پاکستان میں مہنگائی نے بہت ظلم ڈھائے‘ اثرات نسل در نسل دیکھے جائیں گے : وی او اے

اسلام آباد (این این آئی) پاکستان میں مہنگائی نے وہ ظلم ڈھائے کہ ا س کے اثرات نسل در نسل دیکھے جائیں گے ، پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ غربت اور گداگری میں اضافے کا دوسرا نام ہے، لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں ، بیشتر گھرانے ایسے ہیں جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بہ دن کم ہونے لگا ہے۔ وی او اے کے مطابق مہنگائی تیسری دنیا کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بھی سنگین اور گھمبیر مسئلہ ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مسئلے سے کئی اور مسئلے جڑے ہیں جن میں بے روزگاری، غربت اور بھوک شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق70 سالہ خوشی محمد بے روزگاری اور غریبی دور کرنے کے حسین خواب لے کر 24 سال پہلے پنجاب سے کراچی آیا تھا اسے آسرا تھا کہ کراچی بڑا شہر ہے کوئی نہ کوئی کاروبار مل جائے گا نہیں تو چھوٹی موٹی نوکری کرکے اپنا پیٹ پال لے گا چوبیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا پیٹ تو پل رہا ہے مگر تنگ دستی ہے کہ بے علاج روگ کی طرح پیچھا ہی نہیں چھوڑتی، ہر شام اسے کسی نہ کسی مسجد میں نماز کے بعد دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کےلئے کھڑا ہونا اب تو حد ہوگئی۔ اب وہ اپنے چار چھوٹے معصوم بچوں کو بھی ساتھ لے آتا ہے۔ خوشی محمد گوجر خان کا رہنے والا ہے، اس نے کہا کہ چھوٹی موٹی بہت سی نوکریاں کیں مگر مہنگائی ہمیشہ آمدنی سے دوگنا رہی، آج نوبت یہ ہے کہ میں تو غریب تھا ہی میرے بچے بھی سدا کے غریب ہوگئے ، چار بچوں کا ساتھ، کرائے کا مکان، کھانا پینا۔ دس ہزار روپے سے بھی زیادہ کے خرچے ہیں مگر تنخواہ چار ہزار ہے بھیک نہ مانگوں تو کیا کروں؟۔ چند روز قبل حکومت نے پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ صرف مہنگائی میں اضافہ نہیں بلکہ غربت اور گداگری میں اضافے کا دوسرا نام ہے۔ 2005ءکا زلزلہ اور حالیہ سیلاب ہی غربت میں بے پناہ اضافے کا باعث نہیں رہا بلکہ روز روز کی مہنگائی اور آئے دن کے منی بجٹ بھی غربت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ پچھلے سال تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 5.5 فی صد اور بے روزگارافراد کی تعداد 29 لاکھ تھی۔ یہاں ہر چوتھاشخص غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ 2009ءکے مطابق ملک کی 22.6 فیصد آبادی یومیہ سوا ڈالر سے کم آمدنی پر زندگی بسر کررہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاءمیں غربت کے حوالے سے پانچویں اور دنیا میں ایک سو ایک ویں نمبر پر ہے۔ یکم نومبر کو ہونے والی مہنگائی کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی کا نیا طوفان آ گیا ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ جن گھروں میں 1990ءکے عشرے میں مہینے میں کم از کم چار مرتبہ گوشت پکا کرتا تھا اب وہاں چار مہینے میں ایک آدھ مرتبہ گوشت پکتا ہے۔گھر گھر جاکر جھاڑو پونچھا کرنے والی زلیخا کا کہنا ہے کہ اسے پچھلی عید پر گوشت کھانے کو ملا تھا وہ بھی قربانی کے جانور کا۔ اب سال پورا ہونے کو ہے۔ میرا والد کئی ماہ بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا، ڈاکٹروں نے اسے یخنی بتائی تھی ہم یخنی کہاں سے لاتے اور کتنی بار لاتے۔ سو یخنی کے انتظار میں ہی وہ اس دنیا سے چل بسے۔ یہی حال دودھ کا ہے۔ دودھ 60 روپے کلو بک رہا ہے۔ متوسط گھرانہ بھی 80 روپے درجن انڈے خریدتے ہوئے دس بار سوچتا ہے۔ مچھلی، مرغی کی بات چھوڑ دیں، یہ متوسط گھرانے کی پہنچ سے بہت دور کی بات ہے۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بہ دن کم ہونے لگا ہے۔ اکٹھا سامان خریدنے کے لئے مٹھی بھر رقم خرچ کرتے ہوئے خوف محسوس کیا جاتا ہے کہ اگر ساری رقم شروع مہینے میں ہی خرچ ہوگئی تو باقی مہینہ کیسے گزرے گا۔ اس لئے ہر شام اگلے دن کا سامان لانا معمول ہوتا جا رہا ہے۔ ایک سفید پوش گھرانے کے سربراہ کا کہنا ہے ایک کلو گھی یا تیل، پانچ کلو چاول یا دو کلو چنے لانا مشکل ترین مرحلہ ہے اس لئے میں ہر شام کبھی بیس روپے کا گھی اور کبھی بیس روپے کا تیل لا کر کام چلا رہا ہوں۔ چاول سو روپے کلو سے کم نہیں اس لئے کبھی پاﺅ بھر اور کبھی آدھا کلو چاول لاتا ہوں۔ جب سے چینی اسی پچاسی روپے ہوئی ہے، اسے خریدتے ہوئے کتراتا ہوں، کبھی مہمان وغیرہ آئے ہوئے ہوں تو آدھا کلو سے بھی کم چینی خریدتا ہوں۔ ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی خطرناک شرح سے بڑھی ہے۔ غریب شہری دال اور سبزی کھانے کو ترس گئے۔ ٹماٹر جیسی معمولی چیز 90 روپے سے ایک سو روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے بقر عید آنے والی ہے یہی حال رہا تو ٹماٹر 2 یا تین سو روپے کلو ہوجائیں گے۔ غریب شہری دالوں پر گزارا کر لیتے تھے لیکن دالیں بھی دسترس سے نکل گئی ہیں۔ کوئی بھی دال ڈیڑھ سو روپے سے کم نہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پچھلے تین ماہ میں آٹا چودہ فیصد، دال چنا ساڑھے بارہ فیصد، دال مونگ اکیس فیصد اور چینی سترہ فیصد مہنگی ہو چکی ہیں۔ نوے دن میں دودھ دس فیصد، گھی نو فیصد، سرخ مرچ پاو¿ڈر اکیس فیصد اور نمک چھ فیصد مزید مہنگا ہو گیا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق گذشتہ ایک سال میں مہنگائی کی شرح بائیس فیصد بڑھ گئی۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/National/05-Nov-2010/43842
 

arifkarim

معطل
ہاہاہاہا۔ مہنگائی نہیں افراط زر بڑھا ہے۔ دیکھا کرنسی کو سونے سے الگ کرنے کا انجام!
 
Top