پاکستان معجزےکامنتظرہے

قمراحمد

محفلین
پاکستان معجزے کا منتظر ہے

ایازا میر (روزنامہ جنگ)

قومی اسمبلی کی چھت پر اللہ کے ننانوے اسم ہائے مبارکہ انتہائی خوبصورت خطاطی کے ذریعے کندہ کئے گئے ہیں۔ لیکن اس روز جب سوات شریعت ریگولیشن کا بل قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس میں اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خوف کی چادر تنی ہوئی نظر آئی جسے ظاہری آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا تھا بلکہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی اس معاملے کے حوالے سے درست فیصلہ نہیں کر پائی۔بغیر کسی انتباہ کے قرارداد پیش کر دی گئی اور اے این پی کے ممبران (جو صوبہ سرحد میں بڑی حکمران جماعت کی حیثیت سے برسر اقتدار ہے) زور و شور سے چیخ پکار کرتے رہے کہ کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا کہ فاٹا اور سوات میں پختونوں کا خون بہہ رہا ہے۔

قومی اسمبلی میں چند مخالفانہ آوازیں سنائی دیں (ان میں ایم کیو ایم کے فاروق ستار کی زبردست تقریر بھی شامل ہے) لیکن اکثریت نے آنکھیں بند کر کے ہتھیار ڈالنے کے عمل کی پیروی کی۔اور اب معاہدہ سوات کو ہوئے بمشکل دس دن بھی نہیں گزرے کہ گھڑی کی سوئیاں الٹی طرف گھومنی شروع ہو گئی ہیں اور معاہدہ کے حوالے سے اعتراضات کی پٹاری کھل گئی ہے ۔ان اعتراضات کے پس پشت دو واقعات کا ظہور کارفرما ہے۔پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ مولانا صوفی محمد نے مینگورہ میں ایک بڑے عوامی اجتماع کے سامنے یہ اعلان فرمادیاکہ اسلام میں جمہوریت اور اعلیٰ عدالتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس اعلان نے تو گویا بھونچال بپا کر دیا، وہ صاحبان جو معاہدے کی شقوں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے سر کان لپیٹے ہوئے تھے، انکے بھی کان کھڑے ہو گئے۔دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ طالبان نے سوات کے قریبی اضلاع پر بھی دھاوا بول دیا اور بونیر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ جبکہ سوات معاہدے کے تحت یہ طے کر لیا گیا تھا کہ طالبان سوات تک ہی محدود رہیں گے اور مزید علاقوں کی طرف پیش قدمی سے گریز کریں گے۔ طالبان کی پیش قدمیوں کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ ملکی سطح پر آوازیں سنائی دیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیں بارہا متنبہ کیا گیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پاکستان میں اگر ایسی کوئی آواز سنائی بھی دے جاتی تو اسے فورا سے پیشتر دبا دیا جاتا۔ لیکن مولانا کی فصاحت و بلاغت پر مبنی تقریر اور بونیر کی طرف پیش قدمی جیسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو خواب غفلت سے جگا دیا گیا ہے اور طالبان کے حوالے سے قائم تردید کی فضامیں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔

سو اس وقت جو بھی صورتحال ہے، اس کے لئے ہمیں مولانا صوفی محمد کا مشکور ہونا پڑے گا۔ انہوں نے ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑا ہے اور ہمیں اس مسئلے کے حوالے سے اپنی توجہ مرتکز کرنے میں مدد دی ہے۔ پہلے جو چیز مبہم اور گو مگو کی کیفیت میں نظر آرہی تھی ، اب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ دور ازکار مفروضے حقیقت کا روپ دھار گئے۔

سوات کی صورتحال پاکستان کیلئے نجات کا باعث بھی ہوسکتی ہے، اگر ہم ایک لمحے کیلئے سنجیدہ ہو کر معاملات پر غور کریں۔ پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں، اس حوالے سے ہمیں کسی بھی قسم کے مغالطے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، یہ ایک بین حقیقت ہے۔ بلوچستان میں غم و غصہ اپنے عروج پر ہے اور وہ باقی ملک سے کٹ کر رہ گیا ہے جبکہ فاٹا میں بھی ہمیں کوئی ریاستی عملداری دکھائی نہیں دیتی۔ اور پنجاب جسے ماضی قریب تک محفوظ و مامون خیال کیا جاتا تھا، وہاں بھی آنیوالے طوفانوں کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ان سبھی حقائق سے قطع نظر ایک حقیقت ہماری کمزور سیاسی قیادت ہے جبکہ فوج نے بھی فاٹا اور سوات میں کوئی حوصلہ افزا کارکردگی نہیں دکھائی۔ سو ہر طرف مایوسیوں کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔

قیادت کا فقدان ہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہمیں اس سے قبل قیادت کی اس قدر اشد ضرورت کبھی بھی نہیں پڑی تھی۔ جو قوم کا بکھرا ہوا شیرازہ سمیٹ کر اسے یکجان و یکسو کرے اور اسے منزل کی طلب میں عمل پر آمادہ کرے۔شومئی قسمت کہ اس وقت ہمارا قومی منظر نامہ ایسی کسی بھی شخصیت کے وجود سے خالی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی تقدیر کو کوستے رہیں اور روتے دھوتے رہیں، ہمیں اس وقت جو بھی قیادت میسر ہے، ہمیں اسی قیادت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنا ہے۔افسوس صد افسوس کہ آصف علی زرداری قیادت کے جوہر نہ دکھا پائے۔ شاید ان میں قیادت کا ہنر ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بہتر مشیروں کے انتخاب میں انہیں کونسا امر مانع ہے اور کسی بہتر تجویز یا مشورے پر عملدرآمد کرنے سے انہیں کون روکتا ہے؟ آخر وہ اپنے سابقہ امیج سے اوپر کیوں نہیں اٹھ آتے؟ پاکستان میں بھی ذہین و فطین افراد کی کمی نہیں۔ لیکن آخر یہ ذہین افراد ہمیں مشیروں کے عہدوں کے لئے کیوں نہیں دستیاب ہوتے؟

اس سے قطع نظر کہ قصر صدارت اور وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنی کارکردگی میں بہتری لاتی ہے یا نہیں لیکن ایک بہت بڑی ذمہ داری نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کاندھوں پر بھی ہے۔ وہ ذمہ داری جو پاکستان پیپلز پارٹی پوری نہ کر پائی، وہ ذمہ داری پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اٹھانی ہے یہ جماعت نہ صرف یہ کہ پارٹی ان ویٹنگ ہے بلکہ یہ پنجاب میں بھی حکومت کر رہی ہے ۔لیکن جب ہم ویژن کی بات کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) معاہدہ سوات کے حوالے سے اس وقت جو اعتراضات اٹھا رہی ہے، وہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل اٹھائے جاتے تو کوئی بات بھی تھی ، تاکہ پاکستان کے عوام کو فرق معلوم ہو جاتا کہ کیا تجویز کیا گیا تھا اور کیا ہونا چاہیئے تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دہشت گردی کے حوالے سے ایک واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملوں کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہونی چاہیئے اور امریکیوں پر بھی یہ امر واضح کر دینا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں کھل کر لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کر دینا چاہیے اور ہاں اسکے لئے ہمیں مولانا صوفی محمد کا مشکور ہونا پڑیگا جنہوں نے ہمیں طالبان کی حقیقت سمجھنے میں مدد دی۔ قوم قیادت کی منتظر ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کی قیادت کا فریضہ انجام دے۔

ہاں یہ سچ ہے کہ جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے کچھ ایشوز تاحال لاینحل ہیں مثلا پرویز مشرف کی آئینی ترامیم ۔ پارٹی کو اس حوالے سے اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ جمہوریت اب پاکستان کا نمبر ون ایشو نہیں رہا۔ اس وقت نمبر ون ایشو دہشت گردی اور طالبان کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ ہے۔ فوج کو بھی ایک سمت اور ایک بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کا ویژن فوجی قیادت کے ویژن سے زیادہ اعلیٰ و ارفع ہو۔ اگر ہم اپنا آغاز ہی فوج پر تنقید سے کرتے ہیں تو ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ ہم فوج کے مقابلے میں بہتر حکمت عملی پیش کریں۔لیکن سوال یہ ہے کہ سوات اور فاٹا میں معاملات حل کرنے کے لئے سیاسی قیادت اور فوج کو بلوچستان میں ہڑبونگ مچانے کی ضرورت نہیں۔ اگر فوج بہت سے محاذ کھولے گی تو پھر وہ طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نہیں نمٹ پائے گی۔ اہم معاملات کے حل کے حوالے سے اگر ہم مخلص ہیں تو پھر یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کا ازالہ کیا جائے اور اس کے لئے ہمیں وفاقی حکومت کی جانب سے اچھی خاصی پیش رفت کی ضرورت ہے۔اگر ہمیں بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے تو پھر ہمیں بلوچستان کی کسی قابل احترام شخصیت مثلا عطاء اللہ مینگل کو صدر پاکستان کے عہدے پر فائز کرنا ہوگا۔اگر ہم پاکستان میں ضائع شدہ مواقع کی بات کریں تو یقیننا یہ موقع بھی ہم نے گنوا دیا ہے۔ لیکن ہم ایک بار پھر عرض کرتے چلیں کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ہمیں بلوچ عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنا ہی ہوگا۔

یہ سچ ہے کہ امریکی ہمارا درد سر بن گئے ہیں ،وہ بری طرح سے افغانستان میں پھنس گئے ہیں لیکن انکے اپنے ہی مقاصد ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر اس تاثر کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم امریکہ کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہیں اور وہ جہاں چاہے ہماری مہاریں موڑ دیتا ہے اور ہم بعض اوقات امریکی مفادات کی خاطر اپنے مفادات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لیکن یہ سبھی امور قابل اصلاح ہیں اور ہم خود اپنی تقدیر کے مالک بن سکتے ہیں، اگر ہم اپنا قبلہ درست کر لیں اور اپنے قومی مفادات کا تعین فرما لیں۔صورتحال مزید کیا ابتر ہوگی۔ ہمیں اس وقت اٹھ کھڑے ہونے اور معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم طوفانی لہروں کے سنگ ہی بہتے چلے گئے تو صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنے کے لئے بھی شاید ہم نہ بچ پائیں۔
 
Top