واعظ اوررند کا سیاسی منشور

nazar haffi

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
واعظ اوررند کا سیاسی منشور​
نذر حافی​
جہاں آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہو،صرف امن و امان کی بات نہیں ،اقتصاد اور تعلیم کو لیجئے یاصحافت اور سیاست کو،پولیس اور تھانوں کو لیجئے یا فوج اور بیرکوں کو،لاری اڈوں کو لیجئے یا قومی اسمبلی کے ہالوں کو ،درآمدات کو لیجئے یا برآمدات کو،آپ کو ہر طرف خسارے ،نْقصان اور بدگمانیوں کا دوردورہ ہی نظر آئے گا۔
اس خسارے نقصان اور بد گمانی سے نکالنے کا راستہ ہماری سیاسی و دینی تنظیموں نے کچھ اس طرح سے نکالاہے کہ ہمیں ذہنی طور پر مزید غلام بنایاجارہاہے۔عوام کو کہا جارہاہے کہ ہم آپ کو بجلی ترکی سے،پانی انڈیا سے،گیس ایران سے،نصابِ تعلیم آکسفورڈ اور کیمرج سے،نظریات سعودی عرب اور لندن سے،ہتھیار چین اور روس سے،قرض آئی ایم ایف سے اور گندم امریکہ سے لے کردیں گے۔بس کھائیں پیئیں اور عیش کریں۔
کوئی بھی اس ملت کو یہ نہیں کہہ رہاکہ۔۔۔ ہم تمہیں مشرق و مغرب کی غلامی سے نجات دلا ئیں گے،ہم غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے ہی معدنی وسائل کوبروئے کار لائیں گے،ہماری ہی زمینیں فصلیں اگائیں گی،ہمارے ہی دریا بجلی پیدا کریں گے،ہمارے ہی گیس کے ذخائر ہماری معیشت کو حیاتِ نو بخشیں گے،اب ہماری بنجر زمینیں سیراب ہوجائیں گی،ہمارے ہی علماء کرام اور ماہرینِ تعلیم بیٹھ کر اپنی نئی نسل کے لئے نصابِ تعلیم تشکیل دیں گے اور ہمارے ہی سیاستدان ہمیں صنعت و حرفت میں بامِ ثریّا تک پہنچادیں گے۔
عرصہ دراز ہوگیا کہ ہم خدا وندِ عالم کی مدد و نصرت اور اپنی توانائیوں،صلاحیتوں،معدنی وسائل،علماکرام اور سائنسدانوں کو نظر انداز کرکے دیگر ممالک سے اپنی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اور دوسری اقوام سے خیرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
ابھی چند روز پہلےایک تحقیقاتی ادارے نے پاکستان کے معدنی وسائل کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی جسے ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے نشر بھی کیا ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس رپورٹ میں کھربوں ڈالرز کی مالیت کے معدنی ذخائر کے جو اعدا دو شمار بتائے ہیں وہ آن دی ریکارڈ ہیں ۔ ان اعدادو شمار کے اعتبار سےمعدنیات کے ذخائر میں پاکستان کی رینکنگ پہلے دس بڑے ممالک میں ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان میں دنیا میں کوئلے کے چوتھے بڑ ے ذخائر ہیں جن کی مالیت پچیس کھرب ڈالرز بتائی جاتی ہے۔ جو کہ باقاعدہ ریکارڈ پر ہیں۔ سونے اور تانبے کے ذخائر میں پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے۔ جن کی مالیت کا اندازہ دو ہزار پانچ سو ارب ڈالرز ہے۔ قیمتی پتھروں میں سنگ مر مر میں پاکستان آ ٹھویں نمبر پہ جبکہ پکھراج جسے اوپل بھی کہا جاتا ہے پانچویں نمبر پہ ہے۔ ایکسپورٹ میں پاکستان فٹ بال بنانے والا چند سال پہلے، نمبر ایک پر تھا اب دوسرے نمبر پہ ہے۔ اب پہلے نمبر پہ چائنہ ہے۔
کپڑے کی صنعت میں پاکستان آٹھویں نمبر پر جبکہ کپاس کی پیدا وار میں چوتھے نمبر پہ ہے۔ اسی طرح کاشتکاری میں پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ گندم پیدا کرنے میں ہمارا پیارا وطن چھٹے نمبر پہ ہے۔ گنے کی کاشت میں پانچویں نمبر پہ اور پھلوں میں کنوں کی کاشت میں اول نمبر پہ اور کھجوروں کی کاشت میں پاکستان چوتھے نمبر پہ ہے۔ اور یہاں کی کھجور اتنی اعلیٰ ہے کہ عرب بادشاہ یہاں سے بیج نہیں درختوں کےدرخت اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور کھجوروں کی کاشت میں اب باقاعدہ پاکستان کے مقابل پر آ گئے ہیں۔
خشک میوہ جات میں پاکستان بادام کی پیدا وارمیں ساتویں نمبر پہ اور پستوں میں دسویں نمبر پہ ہے۔ اسی طرح سبزیوں میں پیاز کی پیدا وار میں دوسرا بڑا ملک ہے اور انڈیا کو بھی برآمد کرتا ہے۔
قا رئین آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ برقی توانائی کا بحران دور کرنے کے لیے پاکستان نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ سرے سے پاکستان کو یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مثلا صرف شمسی توانائی سے پاکستانن بیس لاکھ میگا واٹس بجلی پیدا کر سکتا ہے اور خدا کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو نہایت مفید موسم عطا فرما رکھے ہیں۔ جن میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہوا کی ہے۔ قرآن پاک میں ہوا کا ذکر ہے جس میں معاشی منفعت ہے۔ پاکستان ہوائی چکی یعنی ونڈ مل سے ساڑھے تین لاکھ میگا واٹس بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ مکران کے ساحل اس کے لیے بہت زرخیز ہیں۔
پھر تیسرے نمبر پہ سب سے سستا ذریعہ یعنی ہائیڈن انرجی ہے۔ جس کو برو ئے کار لاتے ہوئے ایک لاکھ میگا و اٹس بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جبکہ ضرورت صرف بیس ہزار میگا واٹس کی ہے۔ اس کے مطابق صارفین کو پچاس سے ساٹھ پیسے فی یونٹ بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ پروگرام میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک وقت تھا کہ نواب آف بہالپور عربو ں کو زکوۃ بھیجتے تھے۔ اور یہ کہ جس قدر سنگ مر مر اور دوسرے وسائل پاکستان میں موجود ہیں اگر ان کو صحیح طور پہ استعمال کیا جائے تو پاکستان میں روزگار کے اتنے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں کہ ہمیں باہر سے لوگوں کو ملازم رکھنا پڑ جائے اور لوگ پاکستان آنے کے لیے ویزے اور راہیں تلاش کرنے لگیں۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ پاکستان میں معدنیات کے نئے ذخائر کی کھوج اور ان کی ترقی کی رفتار محض 15 فیصد ہے۔پاکستان کے معدنی وسائل کے بارے میں صوبائی حکومت اور پشاور یونیورسٹی کےجیولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ایک تازہ سروے کے مطابق اگر قبائلی علاقہ جات میں پائے جانے والے معدنی وسائل سے استفادہ کیا جائے تو اس سے آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ حاصل ہو جائے گا۔ جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے ذخائر کی مقدار ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔بجائے اس کے کہ ہم ان معدنی وسائل سے فائدہ اٹھائیں ان علاقوں کو میدانِ جنگ بنا دیا گیاہے۔ماہرین نے اب تک قبائلی علاقوں میں 19 ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر میں تانبا (کاپر)، میگنیز، کرومائٹ، خام لوہا (آئرن اور)، لیڈ، بریشم سلفیٹ (بارائٹ)، سوپ سٹون، کوئلہ، جپسم، لائم سٹون، سنگ مرمر(ماربل)، ڈولومائٹ (موتی بلور)، فیلڈسپار، کواٹرز، سیلیکا سین، بینٹونائٹ، مارل، ایمریلڈ (زمرد) اور گرافائٹ (سرمان) جیسی قیمتی و نیم قیمتی دھاتیں و عناصر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں پائے جانے والے ہائیڈرو کاربن میں تیل اور گیس بھی شامل ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کے مختلف مقامات پر اَسی لاکھ سے پانچ کروڑ ٹن تک حجم کے ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر کا علم جیولوجیکل میپنگ، جیولوجیکل سروے، جیوفزیکل سروے اور سات ہزار فٹ تک کور ڈرلنگ (کھدائی) سے ہوگیا ہے ماہرین نے ان حقائق کو دستاویزات کی صورت بھی مرتب بھی کرلیا ہے۔
اسی طرح چند ماہ پہلےکراچی میں ہونیوالی جیم اینڈ جیولری نمائش میں شریک بلوچستان، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے تاجروں اور ایکسپورٹرز نے ایکسپریس کو بتایا کہ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں دنیا کے بہترین قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم یہ ذخائر آج بھی 200سال پرانے طریقے سے بارود کے ذریعے دھماکہ کرکے نکالے جاتے ہیں جن سے 95فیصد ذخائر ضائع ہوتے ہیں اور صرف 5فیصد پتھر ہی حاصل ہوتا ہے جو بغیر کسی ویلیو ایڈیشن کے 100فیصد خام شکل میں فروخت کیا جاتا ہے۔
اب تھر میں کوئلے کے ذخائر کے بارے میں ایک مستند رپورٹ ملاحظہ کریں،اس رپورٹ کےمطابق اگر سعودی عرب اور ایران کے تیل کے ذخائر کو اکٹھا کیا جائے تو یہ مقدار 375 بیلین بیرل بنتی ہےجبکہ صرف تھر کے کوئلے کے ذخائر 850 ٹریلین کیوبک فٹ ہیں جو سعودیہ اور ایران کے ذخائر سے کہیں زیادہ ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے قدرتی گیس کے زخائر جو کہ 28 ٹریلین کیوبک فٹ ہیں یہ زخائر ایران اور سعودی عرب سے سے30گنازیادہ ہیں۔ ڈاکٹر مرتضہ مغل President of Pakistan Economy Watch نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ ذخائر تقریباً 25 ٹریلین امریکی ڈالرز کی مالیت کے ہیں۔ نا صرف ان ذخائر سے ملک میں‌بجلی کی پیداوار کو آنے والے سو سال کے لئے مستحکم کیا جاسکتا ہے بلکہ چار بلین ڈالر کی بچت بھی کی جاسکتی ہے جو کہ تیل کی برآمدات پر خرچ کیے جاتے ہیںِ۔
ان کوئلے کے ذخائر کے صرف 2فیصد استعمال سے بجلی کی 20000 میگا والٹ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے اور وہ بھی چالیس سال تک کی طویل مدت تک بغیر کسی لوڈ شیڈنگ کے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگائیں کہ ٹوٹل ذخائر سے کتنی اینرجی پروڈیوس کی جاسکتی ہے۔
کوئلے کے زخائر سے جو بجلی پیدا کی جائے گی وہ 67۔5 پاکستانی روپے فی یونٹ ہوگی۔ جبکہ اسکے علاوہ بجلی کے پیداواری منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی 72۔9 روپے فی یونٹ ہے۔ اس پیداوار کے حصول کے لیے صرف 420 بیلین پاکستانی روپے درکار ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان میں 1220 بلین روپے صرف ٹیکس کی مد میں سالانہ وصول کیے جاتے ہیں۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ اس ضمن میں بہت سارے ٹھوس شواہد منظرِ عام پر موجود ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ دہشت گردی،مہنگائی یا اقتصاد نہیں ہے بلکہ ہمارا اصل مسئلہ قومی آزادی ،ملکی خود مختاری اور حقیقی و معنوی استقلال کا ہے۔
ابھی تک ہم نے جتنے بھی واعظ احباب اور رند حضرات کے انتخابی و سیاسی منشور دیکھے ہیں ان کے حوالے سے یہی کہا جاسکتاہے کہ
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت ۔۔۔۔۔ فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی اس عزم کا اظہار نہیں کیا کہ ہم نے جس طرح مشرق و مغرب سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف توحید کی طاقت سے پاکستان بنایا تھا ہم اسی طرح آج بھی لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ بلند کر کے توحید کی طاقت سے ہی پاکستان کو ایک مستقل اسلامی ریاست بنائیں گے ۔
پاکستان کی مشکلات کا حل "ایک مستقل اسلامی جمہوریہ"ہی ہے۔استقلال کے سواہر شاہراہ غلامی اور بد حالی کی طرف جاتی ہے۔
جس قوم کو روٹی کے لئے بھیک ،چھت کے لئے خیرات اور چلنے کے لئے کے بیساکھیوں کی عادت ڈال دی جائے انتخابات اس کا مقدر تبدیل نہیں کرسکتے۔
واعظ اور رند کی سیاست میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔کوئی ایک تو اس ملت کو استقلال اور حقیقی آزادی کی طرف لے جانے کی بات کرے۔
 
یہی پوسٹ جمیل نوری نستعلیق میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
واعظ اوررند کا سیاسی منشور​
نذر حافی​
جہاں آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہو،صرف امن و امان کی بات نہیں ،اقتصاد اور تعلیم کو لیجئے یاصحافت اور سیاست کو،پولیس اور تھانوں کو لیجئے یا فوج اور بیرکوں کو،لاری اڈوں کو لیجئے یا قومی اسمبلی کے ہالوں کو ،درآمدات کو لیجئے یا برآمدات کو،آپ کو ہر طرف خسارے ،نْقصان اور بدگمانیوں کا دوردورہ ہی نظر آئے گا۔
اس خسارے نقصان اور بد گمانی سے نکالنے کا راستہ ہماری سیاسی و دینی تنظیموں نے کچھ اس طرح سے نکالاہے کہ ہمیں ذہنی طور پر مزید غلام بنایاجارہاہے۔عوام کو کہا جارہاہے کہ ہم آپ کو بجلی ترکی سے،پانی انڈیا سے،گیس ایران سے،نصابِ تعلیم آکسفورڈ اور کیمرج سے،نظریات سعودی عرب اور لندن سے،ہتھیار چین اور روس سے،قرض آئی ایم ایف سے اور گندم امریکہ سے لے کردیں گے۔بس کھائیں پیئیں اور عیش کریں۔
کوئی بھی اس ملت کو یہ نہیں کہہ رہاکہ۔۔۔ ہم تمہیں مشرق و مغرب کی غلامی سے نجات دلا ئیں گے،ہم غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے ہی معدنی وسائل کوبروئے کار لائیں گے،ہماری ہی زمینیں فصلیں اگائیں گی،ہمارے ہی دریا بجلی پیدا کریں گے،ہمارے ہی گیس کے ذخائر ہماری معیشت کو حیاتِ نو بخشیں گے،اب ہماری بنجر زمینیں سیراب ہوجائیں گی،ہمارے ہی علماء کرام اور ماہرینِ تعلیم بیٹھ کر اپنی نئی نسل کے لئے نصابِ تعلیم تشکیل دیں گے اور ہمارے ہی سیاستدان ہمیں صنعت و حرفت میں بامِ ثریّا تک پہنچادیں گے۔
عرصہ دراز ہوگیا کہ ہم خدا وندِ عالم کی مدد و نصرت اور اپنی توانائیوں،صلاحیتوں،معدنی وسائل،علماکرام اور سائنسدانوں کو نظر انداز کرکے دیگر ممالک سے اپنی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اور دوسری اقوام سے خیرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
ابھی چند روز پہلےایک تحقیقاتی ادارے نے پاکستان کے معدنی وسائل کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی جسے ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے نشر بھی کیا ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس رپورٹ میں کھربوں ڈالرز کی مالیت کے معدنی ذخائر کے جو اعدا دو شمار بتائے ہیں وہ آن دی ریکارڈ ہیں ۔ ان اعدادو شمار کے اعتبار سےمعدنیات کے ذخائر میں پاکستان کی رینکنگ پہلے دس بڑے ممالک میں ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان میں دنیا میں کوئلے کے چوتھے بڑ ے ذخائر ہیں جن کی مالیت پچیس کھرب ڈالرز بتائی جاتی ہے۔ جو کہ باقاعدہ ریکارڈ پر ہیں۔ سونے اور تانبے کے ذخائر میں پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے۔ جن کی مالیت کا اندازہ دو ہزار پانچ سو ارب ڈالرز ہے۔ قیمتی پتھروں میں سنگ مر مر میں پاکستان آ ٹھویں نمبر پہ جبکہ پکھراج جسے اوپل بھی کہا جاتا ہے پانچویں نمبر پہ ہے۔ ایکسپورٹ میں پاکستان فٹ بال بنانے والا چند سال پہلے، نمبر ایک پر تھا اب دوسرے نمبر پہ ہے۔ اب پہلے نمبر پہ چائنہ ہے۔
کپڑے کی صنعت میں پاکستان آٹھویں نمبر پر جبکہ کپاس کی پیدا وار میں چوتھے نمبر پہ ہے۔ اسی طرح کاشتکاری میں پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ گندم پیدا کرنے میں ہمارا پیارا وطن چھٹے نمبر پہ ہے۔ گنے کی کاشت میں پانچویں نمبر پہ اور پھلوں میں کنوں کی کاشت میں اول نمبر پہ اور کھجوروں کی کاشت میں پاکستان چوتھے نمبر پہ ہے۔ اور یہاں کی کھجور اتنی اعلیٰ ہے کہ عرب بادشاہ یہاں سے بیج نہیں درختوں کےدرخت اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور کھجوروں کی کاشت میں اب باقاعدہ پاکستان کے مقابل پر آ گئے ہیں۔
خشک میوہ جات میں پاکستان بادام کی پیدا وارمیں ساتویں نمبر پہ اور پستوں میں دسویں نمبر پہ ہے۔ اسی طرح سبزیوں میں پیاز کی پیدا وار میں دوسرا بڑا ملک ہے اور انڈیا کو بھی برآمد کرتا ہے۔
قا رئین آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ برقی توانائی کا بحران دور کرنے کے لیے پاکستان نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ سرے سے پاکستان کو یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مثلا صرف شمسی توانائی سے پاکستانن بیس لاکھ میگا واٹس بجلی پیدا کر سکتا ہے اور خدا کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو نہایت مفید موسم عطا فرما رکھے ہیں۔ جن میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہوا کی ہے۔ قرآن پاک میں ہوا کا ذکر ہے جس میں معاشی منفعت ہے۔ پاکستان ہوائی چکی یعنی ونڈ مل سے ساڑھے تین لاکھ میگا واٹس بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ مکران کے ساحل اس کے لیے بہت زرخیز ہیں۔
پھر تیسرے نمبر پہ سب سے سستا ذریعہ یعنی ہائیڈن انرجی ہے۔ جس کو برو ئے کار لاتے ہوئے ایک لاکھ میگا و اٹس بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جبکہ ضرورت صرف بیس ہزار میگا واٹس کی ہے۔ اس کے مطابق صارفین کو پچاس سے ساٹھ پیسے فی یونٹ بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ پروگرام میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک وقت تھا کہ نواب آف بہالپور عربو ں کو زکوۃ بھیجتے تھے۔ اور یہ کہ جس قدر سنگ مر مر اور دوسرے وسائل پاکستان میں موجود ہیں اگر ان کو صحیح طور پہ استعمال کیا جائے تو پاکستان میں روزگار کے اتنے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں کہ ہمیں باہر سے لوگوں کو ملازم رکھنا پڑ جائے اور لوگ پاکستان آنے کے لیے ویزے اور راہیں تلاش کرنے لگیں۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ پاکستان میں معدنیات کے نئے ذخائر کی کھوج اور ان کی ترقی کی رفتار محض 15 فیصد ہے۔پاکستان کے معدنی وسائل کے بارے میں صوبائی حکومت اور پشاور یونیورسٹی کےجیولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ایک تازہ سروے کے مطابق اگر قبائلی علاقہ جات میں پائے جانے والے معدنی وسائل سے استفادہ کیا جائے تو اس سے آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ حاصل ہو جائے گا۔ جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے ذخائر کی مقدار ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔بجائے اس کے کہ ہم ان معدنی وسائل سے فائدہ اٹھائیں ان علاقوں کو میدانِ جنگ بنا دیا گیاہے۔ماہرین نے اب تک قبائلی علاقوں میں 19 ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر میں تانبا (کاپر)، میگنیز، کرومائٹ، خام لوہا (آئرن اور)، لیڈ، بریشم سلفیٹ (بارائٹ)، سوپ سٹون، کوئلہ، جپسم، لائم سٹون، سنگ مرمر(ماربل)، ڈولومائٹ (موتی بلور)، فیلڈسپار، کواٹرز، سیلیکا سین، بینٹونائٹ، مارل، ایمریلڈ (زمرد) اور گرافائٹ (سرمان) جیسی قیمتی و نیم قیمتی دھاتیں و عناصر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں پائے جانے والے ہائیڈرو کاربن میں تیل اور گیس بھی شامل ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کے مختلف مقامات پر اَسی لاکھ سے پانچ کروڑ ٹن تک حجم کے ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر کا علم جیولوجیکل میپنگ، جیولوجیکل سروے، جیوفزیکل سروے اور سات ہزار فٹ تک کور ڈرلنگ (کھدائی) سے ہوگیا ہے ماہرین نے ان حقائق کو دستاویزات کی صورت بھی مرتب بھی کرلیا ہے۔
اسی طرح چند ماہ پہلےکراچی میں ہونیوالی جیم اینڈ جیولری نمائش میں شریک بلوچستان، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے تاجروں اور ایکسپورٹرز نے ایکسپریس کو بتایا کہ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں دنیا کے بہترین قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم یہ ذخائر آج بھی 200سال پرانے طریقے سے بارود کے ذریعے دھماکہ کرکے نکالے جاتے ہیں جن سے 95فیصد ذخائر ضائع ہوتے ہیں اور صرف 5فیصد پتھر ہی حاصل ہوتا ہے جو بغیر کسی ویلیو ایڈیشن کے 100فیصد خام شکل میں فروخت کیا جاتا ہے۔
اب تھر میں کوئلے کے ذخائر کے بارے میں ایک مستند رپورٹ ملاحظہ کریں،اس رپورٹ کےمطابق اگر سعودی عرب اور ایران کے تیل کے ذخائر کو اکٹھا کیا جائے تو یہ مقدار 375 بیلین بیرل بنتی ہےجبکہ صرف تھر کے کوئلے کے ذخائر 850 ٹریلین کیوبک فٹ ہیں جو سعودیہ اور ایران کے ذخائر سے کہیں زیادہ ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے قدرتی گیس کے زخائر جو کہ 28 ٹریلین کیوبک فٹ ہیں یہ زخائر ایران اور سعودی عرب سے سے30گنازیادہ ہیں۔ ڈاکٹر مرتضہ مغل President of Pakistan Economy Watch نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ ذخائر تقریباً 25 ٹریلین امریکی ڈالرز کی مالیت کے ہیں۔ نا صرف ان ذخائر سے ملک میں‌بجلی کی پیداوار کو آنے والے سو سال کے لئے مستحکم کیا جاسکتا ہے بلکہ چار بلین ڈالر کی بچت بھی کی جاسکتی ہے جو کہ تیل کی برآمدات پر خرچ کیے جاتے ہیںِ۔
ان کوئلے کے ذخائر کے صرف 2فیصد استعمال سے بجلی کی 20000 میگا والٹ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے اور وہ بھی چالیس سال تک کی طویل مدت تک بغیر کسی لوڈ شیڈنگ کے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگائیں کہ ٹوٹل ذخائر سے کتنی اینرجی پروڈیوس کی جاسکتی ہے۔
کوئلے کے زخائر سے جو بجلی پیدا کی جائے گی وہ 67۔5 پاکستانی روپے فی یونٹ ہوگی۔ جبکہ اسکے علاوہ بجلی کے پیداواری منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی 72۔9 روپے فی یونٹ ہے۔ اس پیداوار کے حصول کے لیے صرف 420 بیلین پاکستانی روپے درکار ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان میں 1220 بلین روپے صرف ٹیکس کی مد میں سالانہ وصول کیے جاتے ہیں۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ اس ضمن میں بہت سارے ٹھوس شواہد منظرِ عام پر موجود ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ دہشت گردی،مہنگائی یا اقتصاد نہیں ہے بلکہ ہمارا اصل مسئلہ قومی آزادی ،ملکی خود مختاری اور حقیقی و معنوی استقلال کا ہے۔
ابھی تک ہم نے جتنے بھی واعظ احباب اور رند حضرات کے انتخابی و سیاسی منشور دیکھے ہیں ان کے حوالے سے یہی کہا جاسکتاہے کہ
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت ۔۔۔ ۔۔ فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی اس عزم کا اظہار نہیں کیا کہ ہم نے جس طرح مشرق و مغرب سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف توحید کی طاقت سے پاکستان بنایا تھا ہم اسی طرح آج بھی لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ بلند کر کے توحید کی طاقت سے ہی پاکستان کو ایک مستقل اسلامی ریاست بنائیں گے ۔
پاکستان کی مشکلات کا حل "ایک مستقل اسلامی جمہوریہ"ہی ہے۔استقلال کے سواہر شاہراہ غلامی اور بد حالی کی طرف جاتی ہے۔
جس قوم کو روٹی کے لئے بھیک ،چھت کے لئے خیرات اور چلنے کے لئے کے بیساکھیوں کی عادت ڈال دی جائے انتخابات اس کا مقدر تبدیل نہیں کرسکتے۔
واعظ اور رند کی سیاست میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔کوئی ایک تو اس ملت کو استقلال اور حقیقی آزادی کی طرف لے جانے کی بات کرے۔
 
Top