ٹی وی کی تاریخ کا سب سے مہنگا شو

سید ذیشان

محفلین
مجھے اس کے "پیار محبت" والے ایپی سوڈ کو چھوڑ کر سارے پسندآئے
جہیز والے میں چچا کے ذریعے کہی ہوئی بات کہ "عامر آپ میں مولانا آزاد کا خون ہے" سمجھ سے بالاتر ہے۔
ڈاکٹروں والا خاصا دھماکےدار رہا کیونکہ یہاں ممبئی میں بہت سے ڈاکٹروں نے واویلا مچایا تھا۔ آج جب کہ کرپشن اپنی ساری حدود توڑ چکا ہے ایسے میں یقینا ان معاملات پر بولنا اوروہ بھی میڈیا میں، بڑے دل گردے کا کام ہے۔
پیار محبت والے کو ناپسند کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
 

ابو یاسر

محفلین
پیار محبت والے کو ناپسند کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
وہ شو بھی ٹھیک تھا مگراس میں کچھ ایک خامی تھی۔
اخلاقی اقدار کو ہائیلائٹ نہیں کیا گیا، جیسے کہ مذہب کے باہر کی شادی میں آنے والی پریشانیاں ، والدین سے بغاوت
یہ تو سب جانتے ہیں عمر کے اس پڑاو پر جب جسم ہارمونس کا طوفان بپا ہوتا ایسے میں کوئی بھی فیصلہ لینا کتنا برا ثابت ہو سکتا ہے وہ بھی ایسا فیصلہ جو کہ زندگی کا رکھ بدل سکتا ہے۔
ایک گھنٹے سے زیادہ کےاس ایپی سوڈ میں ایک بھی جملہ مجھے نہیں یاد ہے جب کہ عامر نے ایسی کوئی بھی بات بتائی ہو۔
 

سید ذیشان

محفلین
وہ شو بھی ٹھیک تھا مگراس میں کچھ ایک خامی تھی۔
اخلاقی اقدار کو ہائیلائٹ نہیں کیا گیا، جیسے کہ مذہب کے باہر کی شادی میں آنے والی پریشانیاں ، والدین سے بغاوت
یہ تو سب جانتے ہیں عمر کے اس پڑاو پر جب جسم ہارمونس کا طوفان بپا ہوتا ایسے میں کوئی بھی فیصلہ لینا کتنا برا ثابت ہو سکتا ہے وہ بھی ایسا فیصلہ جو کہ زندگی کا رکھ بدل سکتا ہے۔
ایک گھنٹے سے زیادہ کےاس ایپی سوڈ میں ایک بھی جملہ مجھے نہیں یاد ہے جب کہ عامر نے ایسی کوئی بھی بات بتائی ہو۔
آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن انڈیا کے قانون کے مطابق تو دو بالغ لوگوں کو شادی کی اجازت ہے۔ اور اگر دو لوگ آپس میں محبت کرکے شادی کریں تو اس میں قباحت کیا ہے۔ جو سلوک ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے وہ بہت برا ہے اور یہ پروگرام اس پر تھا۔
 

ابن عادل

محفلین
میں ابو یاسر کی بات کی تائید کرتا ہوں ۔ میری طرح ذرا محفلین میں نکاح کی منزل کو گلے لگانے والے دوست اس پر اظہار خیال کریں ۔ میں اپنے عزیزوں میں دیکھتا ہوں جنہوں نے پیار سے ایک دوسرے کو زندگی کا ساتھی چنا لیکن عملی زندگی میں وہ نباہ نہ چل پایا ۔
میرا خیال ہے کہ شہروں میں تو اب والدین بہت حد تک روکاوٹ بھی نہیں بنتے اولاد کے راستے میں ؛ ہاں حساس والدین یہ ضرور کہتے ہیں کہ اب جب فیصلہ خود کیا تو پھر بعد کے مسائل سے بھی خود نمٹنا ۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ اس صورت میں عورت کا استحصال ہوتا ہے ۔ عملی زندگی میں جب آٹے دال کے بھاؤ کا پتہ چلتا ہے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ لڑکا اپنے ”پیار“ سے زیادتی کرتا ہے اور لڑکی اس لیے سہتی ہے کہ والدین کے گھر کے دروازے خود بند کرلیے اور اگر اس کا ساتھ چھوٹتا ہے تو بھری دنیا میں عورت ذات کس طرح رہے گی۔ گویا نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی صورتحال ہوتی ہے ۔
اس حوالے سے سنجیدہ دوست اپنا ”سنجیدہ“ حصہ ضرور ڈالیں ۔
 

ابن عادل

محفلین
”پیار کی شادی “ کے حوالے سے دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمیشہ سے شادی یا نکاح کا عمل ہر معاشرے میں ایک مضبوط رشتے اور دائمی رفاقت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ لہذا ہندومت میں شوہر کے ساتھ ستی ہوجانے کی روایت دراصل یہی احساس ہے ۔ دیگر معاشروں میں بھی ہمیں اس سے ملتی جلتی روایات ملتی ہیں ۔ صرف اسلام ہے جس نے اس تعلق کے حوالے سے متوازن انداز اپنایا ہے ۔ ان روایات سے احتلاف کے باوجود ان تمام روایات کے جاری ہونے کا سبب کیا ہے ؟
اس کا سبب جو مین سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ شادی یا نکاح کا عمل ہمیشہ سے ذمہ داری سمجھا گیا ہے ۔ جس طرح زندگی کے دیگر معاملات میں تجربہ کار لوگوں کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہیں ۔ اس طرح اس معاملے میں بھی کیا جائے ۔ یعنی اپنے والدین اور دیگر اہل حضرات کو اپنا وکیل بنانا ۔ کہ وہ زندگی کے گرم وسرد سے اولاد سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں ۔ حیرانی اس پر ہوتی ہے کہ والدین کو منبع عشق ومھبت بھی گردانا جائے اور انہی کی حواہشات کے علی الرغم زندگی کے معاملات استوار کیے جائیں ۔
مغرب نے جیسے چاہوجیو کا کلچر دے کر ہماری اس گھریلو زندگی پر کاری ضرب لگائی ہے ۔ اور نکاح کے عمل کو صرف عیش ولذت کے حصول کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔ نکاح وطلاق ایک فیشن بن گیا ہے ۔ بلکہ اسے نقصان کا سودا تصور کیا جاتا ہے کہ طلاق کی صورت میں کمائی برباد ہوجاتی ہے ۔
 
Top