"کتنے آدمی رہے ہوں گے اس پر؟"

"دس بارہ جناب۔!"

"سب مسلح تھے؟"

"جناب۔!"

پھر سکوت طاری ہو گیا۔

کار چلتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد یکایک جوزف ہوائی فائر کرنے لگا۔

"ارے۔۔۔ ارے یہ کیا ہو رہا ہے؟" عمران بوکھلا کر بولا۔

"میں اپنا خوف دور کر رہا ہوں۔۔۔!" جوزف نے سادگی سے جواب دیا۔

"او ۔۔۔ ہاتھی کے پٹھے دونوں ریوالور مجھے دے دو ورنہ ہم سب گاڑی سمیت بند کر دیئے جائیں گے۔!"
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 48 – 49

سڑک سنسان تھی ورنہ سچ مچ وہ کسی پریشانی میں پڑ جاتے۔

"تیزی سے نکل چلو زین خاں۔!" عمران نے کہا۔

"بہتر جناب۔!"

تھوڑی دیر بعد صفدر بولا۔ " عمران صاحب ہمارا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ کوئی گاڑی پیچھے ہے۔!"

"میں جانتا ہوں۔!"

"پولیس؟"
"توقعات کم ہیں۔!"

"پھر کون ہو سکتا ہے؟"

"انہیں مستقل ممبروں میں سے کوئی ہو گا۔ جنہوں نے آج سنجیدہ ترین رانا تہور علی صندوقی کو نشے میں گاتے دیکھا تھا۔!"

"نگانہ نے بھی ایک بار مجھے ایسی ہی بد دیا دی تھی باس۔!" جوزف نے ان کی طرف مڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ صفدر بڑی شدت سے بوریت محسوس کرنے لگا۔

"نگانہ کون تھی جوزف؟" عمران نے پوچھا۔

"آہ ۔۔۔ وہ قبیلے کی چاندنی تھی باس۔ مجھے چاہتی تھی لیکن مجھے پالا داروں سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ آخر وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔۔۔ اور جل کر اس نے مجھے یہی بد دعا دی تھی۔ جو اس وقت اس سفید چڑیل۔!"

"میں بھی بہت جلد ایک پالا دار کرنے والا ہوں۔!" عمران نے کہا۔

"اوہ ۔۔۔ کرو بھی باس!"

"پالا دار کیا؟" صفدر نے پوچھا۔

"ان کی زبان میں جنگی مشاورت۔!" عمران نے جواب دیا۔

کار نیو کالونی میں مڑ رہی تھی۔ صفدر نے ایک بار پھر پلٹ کر دیکھا کسی گاڑی کے ہیڈ لیمپ نظر آ رہے تھے۔ اس کے علاوہ پوری سڑک سنسان پڑی تھی۔

پھر کچھ دیر بعد بیوک رانا پیلس کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی۔

کار سے اترتے وقت صفدر نے ایک لمبی سی گاڑی دیکھی جو پھاٹک کے پاس سے گزر رہی تھی۔

"میرا خیال ہے کہ یہی ہمارے پیچھے تھی۔!" صفدر نے کہا۔

"رہی ہو گی۔!" عمران کے لہجہ میں لاپرواہی تھی۔

یک بیک جوزف چونک کر اچھل پڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں چیخا۔

"سانپ۔!"

"کیوں دماغ خراب ہو رہا ہے۔۔۔ کیا میں تمہارا سارا خوف جھاڑ دوں؟" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"آہ ۔۔۔ بُری روحیں میرے گرد منڈلانے لگی ہیں باس۔!" اس کا لہجہ خوفزدہ اور درد ناک تھا۔

"اندر چلو۔!" عمران نے اس کی گردن دبوچ کر دھکا دیا۔ پھر صفدر سے بولا۔"آج ہم یہیں رات بسر کریں گے۔!"
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 50 – 51

معاملہ اسی رات پر نہیں ٹل گیا تھا۔ صفدر کو دو راتیں رانا پیلس میں گزارنی پڑیں۔ وہاں کے ملازمین اس طرح عمران کا ادب کرتے تھے جیسے وہ سچ مچ رانا تہور علی صُندوقی ہو اور ہمیشہ یہیں رہتا ہو۔ جوزف بھی ساتھ ہی تھا۔ اُسے ڈنڈ پیلتے اور کراہتے دیکھ کر صفدر بے تحاشہ قہقہے لگاتا اور عمران کی حماقت پر سر پیٹ لینے کو دل چاہتا۔ آخر جوزف جیسے ناکارہ آدمی کو رکھنے ہی کی کیا ضرورت تھی۔ اس رات اگر واقعی سڑک سنسان نہ ہوتی تو فائروں کی آوازیں انہیں حوالات تک تو پہنچا ہی دیتیں۔

عمران تین دن سے نہ خود اپنے فلیٹ میں واپس آیا تھا۔ اور نہ صفدر ہی کو آفس جانے دیا تھا۔ یا تو وہ دونوں مختلف تفریح گاہوں میں چکر لگاتے رہتے یا ان کا وقت رانا پیلس ہی میں گزرتا۔

پچھلی رات وہ بڑے آدمیوں کے نائٹ کلب میں بھی گئے تھے لیکن صفدر کو وہاں بہری رقاصہ نہیں نظر آئی تھی۔ اس کی جگہ ایک اسپینی عورت تھرک رہی تھی۔ جوزف بھی ساتھ تھا لیکن دوسری رقاصہ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں سے خوف غائب ہو گیا تھا۔ وہ خوش نظر آنے لگا تھا۔ چہکنے لگا تھا اور واپسی پر اُس نے عمران سے ایک بوتل کی فرمائش کی تھی۔

وہ کلب سے واپس آ گئے تھے اور اب تک کوئی خاص بات ظہور میں نہ آئی تھی۔ اس وقت ناشتے کی میز سے اٹھے تھے اور برآمدے میں بیٹھے اونگھ رہے تھے صفدر کی تو یہی کیفیت تھی۔ عمران کا جو حال رہا ہو۔ پچھلی رات وہ تقریباً ڈھائی بجے کلب سے واپس آئے تھے۔ اور پھر صبح انہیں جلد ہی اٹھ جانا پڑا تھا۔

ٹھیک چھ بجے وہاں زور دار آواز والا گھنٹہ بجتا تھا اور اس کی آواز اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک ایک ایک فرد بیدار نہیں ہو جاتا تھا۔ صفدر نے اس حماقت کی وجہ پوچھی تھی اور عمران نے اسے بتایا تھا کہ رانا تہور علی صندوقی کی بیداری کا یہی وقت ہے خواہ ایک ہی گھنٹہ پہلے سویا ہو۔

صفدر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنے سے بور ہو رہا تھا دفتر میں کم از کم بزنس کے کاغذات ہی سامنے ہوتے تھے اور اس کا ذہن الجھا رہتا تھا یہاں تو بس بیکاری میں اس بہری لڑکی کا تصور اس کے ذہن پر اس بُری طرح مسلط ہو کر رہ گیا تھا کہ اسے بعض اوقات خود پر غصہ آنے لگتا تھا۔

وہ بے حد حسین تھی۔ بڑی دلکش تھی۔ اور اس کے تھرکنے کا انداز
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 52 – 53

ایسا تھا کہ تصور ہی سے دل میں گدگدیاں ہونے لگتی تھیں۔
صفدر اس کے خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرنے لگا۔

یک بیک اسے ایک شکستہ حال لڑکا نظر آیا جو پھاٹک سے گزر کر پورچ کی طرف آ رہا تھا۔ اس وقت پھاٹک پر چوکیدار نہیں تھا۔ لڑکا ابھی آدھے راستے میں تھا کہ ایک ملازم نے اسے للکارا۔

"آنے دو۔!" عمران نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

لڑکا قریب آ گیا! لیکن پھر وہ برآمدے کی سیڑھیوں ہی پر رک گیا۔

"کیا بات ہے؟ آؤ۔!" عمران نے نرم لہجے میں کہا۔

لڑکا اوپر آ گیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ " یہاں کوئی جوزف صاحب ہیں۔ ان کے نام میرے پاس ایک خط ہے۔!"

"لاؤ۔!"

عمران نے ہاتھ بڑھا دیا! لڑکے نے اپنے پھٹے ہوئے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکالا۔

صفدر اُسے کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔ لفافہ نیلے رنگ کا تھا اور اس پر سیاہ روشنائی سے مسٹر جوزف تحریر تھا۔

"کس نے دیا ہے؟" عمران نے پوچھا۔

"ایک میم صاحب تھیں۔!" لڑکے نے جواب دیا۔ "انہوں نے مجھے ایک اٹھنی دی تھی۔ جی ہاں۔!"

"کہاں ملی تھی؟"

"تیرھویں سڑک پر انہوں نے آپ کا پتہ بتایا تھا۔!"

عمران نے بھی جیب سے اٹھنی نکال کر اسے دی۔
پھر لڑکے کے چلے جانے پر اس نے جوزف کو طلب کیا۔
"یہ تمہارا خط ہے۔!"

"میرا خط باس؟" جوزف نے حیرت سے کہا۔

"ہاں ۔۔۔ کیا تمہیں پڑھنا آتا ہے؟"

"تھوڑا بہت۔! مگر مجھے یہاں کون خط لکھے گا؟ میں تو کسی کو بھی نہیں جانتا۔!"

"اسے کھول کر پڑھو۔!"

جوزف نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ چاک کر کے خط نکالا۔ لیکن تحریر پر نظر ڈالتے ہی اس کا چہرہ ادھ کچی جامنوں کا سا نکل آیا۔ یہ کیفیت انتہائی غصے کے عالم میں ہوتی تھی۔ صفدر اُسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ دفعتاً اس نے اس کے چہرے پر پھر ہوائیاں اُڑتی دیکھیں۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے خط عمران کی طرف بڑھا دیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"دیکھو باس۔!"

عمران نے تحریر پر نظر ڈالی اور صفدر کی طرف بڑھاتا ہوا مردہ سی آواز میں بولا۔

"میں تو سمجھتا تھا کہ وہ رانا تہور علی صندوقی کو پسند کرے گی۔"

تحریر تھی۔

پیارے چمکدار کوے!

میں تمہیں کس طرح یقین دلاؤں کہ میں تمہیں بے حد چاہتی ہوں۔
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ: 54-55

کلب میں تم خواہ مخواہ مجھ سے خفا ہو گئے تھے اور میں نے جل کر تمہیں بد دعا دی تھی۔ اسے یاد رکھو کہ اگر تم نے میری محبت کا جواب محبت سے نہ دیا تو میری بد دعا اپنی جگہ پر اٹل رہے گی۔ میرے دل کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اپنے چہرے کی سیاہی پر نہ جاؤ۔ مجھے کالی چیز بہت پسند ہے۔ کالے جوتے سے لے کر سیاہ فام جوزف تک۔ اگر آج شام کو تم گرین پارک میں مجھ سے نہ ملے تو تمہیں اس سے بھی زیادہ بری بد دعائیں دوں گی!۔

مثلاً سانپ اور چھچھوندر والی بد دعا۔۔۔ مرغ اور گیدڑ والی بد دعا۔۔۔ دودھ اور شکر قند والی بد دعا۔۔۔ اس لئے آج ضرور ملو۔۔۔ ورنہ میں تمہاری قبر پر بھی دوپہر کی چیل کی طرح منڈلاتی رہوں گی۔ اور تمہاری ماں تمہاری سوکھی کھوپڑی میں پانی پئے گی۔!

فقط

“کلب والی بد روح”

“یہ بکواس ہے۔!”

صفدر نے غصیلے لہجے میں کہا جسے اتفاق سے بہری لڑکی کے اس غلط انتخاب پر غصہ آ گیا تھا۔

“تم بڑے خوش قسمت ہو جوزف!” عمران نے شاہانہ انداز میں کہا۔ “ہم خوش ہیں۔!”

“میں مرا جا رہا ہوں باس۔!”

“اگر نہیں جاتا تو یہ بد دعائیں۔۔۔ میرے مالک۔!” وہ خاموش ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگا۔ صفدر کو ہنسی آگئی۔ لیکن عمران نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔

“کیوں تم جانے سے کیوں ڈر رہے ہو؟”

“اس نے لکھا ہے کہ میں تمہیں چاہتی ہوں۔!” جوزف نے اس طرح کانپتے ہوئے جواب دیا جیسے “چاہنا” بھی مار ڈالنے کی دھمکی ہو۔

“کاش وہ ہمیں چاہتی ہوتی جوزف۔!” عمران ٹھنڈی سانس لے کر دردناک آواز میں بولا۔

“تو پھر اس سے کہو باس کہ وہ تمہیں چاہنے لگے۔!” جوزف نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔

“اس سے ملو اور اسے اس بات پر آمادہ کرو کہ وہ مجھے چاہنے لگے۔!” عمران نے کہا۔

“میں اکیلے تو ہرگز نہ جاؤں گا۔!” جوزف گڑگڑایا۔

“نہ جاؤ گے تو تمہاری کھوپری میں گی گوڈا کے الو کی روح گھس جائے گی۔!”

“باس۔!” جوزف اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر چیخا۔

“مگر میں کوئی بری روح نہیں ہوں۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔!” عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ “کانوں سے انگلیاں نکالو۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ تمہیں آج اس سے ملنا پڑے گا۔! سمجھے۔۔۔! نہ ملے تو کل سے پانچ ہزار ڈنڈ اور پندرہ ہزار بیٹھکیں۔۔۔۔!”
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ: 56-57

“ارے مر گیا۔۔!” جوزف آنکھیں میچ کر کراہا۔

“تمہیں جانا پڑے گا۔!”

“میرے باپ نے کہا تھا۔!” جوزف گلوگیر آواز میں بولا۔ “عورت سے ہمیشہ دور رہنا ورنہ تمہاری کھال ہڈیوں سے لپٹ کر رہ جائے گی۔!”

“لیکن میں اسے ہڈیوں پر سے بھی اتار لوں گا۔!” عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ “بس جاؤ۔!”

جوزف بھرائی ہوئی آواز میں کچھ بڑبڑاتا اندر چلا گیا۔

“اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔!” صفدر بولا۔

“اندھیرے اور اجالے کی کہانی۔!” عمران مسکرایا۔ “بس دیکھتے جاؤ یہ حالات میری کھوپڑی کو بھی قلابازیاں کھلا رہے ہیں۔ اس لڑکی کا کلب میں پایا جانا ہی میرے لئے قطعی غیر متوقع تھا۔!”

“آپ کے لئے وہ غیر متوقع تھا اور میرے لئے یہ غیر متوقع ہے کہ دلکشا کی کوئی لڑکی پیشہ ور رقاصہ بھی ہو سکتی ہے۔!”

“دلکشا کے متعلق تمہاری معلومات سیکینڈ ہینڈ ہیں۔ تم چھ ماہ پہلے کی بات کر رہے ہو۔!”

“کیا مطلب؟”

“جن لڑکیوں کی بات تم کر رہے تھے وہ آج کل یہاں نہیں ہیں۔ پورا خاندان باہر ہے۔ اور دلکشا کرائے پر اٹھا دی گئی ہے۔ اور اب یہاں جو خاندان آباد ہےاس میں سب کسی نہ کسی قسم کے آرٹسٹ ہیں۔!”

“اوہ یہ بات ہے! تب تو کوئی بات بھی غیر متوقع نہیں ہے۔!”

“ایک اور بات الجھن پیدا کر رہی ہے۔!” عمران نے کہا۔

“وہ کیا؟”

“جب آلہ سماعت استعمال کرتی ہے تو اس نے اس رات میں ہمیں چیخنے پر کیوں مجبور کیا تھا؟”

“اوہ۔۔۔۔ اس کے بارے میں تو میں بھی کئی بار سوچ چکا ہوں۔!”

“کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔ آواز باہر نہیں جا سکتی تھی۔ مگر اب یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اسے ساؤنڈ پروف کب بنایا گیا تھا۔ وہ پہلے سے ہی ایسا تھا یا عمارت کے کرایہ پر اٹھ جانے کے بعد اسے ساؤنڈ پروف بنایا گیا تھا۔!”

“بیکار ہے عمران صاحب۔!” صفدر سر ہلا کر بولا۔ “اگر پورے حالات سے آگاہی ہو تو ان پر غور کر کے نتائج بھی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ورنہ۔۔۔۔ اس طرح۔!”

“پھر دیکھیں گے۔!” عمران نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “میں اس وقت صرف اونگھنے کے موڈ میں ہوں۔!”

“صرف ایک بات! جوزف کو آپ کیوں بھیج رہے ہیں؟ وہ نرا گاؤدی ہے اگر اس نے ہمارا راز ظاہر کر دیا تو۔۔!”

“اسے ہینڈل کرنا مجھے خوب آتا ہے۔۔۔۔ کام کی بات سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے گا۔!”
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ: 58-59

گرین پارک میں صفدر جوزف کا منتظر تھا۔ وہ اس سے ایک گھنٹہ پہلے وہاں پہنچا تھا۔ یہاں آنے سے پہلے عمران نے اس کے چہرے کی خاصی مرمت کی تھی اور اب وہ رانا تہور علی کا سیکریٹری نہیں معلوم ہوتا تھا۔

وہ شام کا اخبار کھولے ہوئے کبھی کسی بنچ پر جا بیٹھتا اور کبھی ہری بھری گھاس پر۔۔۔۔ چھ بجے جوزف نظر آیا جو سفید لباس میں دور ہی سے چمک رہا تھا۔

پھر تھوڑی ہی دیر بعد بہری لڑکی بھی دکھائی دی۔ صفدر اٹھ کر ٹہلنے لگا تاکہ ان سے قریب ہی رہ سکے۔ لڑکی تنہا تھی اور جوزف کی طرف تیر کی طرح آ رہی تھی۔

صفدر نے قریب سے جوزف کا حلیہ دیکھا۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔

لڑکی اس کے قریب پہنچ کر چہکی۔ “ہلو۔۔۔۔ گریٹ مین! میں تو سمجھی تھی کہ تم نہ آؤ گے۔ آؤ۔۔۔۔ ادھر بیٹھو۔!”

دونوں ایک خالی بنچ پر بیٹھ گئے۔ صفدر نے محسوس کیا کہ وہ آس پاس والوں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس نے بھی قریب ہی گھاس پر بیٹھ کر اخبار پھیلا دیا۔ وہ اس وقت خالی الذہنی کی بہترین ایکٹنگ کر رہا تھا۔ اس کی نظریں اخبار پر تھیں اور کان ان کی آوازوں کی طرف۔

“کیا تم مجھ سے خفا ہو؟” لڑکی نے جوزف سے پوچھا۔

“دیکھو مسّی۔!” جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “میں ایک سیدھا سادہ فائٹر ہوں۔ مجھے اس سے پہلے کبھی محبت کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ تم میرے باس سے کیوں محبت نہیں کر لیتیں؟”

“تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا!۔” لڑکی نے غصّیلے لہجے میں کہا “مجھے تم سے محبت ہے۔!”

“وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ مگر! میں۔!”

“تمہارا باس تمہیں کیا دیتا ہے؟”

“مہینے میں پینتالیس بوتلیں۔ کھانا۔۔۔ کپڑا۔۔۔ اور کیا چاہئے؟”

“میں تمہیں اس سے بہتر ملازمت دلوا سکتی ہوں۔ مہینے میں سو بوتلیں کھانا، کپڑا اور کچھ نقدی بھی۔!”

“میں تو صرف اس کی ملازمت کرتا ہوں جو مجھے فری اسٹائل سلنگ یا بوکسنگ میں شکست دے سکے۔!”

“اس نے تمہیں شکست دی تھی؟” لڑکی نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا۔

“یقیناً۔۔۔۔ اور مجھ جیسے دس آدمیوں کو بیک وقت شکست دے
 

زھرا علوی

محفلین
آتش دان کا بت صفحہ 60 - 61

سکتا ہے. وہ کسی ارنے بھینسے کی طرح ٹھوس اور مضبوط ہے۔!"

"تم بکواس کر رہے ہو۔!"

"یقین کرو مستی اس نے نیٹال میں مجھے شکست دی تھی۔!"

"نیٹال ۔۔۔ کیا وہ افریقہ ہو آیا ہے؟"

"ہر تیسرے سال جاتا ہے۔۔۔ بہت دولتمند آدمی ہے۔ رانا آف رنگم نگر۔!"

"ہو گا۔۔۔ دولت مند ۔۔۔ مگر ہے کنجوس۔ مہینے میں صرف پینتالیس بوتلیں۔۔۔ چھی چھی ۔۔۔ کیا ڈیڑھ بوتل یومیہ سے تمہارا کام چل جاتا ہے۔!"

" نہیں چلتا۔۔۔ مگر کیا کروں پھر۔۔۔ اگر کوئی مجھے شکست دے دے تب ہی میں اس کی ملازمت چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔ یہ میرا اصول ہے۔!"

"اگر وہ بیچاری کوئی عورت ہو تو تمہیں کیسے۔۔۔ شکست دے گی۔!"

جوزف کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ پھر اس نے بُرا سا منہ بنایا۔ "عورت کی نوکری ۔۔۔ تھو۔!" اس نے متنفر آمیز انداز میں زمین پر تھوک دیا۔

تم میری توہین کر رہے ہو چمکدار آدمی۔!"

" میں کسی کی توہین نہیں کر رہا۔۔۔ میں نے اپنے دل کی بات بتائی ہے۔!"

"تم عجیب آدمی ہو۔ نہ محبت کر سکتے ہو۔۔۔ اور نہ ملازم۔ بس پھر تم اسی لائق ہو کہ تمہاری ماں تمہاری کھوپڑی میں پانی پئیے۔!"

نہیں ۔۔۔ مسی ۔۔۔ نہیں۔ خدا کے لئے بد دعا نہ دو۔ مقدس باپ جوشوا نے مجھے تعلیم دی تھی کہ یہ سب توہمات ہیں ان کی پرواہ نہ کیا کرو مگر میں ڈرتا ہوں۔۔۔ تمہیں آسمانی باپ کی قسم اب ۔۔۔ ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالنا۔!"

"اگر تم اپنے موجودہ باس کو چھوڑ کر میرے پاس نہیں چلے آتے تو میری بد دعائیں تمہارا مقدر بن کر رہ جائیں گی۔!"

"میں کیا کروں ۔۔۔ میں کیا کروں؟" جوزف دونوں ہاتھوں سے اپنے ننھے ننھے گھونگریالے بال نوچنے لگا ہے۔

"چلو شاید تم پینے کی ضرورت محسوس کر رہے ہو۔ میں تمہیں پلاؤں گی!۔"

"نہیں مسی! میں صرف اپنے کمرے میں پیتا ہوں اور بہت زیادہ نشے کی حالت میں باہر نہیں نکلتا۔۔۔ میری بھی سُن لو۔ میں کہتا ہوں میرے باس سے محبت کرو۔ وہ بہت اچھا آدمی ہے۔ اس کا باپ بھی یقیاً اچھا آدمی رہا ہو گا۔!"

"اچھا جوزف تم پر شامبا۔!"

"مسی!" جوزف خوفزدہ آواز میں چیخا اور آس پاس کے لوگ چونک پڑے مگر لڑکی اس سے لاپرواہ معلوم ہو رہی تھی کہ ایک پبلک پارک میں ہے۔

"کچھ بھی ہو تمہیں میرے پاس آنا پڑے گا ورنہ میں تمہیں اسی طرح بد دعائیں دیتی رہوں گی۔!"

" نہیں ۔۔۔ مسی بد دعائیں نہیں۔!" وہ جلدی سے بولا۔ " میں
 

زھرا علوی

محفلین
تشدان کا بُت

صفحہ 62 - 63

سوچوں گا۔ سوچ کر جواب دوں گا۔!" جوزف بہت زیادہ نڈھال نظر آنے لگا۔



دوسرے دن عمران جوزف سے کہہ رہا تھا۔ " تمہیں اس کی ملازمت کرنی پڑے گی۔!"

"باس۔۔۔!" جوزف چیخا۔ " کوئی عورت مجھے حکم نہیں دے سکتی۔!"

"ابے تو کیا میں عورت ہوں؟"

"میں اس سفید چڑیل کی بات کر رہا ہوں۔!"

"خبردار وہ سفید گلہری ہے۔۔۔ اور کالے پہاڑ سے عشق کرتی ہے۔ جوزف تم بکواس بند، تم اسے یوں سمجھو کہ وہ میرے دشمنوں کی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ تم نوکر میرے ہی ہو لیکن کچھ دن اُس کے ساتھ کام کرو گے۔ تم سے وہ جو کام بھی لینا چاہے اس کی اطلاع مجھے دیتے رہنا۔۔۔ کیا سمجھے؟"

"اوہ تو یہ کیوں نہیں کہتے باس۔ میں ضرور جاؤں گا۔" جوزف خوش ہو کر بولا۔ " تمہارے دشمنوں کی کھوپڑیاں چباؤں گا۔!"

"لیکن اسے میرے بارے میں کچھ بھی نہ معلوم ہونے پائے۔!"

ہرگز نہیں باس۔ اندھیرے کے شکار میں مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔۔۔ میں ضرور جاؤں گا۔ اور آج ہی جاؤں گا۔!"

"کہاں جاؤ گے؟"

" وہ آج شام کو اپنا پتہ بجھوائے گی۔ اُس نے کہا تھا کہ اگر نوکری کا فیصلہ کرو تو اسی پتہ پر آ جانا۔!"

لیکن اس شام کو عمران نے ایک بار پھر صفدر کو چکر میں ڈال دیا۔ اس کے ہاتھ میں شام کا ایک اخبار تھا۔ اُس نے اسے ایک اشتہار دیکھایا جس کی سرخی تھی !

"چوہے مارئیے"

"کیا مطلب؟" صفدر نے متحیرانہ انداز میں پوچھا۔

"شتر مرغ مارنے کے لئے نہیں لکھا گیا۔!" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"ہاں میں سمجھتا ہوں کہ چوہے مارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔ جتنا شتر مرغ مارنا۔ لیکن آپ مجھے یہ اشتہار کیوں دکھا رہے ہیں؟"

یہ کسی دوا کا اشتہار تھا جسے آٹے کی گولیوں میں چوہے مارنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ عمران تھوڑی دیر تک صفدر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا۔ "یہ پیشہ بھی بُرا نہیں رہے گ۔! جب کہ اتنی سی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتی۔!"

"آپ کی کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔!"

"کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمارے روانگی کے وقت ۔۔۔ اس بہری قتالہء عالم نے چوہے کی فرمائش کی تھی۔"
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 64 – 65

"اوہ ۔۔۔ تو اس اشتہار کا اس سے کیا تعلق؟" صفدر کو عمران کا مینڈک یاد آ گیا۔

"یہ اشارہ ہے کہ ہمیں آج وہاں پہنچنا چاہیے۔ جس رات ہم گئے تھے اُسی شام کو اس اخبار میں مینڈکوں سے متعلق ایک مضمون شائع ہوا تھا ۔۔۔ وہ اشارہ تھا ۔۔۔ اور میں نے وہاں پہنچ کر اس دلا رام اور دل آرا کی خدمت میں مینڈک پیش کیا تھا۔ آج چوہے کی نذر گزاریں گے۔!"

صفدر کچھ نہ بولا۔ لیکن وہ اس مسئلے پر دیر تک غور کرتا رہ۔! عمران تو کبھی کا کمرے سے جا چکا تھ۔! پھر صفدر اسی کمرے میں تھا کہ دوبارہ آ کر اُسے جوزف کی روانگی کی اطلاع دی۔
"پتہ دلکشا ہی کا دیا ہے۔!" صفدر نے پوچھا۔

"ہاں ۔۔۔!"

"عمران صاحب۔ کہیں ہم ہی دھوکہ نہ کھا رہے ہوں؟" صفدر نے کہا۔

"کیسے۔۔۔؟"

"اُسے ہماری اصلیت کا علم ہو گیا ہو۔"

"یہ کس بنا پر کہہ رہے ہو؟"

"جوزف۔۔۔ آخر وہ جوزف کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے؟"

"یہی دیکھنا ہے۔"

"لیکن اگر ہم اس چوہے دان میں پھنس گئے تو ۔۔۔ مطلب یہ کہ اس ساؤنڈ پروف کمرہ میں؟"

"دیکھا جائے گا۔ میں ایسے حادثات کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔!" عمران نے لاپروائی سے کہا اور بات آئی گئی ہو گئی۔





جولیا کے فون کی گھنٹی بجی اور اس نے ریسیور اُٹھا لیا۔

"ایکس ٹو۔۔۔!" دوسری طرف سے بھرائی سی آواز آئی۔

"یس سر۔!"

"دلکشا میں اس وقت کل کتنے آدمی ہیں؟"

"کل تک دو آرٹسٹ تھے۔ وہ دونوں چلے گئے۔!"

"کہاں چلے گئے؟"

"یہ نہیں معلوم ہو سکا۔ ریلوے اسٹیشن گئے تھے اور تھرٹین اَپ میں بیٹھ گئے تھے۔!"

"اب کتنے آدمی ہیں؟"

"کوئی بھی نہیں۔ صرف ایک لڑکی اور جی ہاں آدھے گھنٹے پہلے کی خبر ہے کہ عمران کا نیگرو ملازم جوزف بھی وہاں دیکھا گیا ہے۔!"

"آج تمہارے آدمی اس وقت تک اس عمارت کے آس پاس رہیں گے جب تک کہ میری طرف سے کوئی دوسری اطلاع نہ ملے۔!"
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 66 – 67

"بہت بہتر جناب!"

"اُن سے کہہ دو کہ توجہ زیادہ تر عقبی پارک پر رہے! انہیں وہاں کچھ بھی نظر آئے اس میں دخل انداز نہ ہوں! مثال کے طور پر اگر کسی کو دیوار پر چڑھتے دیکھیں یا غیر قانونی طور پر عمارت میں داخل ہوتے دیکھیں تو اُسے للکارنے یا روکنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر انہیں اُدھر کی کسی کھڑکی میں شعلہ نظر آئے تو بیدریغ عمارت میں گُھس پڑیں اور اس کھڑکی تک پہنچنے کی کوشش کریں جس میں شعلہ نظر آیا ہو۔!"

"بہت بہتر۔!"

"اور ۔۔۔ تم ! تمہیں بھی ایک کام کرنا ہے۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے گھر سے نکلو۔ تمہیں کسی سے ایک سوٹ کیس ملے گا! اُسے لے کر کے وکٹوریہ میں چلی جانا اور کسی ایسے آدمی کا انتظار کرنا جو تم سے وہ سوٹ کیس لے جائے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ تم اُسے اپنے گھر واپس لے آؤ۔ یہ اُسی صور ت میں ہو گا جب ساڑھے گیارہ بجے تک کوئی آدمی سوٹ کیس کی طرف متوجہ نہ ہو۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے کیفے وکٹوریہ سے تمہاری واپسی ہونی چاہیے۔!"

"یعنی اگر کوئی ایسا آدمی نہ ملا جو سوٹ کیس کا مطالبہ کرے تو وہ سوٹ کیس میں واپس لاؤں گی؟"

"قطعی طور پر ۔۔۔!"

اس کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا۔جولیا نے گھڑی کی طرف دیکھا ساڑھے سات بجے تھے۔ ایکس ٹو نے ساڑھے آٹھ بجے گھر سے نکلنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن اُسے سوٹ کیس کہاں ملیگا اس کی وضاحت نہیں کی تھی۔

ساڑھے آٹھ بجے وہ گھر سے نکلی۔ کمپاؤنڈ طے کر کے پھاٹک کی طرف جا رہی تھی کہ آواز آئی ۔۔۔ٹھہرئیے مادام۔

وہ چونک کر مڑی۔ کراٹا کی باڑھ کے پیچھے کوئی آدمی کھڑا تھا۔ فاصلہ تین یا چار گز رہا ہو گا۔۔۔ اُسے رُکتے دیکھ کر تاریک سایہ اُس کی طرف بڑھا۔ پھر ایک ہاتھ اٹھا۔ چھوٹا سا سوٹ کیس اس کے ہاتھ میں صاف دیکھا جا سکتا تھا۔

جولیا نے ہاتھ بڑھا کر سوٹ کیس لے لیا اور چپ چاپ پھاٹک کی طرف بڑھ گئی۔





سناٹے سے اکتا کر تاریکی گویا جھینگروں کی جھائیں جھائیں کی شکل میں بول پڑی تھی۔ جیسے دلکشا کی نچلی منزل کی ایک کھڑکی میں سبز روشنی نظر آئی۔ صفدر اور عمران جھاڑیوں سے نکل کر عمارت کی طرف بڑھے۔

پچھلی بار کی طرح آج بھی انہیں پائپ کے سہارے اوپری منزل کی کھڑکی تک پہنچنا پڑا۔ دوسرے ہی لمحے میں وہ کمرے کے اندر تھے۔

عمران نے سوئچ بورڈ ٹٹول کر کمرے میں روشنی کی۔ روشنی ہوتے ہی کھڑکی
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 68 – 69

کی خلا بھی غائب۔ لیکن عمران نے کوئی دوسرا سوئچ آن کر کے وہ سفید چادر سی ہٹا دی جو کھڑکی کی خلا پر پھیل گئی تھی۔ کھڑکی کے پٹ تو اس نے پہلے بند کر دیئے تھے۔ کمرے میں انہیں کوئی تبدیلی نہیں نظر آئی۔۔۔ لیکن اچانک صفدر چونک کر آتشدان کے بُت کو گھورنے لگا۔ آج اس کی آنکھیں سُرخ تھیں اور وہ بڑا خوفناک معلوم ہو رہا تھا۔ صفدر نے عمران کو بھی اسی کی طرف متوجہ پایا۔ وہ متحیرانہ انداز میں اپنی پلکیں جھپکا رہا تھا۔

بُت کی سرخ آنکھیں ۔۔۔ صفدر کو ایسا ہی معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ قہر آلود نظروں سے انہیں گھور رہا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ یہ بات اس کی سمجھ ائی کہ وہ سُرخ رنگ کی روشنی تھی۔ غالباً بُت کے اندر سرخ رنگ کا بلب روشن تھا۔

"تم کون ہو ۔۔۔؟" یک بیک بُت سے آواز آئی اور عمران بوکھلاہٹ میں جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکال کر اسے پیش کرنے دوڑا۔۔۔ پھر آتشدان کے قریب جا کر تیزی سے مڑا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر صفدر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

صفدر تو پہلے ہی دم بخود تھا اور سوچ رہا تھا کہ بُرے پھنسے۔ اُسے عمران پر غصہ آنے لگا۔ کیونکہ اُس نے پہلے ہی اس سے کہا تھا کہ کہیں آج وہ کمرہ ہمارے لئے چوہے دان ہی نہ بن جائے ۔۔۔ لیکن عمران نے پرواہ نہیں کی تھی۔

دفعتاً صفدر چونک پڑا۔ کیونکہ اُس نے بہری رقاصہ کی آواز سنی تھی۔ مگر یہ آواز عمران کے منہ سے نکل رہی تھی۔ وہ بُت کے قریب منہ کر کے کہہ رہا تھا۔ " یہ سب ٹھیک ہے۔ پہلے مجھے شبہ ہوا تھا۔ لیکن میں ان کی مونچھیں اکھڑوانے کی کوشش کر چکی ہوں۔ نہیں اکھڑیں ۔۔۔ میک اَپ نہیں ہے۔!"

چلو ٹھیک ہے۔!" بت سے آواز آئی۔ "اسی طرح محتاط رہو۔ پچھلی بار مجھے اُس کی کھانسیوں پر شبہ ہوا تھا۔ اب اپنا سوئچ آن کر دو۔!"

بُت کی آنکھوں سے سُرخ روشنی غائب ہو گئی۔ عمران بڑی تیزی سے بُت کو ٹٹول رہا تھا! پھر اس نے جیب سے چاقو نکالا اور ایک تار کاٹنے لگا جو بُت کی پشت سے نکل کر دیوار میں غا ئب ہو گئے تھے۔

ٹھیک اُسی وقت دروازہ کھلا اور بہری لڑکی جوزف کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔

صفدر کی پشت عمران کی طرف تھی اس لئے لڑکی کی نظر سب سے پہلے صفدر پر پڑی اور وہ یہ نہ دیکھ سکی کہ عمران کیا کر رہا ہے۔

ان دونوں کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہو گیا۔۔۔ اور لڑکی نے جوزف سے کہا "پکڑو ان چوروں کو۔۔۔مارو۔! "

لیکن صفدر بھی غافل نہیں تھا۔ دوسرے ہی لمحے میں اس کا ریوالور نکل آیا اور وہ دونوں جہاں تھے وہیں رہ گئے۔ عمران اس سے لاپرواہ تار کاٹنے میں مشغول رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اُسے گرد و پیش کی خبر ہی نہ ہو۔
جوزف اور لڑکی نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لئے تھے۔

جب عمران تار کاٹ چکا تو لڑکی کی طرف مڑ کر بولا۔ "قریب آؤ۔ میں تمہارے کان میں کھانسوں گا۔ اس کے صرف ہونٹ ہل کر رہ گئے۔ آواز نہیں نکلی۔
 
Top