پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

یوسف-2

محفلین
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
اللہ نے نہ صرف یہ کہ تمام جانداروں کو پانی سے تخلیق کیا ہے بلکہ تمام جانداروں کی زندگی کا دارو مدار بھی پانی پر ہی رکھا ہے۔خود اللہ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اُس نے ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے(الانیباء: 30) ۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا ‘پھر اس کو سوتوں ، چشموں اوردریاؤں کی شکل میں زمین کے اندرجاری کیا۔پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتاہے جن کی مختلف قسمیں ہیں۔پھر وہ کھیتیاں پک کر تیارہو جاتی ہیں(الزمر: 21)۔ اللہ تعالیٰ نے مملکت خداد داد پاکستان کوزندگی کی بنیادی نعمت پانی ، انتہائی فراوانی سے عطا کی ہے۔ ملک کے جنوب میں ایک طرف پانی سے بھرا ہوا سمندر ہے تو شمال کے پہاڑوں میں میٹھے پانی کا دنیا کا عظیم ترین گلیشئرسینہ تانے کھڑا ہے۔موسم ِبرسات میں آب حیات کا چھڑکاؤ ہے تو شمال سے جنوب تک ملکی زمینوں کو سیراب کرنے والے دریاؤں کا رواں دواں بہاؤ ہے۔ پانی کے اس بیش بہا خزانہ کی موجودگی کے باوجود اہل پاکستان پانی کے ذکر سے اب پانی پانی ہونے لگے ہیں۔ پانی کی نعمت کے اس بہتات کے باوجود جب ایک مرد قلندر نے اہل پاکستان کو پانی پانی کرتے سنا تو کہنے لگا کہ تم ناشکروں اور کم عقلوں کے لئے تو چلو بھر پانی بھی کافی ہے۔ قلندر کی یہ بات سن کر پانی پانی کرتا ہوا پاکستانی، پانی پانی ہوگیا اور چاک گریبان گلی گلی یہ شور مچانے لگا کہ:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
صاحبو! گو کہ ہم پاکستانی اکثر پانی کی وجہ سے پانی پانی ہوتے رہتے ہیں مگر پھر بھی پانی کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کم از کم اس تذکرہ سے منہ میں پانی تو مفت میں بھرآتا ہے۔ جبکہ اب تو پینے کے لئے دوگھونٹ بھرپانی کی بوتل بھی بیس پچیس روپے سے کم میں نہیں ملتی۔ سنا ہے، اور سنا کیاہے، تمام سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ پانی دو گیسوں ہائیڈروجن اورآکسیجن سے مل کر بنا ہے، بقول شاعر ع
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے
گرہ کھل جائے تو فوراََ ہوا ہے
عوام الناس کے لئے بھلا یہ بھی کوئی ماننے والی بات تھی کہ پانی، اصل میں پانی نہیں بلکہ ہوا یا ہواؤں کا مجموعہ ہے۔ لیکن اللہ بھلا کرے ادارہ فراہمی آب والوں کا کہ انہوں نے سائنسدانوں کے اس”مفروضہ“ کو عملاََ سچ ثابت کر دکھایا۔ پاکستان بھر میں اس ادارہ نے فراہمی آب کی لائنوں میں ’گرہ کھل جانے والا‘ ایک ایسا خود کار سسٹم لگا رکھا ہے کہ اُدھر سے تو وہ پانی ہی داخل کرتے ہیں، لیکن اِدھر گھروں میں ہمیں نلکوں سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہی ملتی ہے تاکہ ہم کم از کم ٹھنڈی ٹھنڈی آہ تو بھر سکیں۔ہم ادارہ فراہمی آب والوں کے اس لئے بھی شکر گذار ہیں کہ وہ یہ خود کار نظام عموماََ گرمیوں ہی میں چلاتے ہیں کیونکہ اسی موسم میں الیکٹرک سپلائی کارپوریشنز کی بجلی ہم سے زیادہ سے زیادہ چھپن چھپائی کا کھیل، کھیل رہی ہوتی ہے۔ اب اگر مئی جون کا مہینہ ہو اور چوٹی سے ایڑی تک بہا پسینہ ہو اور بی بجلی ہم سے روٹھ کر اپنے میکہ یعنی پاور ہاؤس جا بیٹھی ہو تو ہم ایسے میں بلا تکلف نلکے کے نیچے جا بیٹھتے ہیں اور ٹونٹی کھو ل کرٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔ایسے ہی دنوں میں ایک اُستاد نے جب یہ پوچھا کہ بچو! تمہارے گھروں میں بجلی کہاں سے آتی ہے؟ توایک بچہ نے جواب دیا کہ ماموں کے گھر سے۔ اُستاد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا تم لوگوں نے کُنڈا وغیرہ لگا رکھا ہے تو بچہ نے جواب دیا کہ نہیں سَر ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لیکن جب بھی ہماری بجلی جاتی ہے تو ابو یہی کہتے ہیں کہ سالوں نے پھر بجلی بند کردی۔:p

شہروں میں فراہمی آب کے اداروں کے حاسدین کااصرار ہے کہ چونکہ پائپ لائنوں میں پانی ڈالا ہی نہیں جاتا لہٰذا پائپ لائنوں کوخالی دیکھ کر بی ہوا چپکے سے اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ مگر ہمیں حاسدین کے اس ’الزام‘ سے بالکل بھی اتفاق نہیں ہے۔ کیونکہ اگر پائپ لائنوں میں پانی داخل ہی نہیں کیا جاتا تو پھریہ اعداد و شمار کہاں سے آجاتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے شہروں تک کواتنے اتنے کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ کروڑوں گیلن پانی کا سن کر یقینا آپ کے منہ میں بھی پانی بھر آیا ہوگا۔ لیکن ٹھہرئیے! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا منہ کروڑوں گیلن پانی کے لئے انتہائی سے بھی زیادہ ناکافی ہے۔آئیے ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ ایک کروڑ گیلن پانی کتنا ہوتا ہے۔ فرض کیا اورصرف فرض کرنے میں آپ کا کچھ زیادہ خرچ نہیں ہوگا۔ تو فرض کیا کہ آپ کے پاس ہزار ہزار گیلن کی دس ہزار پانی کی ٹنکیاں ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہمارے ہاںسو دو سو گیلن کی پانی کی خالی ٹنکی بھی ہزاروں روپے میں ملتی ہے۔ تو اگر آپ کسی طرح ان تمام فرضی ٹنکیوں کو مہینوں یا سالوں کی محنت کے بعد پانی سے بھر سکیں تب کہیں جاکر ایک کروڑ گیلن پانی بنتا ہے۔ ادارہ فراہمی آب کے بقول وہ ایسے درجنوں کروڑ گیلن پانی ہر روز مختلف چھوٹے بڑے شہروں کو فراہم کرتا ہے۔ ہمارا حساب کتاب کہتا ہے کہ اس ادارہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہروں کو فراہم کردہ کُل پانی کو اگرتھر کے ریگستان میں بھی ”جمع“ کرنا شروع کردیا جائے تو عنقریب وہاں ایک دوسرا سمندر ’وجود‘ میں آسکتا ہے۔ لیکن ہم پاکستانی ایسا ہرگز ہرگز نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں میٹھے پانی کا اتنا بڑاذخیر ہ بن جائے۔ کیونکہ موجودہ آبی وسائل کی موجودگی میں توہم صرف قلت آب کا شکار ہیں۔ اگر مزید ذخائر بن گئے تو کہیں ہم قحط آب ہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ غالباََ اسی ”خوف“ سے ہم پاکستانی ذخیرہ آب کے لئے نئے ڈیم بنانے کے سخت خلاف ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں وسائل، مسائل سے براہ راست اور رسد سے بالعکس متنا سب ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وسائل بڑھیں گے تو مسائل بھی بڑھیں گے یعنی وسائل کی فراوانی سے رسد میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔ یہ ایک ایسا ”کلیہ“ ہے جسے یا تو سائنس کے طالب علم سمجھ سکتے ہیں یا پھر فنون کے، کیونکہ شاعر ہمیں بہت پہلے بتلا چکا ہے کے ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔

گرمیوں میں ہر سال کروڑوں ٹن گلیشئر پگھل پگھل کر ہمارے دریاؤں میں داخل ہوتا ہے اور پھر دریاؤں سے اچھل اچھل کر سیلِ آب کی صورت میں بستیوں کو غرقِ آب کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب کھیتوں کھلیانوں میں کاشت کاری کے دوران پانی کی طلب ہوتی ہے تو محکمہ انہار کے پاس پانی ندارد ہوتا ہے اور صوبے زرعی پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر سال سیلاب کی صورت میں سمندر برد ہونے والے پانی کو محفوظ بنانے کے لئے ”ذخیرہ آب“ یعنی ڈیم بنانے کو ہم تیار نہیں ہوتے۔ کالا باغ ڈیم منصوبہ، ہمارے پیشہ ورسیاستدانوں کے لئے سبز باغ منصوبہ بن چکا ہے۔اللہ نے تو ہمیں زندگی کی علامت پانی کا بیش بہا ذخیرہ عطا کر رکھا ہے، لیکن یہ حکمرانوں اور سیاستدانون کی نادانی ہے کہ ہم قلت آب سے قحط آب کی طرف بڑھے چلے جارہے ہیں، مگراس نعمت کو ذخیرہ کرنے کے لئے ہنوزتیار نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ قومی سطح پر روا رکھی جانے والی یہ نادانی ہم اپنے اپنے ذاتی گھروں میں ہرگز روا نہیں رکھتے۔ ہر چھوٹے بڑے مکان حتیٰ کہ اپارٹمنٹس تک میں ہم نے ذخیرہ آب کے لئے زیرزمین اور بالائی چھتوں پر کئی کئی پانی کی ٹنکیاں بنا رکھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ ادارہ فراہمی آب کے نلکوں میں ایک دن پانی آنے کے بعد کئی کئی دن تک غائب رہتا ہے۔ مگر ہم اپنی یہی دانش ملکی سطح پر دکھلانے کو تیار نہیں ہوتے اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ پانی کے بیش بہا خزانہ کو لُٹا کر پانی پانی کرتے نظر آتے ہیں۔
پانی پانی کرگئی مجھ کوقلندر کی یہ بات
تو اگرپانی جمع نہیں کرتانہ کر، شور نہ کر

Pani+nai+baat+060113.gif



 
Top