ّ

ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے
یعنی تفہیم کی بستی میں سخن باقی ہے

گل تو مرجھا گئے عنوانِ چمن باقی ہے
اسکے بھیجے ہوئے تحفوں میں کفن باقی ہے

چھوڑ جاؤ گے تو جاؤ ہمیں حاجت بھی نہیں
ابھی دنیا میں پری خانہِ زن باقی ہے

سرحدِ تاشہِ تسکین تک آتی ہی نہیں
ایک خواہش جو میانِ تن و من باقی ہے

یہ اشارہ ہے، وضاحت نہیں کر پاؤں گا
خواہشِ لذتِ ابدالِ بدن باقی ہے

ہم تو سمجھے تھے کہ آزار سے آزاد ہوئے
وقتِ تدفین کھلا نقشِ محن باقی ہے

جو محبت کے جھکڑنے سے بنا ہے آسی
آج بھی روح پہ وہ نقشِ رسن باقی ہے

محمد ارتضیٰ آسی
 
آخری تدوین:
Top