وہ جس نے خود ہی بسایا تھا شہر خوابوں کا۔۔۔ (نظر فاطمی)

آج جانے کیوں مرحوم خیام قادری بے طرح یاد آرھاھے .شاید یہ وجہ بھی ھو کہ صبح ھی صبح کاغذات کو کھکھورتے ھوے کھتری ادبی سوسائٹی کے تحت مشاعروں کی روداد اور خیام کی چند غزلوں پر نگاہ پڑی تو پرانی یادیں تازہ ھو گئیں.
خیام... میرا دوست طرحدار و بے مثال کہ جسکے ساتھ دوستی اور شاعری کارشتہ تقریبا" ۱۰، سال پہ محیط رھا، شاعری، خیالات اور دوستوں میں ایک منفرد مقام و حیثیت رکھتا تھا.ادب سیاست اور مذھب اسکے پسندیدہ مضامین تھے. ان پر سیر حاصل گفتگو اور تعمیری بحث اس کا خاصہ تھا اپنے مخصوص انداز میں بحث کے دوران اس کا "کیا بات کرتے ھو" کہنا احباب آج تک نہیں بھولے. چورنگی اوپن فورم میں کم و بیش چھ سال اس طرح گذارے کہ رات ۱۱، بجے سے تقریبا" ۲، بجے تک محفل گل و گلزار نظر آتی تھی.جس رات کسی مجبوری کی بناء پر اس کی غیر حاضری ھوتی تو محسوس ھوتا تھا کہ آج محفل میں کچھ کمی ھے
مجھے اس کی رفاقت میں گزارا ہوا ہوا اپنا وقت اپنے انمول اوقات کا خزانہ معلوم ھوتا ھےاور میں ھی نہیں محفل کے ھر ساتھی کا یہی خیال ھے.
کھتری ادبی سوسائٹی کے زیر اھتمام مشاعروں کی ابتدا سے آخر تک مجھے نظامت کا فخر حاصل رھا. اسکی غزلوں کی تدوین و ترتیب کے ساتھ کتاب کی کمپوزنگ میں ھم دونوں رات ۳،۳،بجےتک نوک پلک درست کرتے تھے.
اور جب کتاب تکمیل کے آخری مراحل میں تھی تو پتہ چلا کہ خیام ..ھیپاٹائی ٹس جیسے موزی مرض کے آخری اسٹیج پر ھے جسے وہ اپنی قوت ارادی سے ۱۵، سال سے بغیر کسی کے علم میں لائے جھیل رھا تھا
بس وہ آخری چھ ماہ جس تکلیف میں اس نے گزارے اور ڈائی لا سس میں جن تکلیف دہ مراحل سے وہ گزرا یہ بیان سے باھر ھے لیکن ذرا سی طبعیت بحال ھونے پر دوستوں کی محفل میں آنا نہیں بھولتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ دوستوں میں آکر اپنے سارے درد و غم بھول جاتا ھوں شاید یہی وجہ تھی کے خیام کے بڑے بھائی فاروق جو اسکا ھر معاملے میں خیال رکھتے تھے اوپن فورم میں رات ۲،۲،بجے تک رھنے پر منع نہیں کرتے تھے بس کبھی کبھار رات دیر گئے ایک آدھ چکر لگا کر خیریت معلوم کر کے چلے جاتے تھے اس دوران بھی خیام کا رویہ ایسا ھوتا کہ جیسے کچھ ھوا ھی نہیں.
یہاں تک کہ آخری روز بھی محفل جمی تھی کہ خیام ....شریف کے ساتھ پہنچا اور پھر ادبی اور سیاسی اٹھکھیلیاں شروع ھوگئیں.یہ سب محض بیماری سے دھیان ھٹانے کے لیے کیا جارھا تھاکہ اچانک اس کی طبعیت نے رنگ بدلنا شروع کردیا دوستوں نے محسوس کیا ھر فرد نے اسے دلاسا دیا شریف کے ساتھ گھر روانہ کیا لیکن اسی رات تکلیف حدسے زیادہ بڑھ جانے پر فاروق بھائی اسے پٹیل ھسپتال لے گئے دوستوں کا تانتا بندھ گیا عامرشیخ، حسن علی امام، علی ارشد،حسیب، عدیل، عظیم، فرحان،احدیارخان،شعیب، طاھر عباس، سید فیاض علی اور دیگر احباب ھر لمحے ایکدوسرے کو دلاسہ دیتے رھے خیام سب سے اس طرح پیش آرھاتھا جیسے یہ سب روز مرہ کا معمول ھو لیکن چہرا بتارھا تھا کہ وہ اپنے مرض سے شدت کے ساتھ نبرد آزما ھے
آخری دن نیم بے ھوشی. میں گزرا.
اور دن ڈھلتے ڈھلتے......... خیام کی زندگی کا سورج بھی ڈھل گیا.......
ع....وہ جس نےخود ھی بسایا تھا شھر خوابوں کا
چلاگیا ھے مضافات سے گزرتا ھوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیام قادری ...کی ایک منفرد غزل خوبصورت قوافی اور ردیف کیساتھ ...
.............احباب کی نذر............
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھر طرف شھر میں نادیدہ فسوں.ھے یوں ھے
صاحب دار کو مطلوب جنوں ھے یوں ھے
شھر جاں سے ھوا آمادہء ھجرت غم بھی
ساتھ اشکوں کے رواں آنکھ سے خوں ھے یوں ھے
آنکھ کو اس کی کسی اورشناسائی کی ضد
دل مگر مجھ کو یہ سمجھائے کہ یوں
ھے یوں ھے
قریہء کن میں بھی ھے صاحب کن کا ھی جمال
زندگي خود بھی نثار فیکوں ھے یوں ھے
زخم اک اور ملا تیری مسیحائی سے
آج آشفتہ مزاجوں کو سکوں ھے یوں ھے
جانے کب دل کو محبت کا یقیں آجائے
ارتعاش رگ جاں اور فزوں ھے یوں ھے
خستہ حالوں پہ نئے غم کے ھیں سائے خیام
زندگی اور زبوں اور زبوں ھے یوں ھے
..........خیام قادری مرحوم .........


از: نظرفاطمی
مہنامہ صبحِ نو
 
Top