وادی ِ پُرخار

خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
قسم ہے بُرجوں والے آسمان کی۔ قسم ہے اُس دن کی جس کا وعدہ کیا گیاہے۔ قسم ہے گواہی دی گئی۔ مارے گئے خندوقوں والے، آگ کی خندقیں جن میں انہوں نے بہت سا ایندھن جھونک رکھا تھا۔ اور وہ خندقوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اہل ایمان کے ساتھ جو (ظلم و ستم) وہ کررہے تھے اُس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ اہل ِایمان کی اس بات سے برافروختہ تھے کہ وہ اُس خداپر ایمان لے آئےتھے جو زبردست اور سزاوار حمد ہے۔ اور اُس کی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمینوں کی، اور اللہ ہر چیز کے حال سے واقف ہے۔ بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذائیں دیں اور پھر توبہ نہ کی ان کے لیے جہنّم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔ البتّہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اُن لے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ بے شک تیرے رب کی گرفت بڑی سخت ہے۔ وہی ہے جو اوّل پیدا کرتا ہے اور وہی ہے جو (قیامت کے روز) دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا اور محّبت کرنے والا ہے۔ عرش کا مالک ہے اور عالی شان والا ہے۔ جو چاہتاہے کرگزرتاہے۔
البروج (1-16)
قصہ اصحاب الاخدود کے اسباق
اصحاب الاخدود کا قصّہ، جو سورۃالبروج میں بیان ہواہے، اس لائق ہے کہ اس پر وہ تمام اہل ایمان غوروتدبّرکریں جو دنیا کے کسی بھی خطّے میں تاریخ کے سی بھی عہد میں دعوت الی اللہ کا کام کررہے ہوں۔ قرآن نے اس قصّہ کو جِس طرح بیان کیا ہے، جس انداز سے اس کی تہمید قائم کی ہے اور پھر اس پر جو تبصرے کیے ہیں اور ساتھ ساتھ جو تعلیمات اور فیصلے بیان کیے ہیں ان سب باتوں کے ذریعے قرآن نے درحقیقت وہ بنیادی خطوط اجاگر کیے ہیں جو دعوت الی اللہ کی فطرت، اس دعوت کے بارے میں انسانوں کے رویّے اور ان امکانی حالات کی نشان دہی کرتے ہیں جو اس دعوت کی وسیع دنیا میں۔۔ جس کا رقبہ کرہ ارضی سے زیادہ وسیع اور جس کا عرصہ دنیاوی زندگی سے زیادہ طویل ہے۔۔ پیش اسکتے ہیں۔ قرآن نے اس قصہ میں اہلِ ایمان کے سامنے اُن کے راستے کے نمایاں نقوش بھی واضح کردیے ہیں، اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اس راہ میں پیش آنے والی ہر امکانی مصیبت کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کریں جو پردہٓغیب میں مستوروپنہاں، حکمتِ خداوندی کےتحت تقدیر کے طرف سے صادر ہو ۔

مزید پڑہیے
http://www.quran.or.kr/urdu/urdutxt/wadi_purkhar.htm
 
وادی پرخار

وادیٓ پُرخار-3

اس معرکے میں کس کو فتح ہو‌‌ئی
دنيا کے پيمانے سے اگر ديکھا جائےتو معلوم ہوگا کہ ظلم نے عقيدہ پر فتح پائي اور صالح و صابر اور خدا پرست گروہ کي ايماني قوت جو بلاشبہ تقطہ کمال تک پہنچ چکي تھي اس ظلم و ايمان کے معرکے ميں بے وزن و بےوقعت ثابت ہوئی۔ نہ قرآن ہی یہ بتاتا ہے اور نہ روایات ہی یہ بتاتی ہیں جو اس واقعہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کو بھی ان کے جرم شدید کی اسی طرح سزادی ہو، جس طرح قوم نوح علیہ سلام، قوم ہود ، قوم صالح، قوم شعیب اور قوم لوط علیہ سلام کو دی ہے یا جس طرح فرعون اور اس کے لشکریوں کو پوری قاہرانہ و مقتدرانہ شان کے ساتھ پکڑا تھا۔۔۔۔ گویا دنیا پرست کے نقطہ نظر سے اس واقعہ کا اختتام بڑا افسوس ناک و الم انگیز ہے۔
مگر کیا بات صرف پر ختم ہو جاتی ہے؟ کیا ایمان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جانےوالی خداپرست جماعت ان زہرہ گداز آلام کے نتیجے میں آگ کی خندقوں میں راکھ بن کر ملیامیٹ ہوگئی اور گروہ مجرمین جو رذالت اور کمینگی کی آخری حد کو پھلانگ چکا تھا، وہ دنیا میں سزا سے صاف بچ گیا۔ جہاں تک دنیاوی حساب کا تعلق ہے اس افسوسناک خاتمے کے بارے میں دل میں کچھ خلش سی اٹھتی ہے۔ مگر قرآن اہل ایمان کو ایک دوسری نوعیت کی تعلیم دیتا ہے اور ان کے سامنے ایک اور ہی حقیقت کی پردہ کشائی کرتاہے۔ وہ ان کو ایک نیا پیمانہ دیتا ہے جس سے وہ اشیا کا صحیح وزن جانچ سکیں اور حق و باطل کے جن معرکوں سے وہ دوچار ہوتے ہیں ان کی اصل حقیقت اور اصل میدان سے اگاہ ہوسکیں۔

کامیابی کا اصل معیار
دنیا کی زندگی اور اس کی آسائشیں اور تکلیفیں، کامرانیاں اور محرومیاں ہی کارزار حیات میں فیصلہ کُن نہیں ہیں۔ یہی وہ مال نہیں ہے جو نفع اور نقصان کا حساب بتا سکے۔ نصرت صرف ظاہری غلبہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نصرت کی بے شمار صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ اللہ کی میزان فیصلہ میں اصل وزن عقیدہ کا ہے۔ اور نصرت کی اعلیٰ ترین شکل یہ ہے کہ روح مادہ پر غالب آجائے، عقیدہ کو رنج و محن پر کامیابی ہو اور آزمائش کے مقابلے میں ایمان فتح یاب ہوجائے۔۔۔ چنانچہ اصحاب الاخدود کے واقعہ میں اہل ایمان کی روح نے خوف و کرب پر دنیا کی ترغیبات پر، زندگی کی محبت پر اور کڑی آزمائش پر وہ عظیم فتح پائی ہے کہ رہتی دنیا تک وہ بنی نوع انسان کے لیے طرہ افتخار رہے گی۔ ۔۔ یہی ہے اصل کامیابی۔
جاری--
 
وادی پرخار - 4-گزشتہ سے پیوستہ

--گزشتہ سے پیوستہ--
مومن کی موت بجائے خود اعزاز ہے
سب انسان موت کی آغوش میں جاتے ہیں۔ مگر اسباب موت مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن سب انسانوں کو یہ کامیابی نصیب نہیں ہوتی، نہ سب اونچا معیار ایمان پیش کرسکتے ہیں، نہ ہی اس حد تک کامل آزادی حاصل کرسکتے ہیں، نہ ہی اتنے اونچے افق تک پرواز کرسکتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہوتا ہے کہ وہ ایک مبارک گروہ کو اپنے بندوں میں سے چھانٹ لیتا ہے جو مرنے میں تو دوسرے انسانوں کے ساتھ شریک ہوتا ہے مگر ایسا شرف و اعزاز اس کو نصیب ہوتا ہے جو دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا۔۔۔ یہ شرف و اعزاز اّسے ملأ اعلیٰ میں ملتا ہے۔ بلکہ اگر پے درپے آنے والی انسانی نسلوں کے نقطہ نظر کو بھی حساب میں شامل کرلیں تو خود دنیا کے اندر بھی ایسا مبارک گروہ شرف و اعزاز کا مرتبہ بلند حاصل کرلیتا ہے۔

ان مومنین نے انسانی نسل کی لاج رکھی ہے

مومنین ایمان ہار کر اپنی جانوں کو بچاسکتے تھے۔ لیکن اس میں خود ان کا اپنا کتنا خسارہ ہوتا اور پوری انسانیت کو کس قدر خسارہ پہنچتا! یہ کتنا بڑاخسارہ تھا کہ اگر وہ اس روشن حقیقت کو پامال کردیتے کہ زندگی ایمان سے خالی ہو تو وہ ایک کوڑی کی بھی نہیں رہتی، نعمت آزادی سے تہی ہو تو قابل نفرین ہے اور اگر ظالم و نافرمان لوگ اس حد تک جری ہوجائیں کہ جسموں پر تسلّط حاصل کرنے کے بعد دلوں اور رُوحوں پر بھی حکمرانی کرنے لگیں تو یہ زندگی کی انتہائی گراوٹ ہے!! یہ پاکیزہ وارفع حقیقت ہے جسے اہل ایمان نے اسی وقت پالیا تھاجب کہ وہ ابھی دنیا میں موجود تھے، جب کہ آگ ان کے جسموں کو چھُورہی تھی تو وہ اسی عظیم حقیقت اور پاکیزہ اصول پر کاربند تھے۔ ان کے فانی جسم آگ سے جل رہے تھے اور یہ عظیم اور پاکیزہ اصول کامیابی کالوہا منوارہا تھا بلکہ آگ اسے مزید نکھار کر کندن بنارہی تھی۔

جاري ہے*****
 
وادی پرخار 4(گزشتہ سے پیوستہ)

حق و باطل کی کشمکش کا فریق اور میدان

حق و باطل کے معرکہ کا میدان صرف اس دنیا کا اسٹیج نہیں ہے۔ اور زندگی صرف اسی دنیاوی زندگی کا نام نہیں ہے، شرکأے معرکہ صرف وہ لوگ ہی نہیں ہیں جو اس نسل سے تعلق رکھتے ہوں جس میں معرکہ برپا ہو۔ دنیا کے تمام واقعات میں خود ملأاعلیٰ شریک ہوتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان پر گواہ رہتے ہیں۔ انہیں اس میزان میں تولتے ہیں جو کسی خاص وقت اور نسل کی دنیاوی میزان سے مختلف ہوتی ہے، بلکہ پوری نسل انسانی کی میزانوں سے وہ مختلف ہے۔ ایک وقت میں زمین پر جتنے انسان پائے جاتے ہیں ملأاعلیٰ اُس سے کئی گُنا زیادہ مبارک ارواح پر مشتمل ہیں ۔ پس بلاشبہ لشکر حق پر ملأاعلیٰ کی ستائش و تکریم اہل دنیا کے فیصلوں، اندازوں اور عزت افزائیوں سے کہیں زیادہ عظیم اور وزنی ہوتی ہے۔

ان تمام مراحل کے بعد آخرت بھی ہے ۔ یہ اصل اور فیصلہ کُن میدان ہے۔ دنیا کا اسٹیج اس میدان سے متصل ہے، منفصل نہیں ہے ، امر واقع کے اعتبار سے بھی اور مومن کے احساس و شعور کے لحاظ سے بھی۔ پس معرکہ حق و باطل دنیا کے اسٹیج پر ہی نہیں تمام ہو جاتا، اس کے حقیقی خاتمہ کا مرحلہ تو ابھی ایا ہی نہیں۔ دنیا کے اسٹیج پر اس معرکہ کا جو حصہ پیش کیا گیا ہے صرف اُس پر کوئی حکم لگانا صحیح اور منصفانہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا اطلاق معرکہ کے صرف چند معمولی ادوار پر ہوگا۔

اہل ایمان کے انعامات
پہلی قسم کی نگاہ (جس جے نزدیک ہر چیز کا فیصلہ دنیا کے اسٹیج پر ہی ہو جاتا ہے)کوتاہ، سطح بین اور محدود ہے۔ یہ عجلت پسند انسان کی نگاہ ہے۔ دوسری قسم کی نگاہ دُور اندیش، حقیقت شناس، جامع اور وسیع تر ہے۔ قرآن اہل ایمان کے اندر یہی نگاہ پیدا کرتا ہے۔ یہی نگاہ اس حقیقت کی صحیح ترجمان ہے جس پر صحیح ایمانی تصور کی عمارت قائم ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعا لیٰ نے اہل ایمان سے ایمان و اطاعت میں ثابت قدم رہنے، آزمائش و امتحان میں کامیاب اُترنے اور زندگی کی فتنہ پردازیوں پر فتح پانے پر جس صلہ و ایمان کا
وعدہ فرمارکھا ہے، وہ اہل ایمان کے لیے طمانیت قلب کا سامان فراہم کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ آگاہ رہو، اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ (الرعد: 28 )

وہ صلہ رحمان کی خوشنودی اور محبت ہے:

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے عنقریب رحمان اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔
(مریم : 96)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی بندے کا بچّہ مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے کہ: تم نے میرے فلاں بندے کے بچّے کی روح قبض کرلی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں:"ہاں"۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے لخت جگر کی رُوح قبض کرلی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں:"ہاں میرے پروردگار" اس پر اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھتا ہے کہ:" اس موت پر میرے بندے نے کیا کہا؟" فرشتے کہتے ہیں: اُس نے آپ کی حمد فرمائی اور "انالِلّٰہِ وَاِناالیہِ راجعون" کہا۔ یہ سُن کر اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کے لیے جنّت میں ایک گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو" (ترمذی)۔ نیز آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اللہ عّزوجل فرماتا ہے۔ میں اپنے بندے کے لیے وہی کچھ ہوں جو میرے بارے میں وہ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اُس سے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ لوگوں کے اندر میرا ذکر کرتا ہے تو میں اُن سے بہتر گروہ میں اُس کا ذکر کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اُس کے قریب ہوتا ہوں، اگر وہ ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف چل کر اتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں (بخاری و مسلم)


یہ وعدہ ہے اس بات کا کہ ملأ اعلیٰ اہل ایمان کے لیے دعاگو ہیں اور ان کے ساتھ گہری دلچسپی اور ہمدردی رکھتے ہیں۔

عرش الہیٰ کے حامل فرشتے، اور وہ جو عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں، وہ سب اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے ربّ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایاہوا ہے، پس معاف کردے اور عذاب دوزخ سے بچالے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ (المومن:7)

یہ وعدہ ہے اس بات کا کہ شہدأ کے لیے اللہ کے پاس زندگی جاوید ہے:

جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں۔ اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں۔ کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( آل عمران: 169-171)



جاری۔۔
 
باغیوں کا انجام

باغیوں کا انجام
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پے درپے یہ وعید سُنائی ہے کہ وہ جھٹلانے والوں، ظالموں اور سرکشوں اورمجرموں کو آخرت میں پکڑے گا اور دنیا میں ایک مدت مقررہ تک ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے گا اور انہیں مہلت دے گا۔۔۔۔ اگرچہ ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے کبھی کبھی دنیا میں پکڑلیاہے۔۔۔۔ لیکن اصل سزا کے لیے آخرت ہی پر زور دیا گیا ہے۔

ملک کے اندر خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکہ میں نہ ڈالے۔ یہ چند روزہ زندگی کا لطف ہے، پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو بہت بری جائے قرار ہے۔ (آل عمران: 196-197)

یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہےہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو ان کو ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب یہ حال ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں (ابراھیم: 42-43)

انہیں بے ہودہ باتیں اور کھیل کرنے دو یہاں تک کہ آخرکار وہ دن آموجود ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ دن جب کہ یہ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس طرح دوڑرہے ہوں گے کہ گویا وہ کسی استھان کی طرف لپک رہےہیں۔ ان کی نظریں جھُکی ہوں گی ذِلت چہروں پر چھارہی ہوگی، یہی تو وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا (معارج: 42-44)

علی ہذالقیاس انسانی زندگی کا ملااعلیٰ کی زندگی سے رشتہ قائم ہے۔ اور دنیا کا آخرت سے۔ لہذا خیر و شر کا معرکہ حق و باطل کی اویزش اور ایمان و بغاوت کی کشمکش کا سارا مدار صرف دنیا کے اسٹیج پر نہیں ہے ، اور نہ یہ معاملہ دنیاوی زندگی کے اندر ہی انجام پزیر ہوتا ہے، اور نہ دنیاوی زندگی ہی کے اندر اس کا فیصلہ سُنایا جاتاہے۔ دنیاوی زندگی اور اس سے وابستہ تمام راحتیں اور تکلیفیں یا لذتیں اور محرومیاں ہی اللہ کی میزان فیصلہ کا اصل وزن نہیں ہیں۔ اس حقیقت کی رُو سے معرکہ خیر و شر کا میدان بھی بڑا وسیع ہے، اور عرصہ بھی بڑا وسیع ہے۔ اسی بنا پر مومن کے فکر و نظر کے آفاق میں غیر معمولی پھیلاو آجاتا ہے ۔ اور اس کی دلچسپیاں اور توجہات بھی اونچے درجے کی ہوجاتی ہیں۔ اور یہ دنیا اور اس کی رعنائیاں اور یہ زندگی اور اس کے لوازم اُس کی نگاہ میں حقیر و بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور جس قدر اُس کے فکر و نظر کے زاویے بلند ہوتے جاتے ہیں اُس کے درجات میں بلندی ہوتی جاتی ہے۔ ایسا وسیع و ہمہ گیر اور بلند تر ایمانی تصور پیدا کرنے کے لیے اصحاب الاخدود کا قصّہ چوٹی کی مثال ہے۔









 
وادی پرخار۔ گزشتہ سے پیوستہ

مکذبین کے مختلف انجام

اصحاب الاخدود کے قصہ اور سورہ بروج سے دعوت الی اللہ کے مزاج اور ہر امکانی صورت حال کے بارے میں داعی کے موقف پر ایک اور پہلو سے بھی روشنی پڑتی ہے۔ دعوت الی اللہ کی تاریخ نے دنیا کے اندر دوسری گوناگوں اور بوقلموں دعوتوں کے مختلف خاتمے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس نے قوم نوح، قوم ہود، قوم شیعب اور قوم لوط کی ہلاکت و بربادی دیکھی ہے۔ اور معدودے چند اہل ایمان کی نجات بھی دیکھتی ہے۔ مگر قرآن نے یہ نہیں بتایا کہ نجات پانے والوں نے بعد میں دنیا اور دنیاوی زندگی کے اندر کیا پارٹ ادا کیا۔ ان اقوام کی تباہی کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ کبھی کبھی اللہ تعا لیٰ مکذبین اور ظالمین کو دنیا کے اندر ہی عذاب کا ایک حصہ چکھا دیتا ہے۔ باقی رہی کامل سزا تو وہ صرف آّخرت پر اٹھارکھی گئی ہے۔ اس دعوت نے فرعون اور اس کے لشکریوں کی غرقابی کو بھی دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ سلام اور ان کی قوم کو بچالیا گیا اور پھر ان اسے ملک کے اندر اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ اور یہ وہ دور تھا جب یہ قوم اپنی تاریخ کی نسبتاٌ صالح ترین قوم تھی۔ اگرچہ وہ کبھی بھی استقامت کاملہ کے مرتبے تک ترقی نہ کرسکی، اور اُس نے دُنیا کے اور دین خداوندی کو زندگی کے جامع نظام کی حثیت سے برپا نہ کیا۔۔۔ یہ نمونہ پہلے نمونوں سے مختلف ہے۔ تاریخ دعوت نے اسی طرح اُن مشرکین کی لاشوں کے انبار بھی دیکھے جنہوں نے ہدایت سے منہ موڑا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کیا۔ اور یہ بھی دیکھا کہ جب اہل ایمان کے دلوں پر عقیدہ کی حیرت انگیز حد تک حکمرانی قائم ہوگئی تو دنیا کے اندر نصرت کاملہ نے کس طرح آگے بڑھ کر اُن کے قدم چومے۔ اور پہلی مرتبہ انسانی تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نظام خداوندی انسانی زندگی کے اصل حاکم کی حثیت سے عملا قائم ہوا۔ یہ ایک ایسی صورت تھی کہ انسانی تاریخ نے نہ اس سے پہلے کبھی اس کا مشاہدہ کیا تھا اور نہ بعد میں۔ اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں دعوت اسلامی کی تاریخ نے اصحاب الاخدود کا نمونہ بھی دیکھا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ نے قدیم اور جدید زمانے میں اور بھی کئی مناظر دیکھے ہیں۔ جو تاریخ ایمان کے دفتر میں زیادہ نمایاں جگہ نہیں پاسکے۔ اور ابھی تک اُس کی انکھ طرح طرح کے نمونے دیکھ رہی ہے جو انہی انجاموں میں سے کسی نہ کسی انجام سے دوچار ہوتے جارہے ہیں جو صدیوں سے تاریخ کے سینے میں محفوظ چلے ارہے ہیں۔
 
وادی پرخار

اصحاب الاخدود کا جداگانہ انجام اور اہل ایمان کے لیے اس واقعہ میں اصل عبرت
دوسرے نمونوں کا ذکر بھی بیشک ضروری ہے مگر اُس نمونے کے ذکر کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جس کی نمائندگی اصحاب الاخدود کرتے ہیں۔ یہ وہ ناگزیر نمونہ عزیمت ہے جس کی نمائندگی جس سے اہل ایمان کو نجات نہیں ملتی، اہل کفر کی بھی دنیا میں گرفت نہیں ہوتی۔ یہ اس لیے ہے کہ راہ حق میں انہیں بھی ایسے انجام سے دوچار کیا جاسکتا ہے، اس بارے میں اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، ان کا اور ان کے ایمان کا معاملہ سراسر اللہ کے سپرد ہے۔ ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اپنے فرض کو سر انجام دیں اور رخصت ہو جائیں، ان کا فرض یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کو اپنے لیے پسند کرلیں، زندگی پر عقیدہ کو ترجیح دیں اور آّزمائش میں ڈالے جائیں تو ایمان کی مدد سے اس پر غلبہ پائیں، زبان اور نیت سے بھی اللہ کی صداقت کی گواہی دیں اور اپنے عمل و کردار سے بھی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ اور اُن کے دُشمنوں کے ساتھ جو چاہے کرے اور اپنے دین اور اپنی دعوت کے لیے جو مقام چاہے منتخب کرے۔ وہ چاہے تو ان کو اُن انجاموں میں سے ایک انجام کے حوالے کرے جن سے اہل ایمان و عزیمت تاریخ میں دوچار ہوتے رہے ہیں، یا اُن کے لیے ایسا انجام پسند فرمائے جسے وہ خود ہی جانتا اور دیکھتا ہے۔


جاری ہے
 
Top