وادئی سوات، تحریک نفاذِ شریعت سے فوجی آپریشن تک۔ ایک تدریجی تاریخی جائزہ

جیہ

لائبریرین
وادئی سوات، تحریک نفاذِ شریعت سے فوجی آپریشن تک
ایک تدریجی تاریخی جائزہ


تحریر: فضل ربی راہی (سوات)

انپیج سے یونی کوڈ‌میں تبدیلی: جویریہ مسعود​

سوات کی خوب صورت وادی اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ تاریخی علاقہ ہے جو ہزاروں سال قبل بدھ مت کا اہم مرکز رہا ہے۔چھٹی صدی قبل مسیح سے کر جب یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کی عظیم سلطنت کا ایک حصہ تھا، موجودہ دور تک سوات نے اہم انقلابات دیکھے ہیں۔ ڈھائی ہزار قبل مسیح میں آریائی نسل کے لوگ جب برصغیر میں داخل ہوئے تو وہ اسی وادی سے ہوکر گزرے تھے۔ 326 ق م میں سکندر اعظم ایران کو فتح کرکے کابل کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ کونڑ افغانستان سے ہوتا ہوا وادئ سوات میں داخل ہوا۔ تاریخ میں مذکو ر ہے کہ سکندر اعظم کو اپنی فتوحات کے دوران سوات میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن سوات کے راجہ ارنس کو شکست دے کر وہ دریائے سندھ عبور کرکے پنجاب میں داخل ہوا۔ اس وقت بھی سوات میں بدھ مت کے پیروکار موجود تھے۔ 100ء میں سوات میں بدھ مت عروج پر تھا۔ اس وقت سوات سلطنتِ گندھارا کا ایک اہم حصہ تھا اور اس پر راجہ کنشک کی حکم رانی تھی جس کا پایہٴ تخت پشاور تھا۔ 403ء میں مشہور چینی سیاح اور بدھ مت کے مقدس مقامات کا زائر فاہیان سوات آیا۔ 519ء میں ایک اور مشہور چینی سیاح سنگ یون کافرستان سے ہوتا ہوا سوات میں داخل ہوا۔ 630ء میں چین کا ایک تیسرا معروف سیاح، بدھ مذہب کا عالم اور زائر ہیون سانگ کابل سے ہوتا ہوا سوات وارد ہوا۔ چینی سیاحوں میں آخری سیاح وکنگ تھا جو 752ء میں سوات آیا۔ ان چینی سیاحوں نے اپنے اپنے سفرناموں میں سوات کے اس وقت کے مذہبی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی حالات کے متعلق تفصيل سے لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہاں بدھ مت کا دور دورہ تھا اور یہاں کے لوگ کافی ترقی یافتہ اور خوشحال تھے۔
گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں جنھوں نے اس وقت کے راجہ گیرا نامی حکمران کو شکست دے کر سرزمینِ سوات کو اسلام کی ابدی قندیل سے منور کیا۔ 1485ء میں کابل کے چغتائی ترک حکمران الغ بیگ نے قبیلہ یو سف زئ کی سرکردہ شخصیتوں کو دھوکے سے قتل کردیا۔ یوسف زئ قبیلہ کے زعماء میں سے شیخ ملی اور ملک احمد خوش قسمتی سے اس قتل عام سے بچ کر اپنے بچے کھچے قبیلے کے ہمراہ پشاور میں داخل ہوئے اور ایک طویل لڑائی کے بعد یوسف زئ قبیلہ پشاور، مردان اور سوات پر قابض ہوگیا۔ 1515ء میں یوسف زئیوں نے سوات کے بادشاہ سلطان اویس کو تخت و تاج سے معزول کرکے سوات کے پرانے باشندوں کو مانسہرہ (ہزارہ) چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ 1516ء میں جب مغل بادشاہ بابر افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو اس نے سب سے پہلے سوات پر لشکر کشی کی لیکن اسے یہاں منہ کی کھانی پڑی۔ اسے یوسف زئے قبیلہ کے سردار شاہ منصور کی بیٹی سے مصلحتاً شادی کرنی پڑی اور یوسف زئیوں سے صلح کرکے انہیں اپنے لشکر میں شامل کیا اور ہندوستان فتح کیا۔
1530ء میں یوسف زئیوں کے عظیم مقنن شیخ ملی نے ویش یعنی زمینوں کی مستقل تقسیم کا طریقہ رائج کیا اور یوسف زئ قبیلہ جو ہر دس سال بعد اپنی رہائش اور علاقہ تبدیل کرنے پر مجبور تھے، ان کے درمیان باقاعدہ زمین تقسیم کی گئی۔ بابر کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ہمایوں نے سوات بزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی طرح سوات کی تاریخ کا یہ دور گزرتا ہوا اکبر بادشاہ تک آن پہنچتا ہے جس نے 1586ء میں سوات پر حملہ کیا لیکن اس میں اس کا مشہور نو رتن بیربل بونیر کی سنگلاخ چٹانوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
1850ء تک سوات سیاسی طور پر کوئی منظم علاقہ نہیں تھا اس لیے اس کی سا لمیت کے لیے اس دور کے خوانین اور رؤسا کی مشاورت سے حضرت اخوند عبدالغفور (سیدو بابا) نے پیر بابا کی اولاد میں سے سید اکبر شاہ کو 1850ء میں سوات کی پہلی شرعی حکومت کا امیر منتخب کیا لیکن 11 مئی 1857ء میں ان کی وفات کے بعد سوات پھر سیاسی افراتفری اور امنِ عامہ کی ابتری کا شکار ہوا۔ 1863ء میں امبیلہ کے مقام پر انگریزو ں کے ساتھ سخت جنگ ہوئی لیکن یہاں کے باشندوں نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث انگریز سوات فتح کرنے میں ناکام رہے۔ 1876ء میں اخون صاحب (سیدو بابا) وفات پا گئے۔ سیدو بابا اور سید اکبر شاہ کی اولاد میں سوات کی بادشاہت کے لیے ایک طویل کش مکش شروع ہو گئی جو دیر اور باجوڑ کی سیاسی کش مکش میں ملوث ہونے کی وجہ سے اور بھی پیچیدہ صورت اختیار کر گئی۔ 1881ء میں میاں گل عبدالودود (جو بعد میں بانئی سوات بنے) سیدو بابا کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1887ء میں میاں گل عبدالحنان جو سیدو بابا کے بڑے بیٹے تھے، ریاست بنانے میں ناکام ہوئے۔ 1895ء اور 1897ء میں انگریزوں نے ملاکنڈ کے راستے سوات پر دو الگ الگ حملے کئے مگر سوات کے بہادر عوام نے ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ ان معرکوں میں دیر، باجوڑ، بونیر اور موجودہ ملاکنڈ ایجنسی کے لوگ بھی شامل تھے۔
1903-07 ء میں میاں گل عبدالرزاق اور میاں گل عبدالواحد، جو سیدو بابا کے بڑے فرزند کے بیٹے تھے، اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالودود کے ہاتھوں قتل ہوئے اور میاں گل عبدالودودو سیدو بابا کی تمام روحانی اور مادی میراث کے واحد وارث قرار پائے۔ اسی طرح سیاسی اقتدار کے لیے سخت خاندانی کش مکش ختم ہوگئی۔
سوات میں مچی ہوئی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستِ امب سے تعلق رکھنے والے سید عبدالجبار شاہ نامی ایک شخص نے 1914ء میں دریائے سوات کے پار شمالی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی۔ بعد میں میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) جو سیدو بابا کے پوتے بھی تھے، نے عبدالجبار شاہ سے حکومت کی باگ ڈور چھین کر 1917ء میں اپنی باقاعدہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ 1917ء سے 1926ء تک اندرونی طور پر ریاستِ سوات کی تشکیل و تعمیر اور اختیارات کے استحکام کے لیے تیز کوششیں شروع کی گئیں۔ سڑکیں، ٹیلی فون اور قلعہ جات وغیرہ بنائے گئے۔ بیرونی طور پر مختلف جنگوں کے ذریعے اس نوزائیدہ ریاست کی حدود وسیع کی گئیں اور از سرِ نو ان کا تعین کیا گیا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے رسمی طور پرریاست سوات کو 1924ء میں تسلیم کیا گیا اور میاں گل عبدالودود کی حکم رانِ سوات کی حیثیت سے تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔ 1947ء میں ریاستِ سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا گیا۔
12 دسمبر 1949ء کو میاں گل عبدالودود نے عنانِ حکومت اپنے فرزند شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب (والئی سوات) کو سونپ دیں۔ جنھوں نے سوات کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے ہر علاقہ میں ہسپتال قائم کئے۔ پورے سوات میں سکولوں اور کالجوں کا جال پھیلادیا۔ جگہ جگہ پل بنائے اور ہر مقام تک پختہ سڑکیں تعمیر کیں۔ غرض والئی سوات نے ریاست کی تعمیر و ترقی میں ایک ناقابل فراموش ا ور زندہٴ جاوید کردار ادا کیا۔
28 جولائی 1969ء میں ریاست سوات کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے ضم کردیا گیا اور یہاں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر اور دیگر سرکاری انتظامی اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔
 

جیہ

لائبریرین
سوات ادغام کے بعد

پاکستان میں ادغام کے بعد اہلیانِ سوات کو امید تھی کہ اب سوات میں نہ صرف شخصی آزادی ہوگی بلکہ حکومت پاکستان اسے مزید ترقی و خوشحالی سے ہم کنار کرے گی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی ہر حکومت نے سوات کو ہر حوالے سے نظر انداز کئے رکھا۔ سوات اپنی خوب صورتی، شادابی اور حسین قدرتی مناظر کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن حکومت نے غیرمعمولی طور پر اہم اس سیاحتی علاقے کو جدید سیاحتی سہولتوں سے آراستہ کرنے کی کو ئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں مایوسی پھیلتی گئی۔ عدالتوں میں عوام کو انصاف سے محروم رکھا گیا اور یہاں پاٹا ریگولیشن کے نام سے انتظامی اُمور چلائے جانے لگے جس میں پولیس کو بہت زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں جب مئی 1994ء میں ہائی کورٹ کے حکم سے پاٹا ریگولیشن کا خاتمہ کیا گیا تو سوات میں ایک قانونی خلا پیدا ہوا۔
ملاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ شریعت کے لیے مولانا صوفی محمد نے 18 جولائی 1989ء میں دیر میں تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ جو فعال انداز میں نفاذِ شریعت کے لیے متحرک رہی۔ اس تحریک کے زیادہ تر جلسے سوات میں ہوتے تھے۔ جب پاٹا ریگولیشن کے خاتمہ کے بعد ملاکنڈ ڈویژن قانونی خلا پیدا ہوا تو مولانا صوفی محمد نے نفاذِ شریعت کے ذریعے اس خلا کو پُر کرنے کے سلسلے میں اپنی تحریک میں مزید تیزی پیدا کی۔ اس سلسلے میں تحریک کے سرگرم کارکنوں نے 2 نومبر 1994ء میں ضلعی عدالتیں اور سیدو شریف ایئرپورٹ اپنے قبضہ میں لے کر پورے سوات میں حکومت کی عمل داری عملاً ختم کردی لیکن اس وقت حکومت نے حکمت سے کام لیا اور ریاست کے خلاف یہ بغاوت فرنٹیئر کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کور کی مدد سے ختم کردی گئی اور بہتر حکمت عملی کی وجہ سے اس میں کوئی بڑی خون ریزی نہ ہوئی۔ 9/11 کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد طالبان کی مدد کے لیے اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ باجوڑ کے راستے امریکا کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان چلے گئے لیکن عسکری تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے کارکن یا تو قتل کئے گئے، یا انھیں گرفتار کرلیا گیا اور جو وہاں سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے انھیں پاکستان واپس آتے ہوئے 16 نومبر 2001ء کومولانا صوفی محمد سمیت پولیٹیکل حکام نے گرفتار کرلیا۔ جس کے بعد انھیں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں رکھا گیا۔ مولانا صوفی محمد کے داماد اور سوات میں تحریک طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کو بھی افغانستان سے واپسی کے بعد ان کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا تھا۔ 12 جنوری 2002ء میں حکومت نے ”تحریک نفاذِ شریعت محمدی“ پر پابندی لگا دی۔ 16 نومبر 2007ء کو مولانا صوفی محمد کو اے این پی کی حکومت نے رہا کیا۔
2003ء میں مولانا صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ نے سوات کے ایک نواحی گاؤں مام ڈھیرئ میں ایف ایم ریڈیو کا آغاز کیا۔ 2004 ء میں اس ریڈیو کے تحت انھوں نے بچوں کی پولیو مہم اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت شروع کی۔ 2006ء میں مولانا فضل اللہ نے اپنے معتقدین کو الیکٹرانک اور موسیقی کے آلات مثلاً ٹیلی وژن، وی سی آر اور سی ڈی پلیئر وغیرہ جلانے کا حکم صادر کیا۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنے ان آلات کو اجتماعی طور پر جلانے لگے۔ مقامی انتظامیہ نے اسی سال مولانا فضل اللہ کے ایف ایم ریڈیو کا نوٹس لیا اور اس کے خلاف کارروائی کی لیکن مقامی انتظامیہ کو اس سلسلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ انتظامیہ کو مولانا فضل اللہ کے خلاف فیصلہ کن اقدام نہ اٹھانے کا حکم اس وقت کی مرکزی حکومت کی طرف سے دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پھیلتی گئی اور اس میں باقاعدہ اسلحہ کی نمائش شروع کی گئی۔ جس کے بعد مولانا فضل اللہ باقاعدہ طور پر مقامی پولیس اور پاک فوج کو چیلنج کرنے لگے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں فوجی آپریشن کے خلاف مولانا فضل اللہ نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور آپریشن ابھی پایہ تکمیل تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ 3 جولائی 2007ء کو مٹہ (سوات) کے پولیس سٹیشن پر پہلا راکٹ حملہ کیا گیا جس میں ایک پولیس اہل کار جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔ جامعہ حفصہ کے آپریشن کے بعد سوات میں باقاعدہ خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب پورے سوات میں حکومت کی عمل داری ختم ہوگئی تو حکومت نے باقاعدہ طور پر سوات میں فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔ 4 نومبر 2007ء کو سوات میں میجر ناصر جنجوعہ کی سرکردگی میں ریگولر آرمی بھیجی گئی۔ 24 نومبر 2007ء کو سوات آپریشن کا باقاعدہ چارج پاک فوج کے حوالے کردیا گیا۔ پاک فوج نے کارروائی شروع کی۔ سوات آپریشن کے انچارج میجرجنرل ناصر جنجوعہ نے اہلیانِ سوات سے وعدہ کیا کہ دسمبر 2007ء میں فوج آپریشن مکمل کرکے سوات میں مکمل امن قائم کرے گی اور اسی مہینے وادئ سوات کو سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا لیکن سوات آپریشن کو دوسرا سال شروع ہوچکا ہے لیکن سوات میں بدامنی اور عسکریت پسندی ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ اب تک سوات میں 18 سے زائد خود کش حملے ہوچکے ہیں۔ جن میں سیکڑوں بے گناہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ان میں ایف سی اور مقامی پولیس کی بھی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکی ہے۔ اس دوران سوات میں قریباً ایک سال تک رات کا کرفیو نافذ رہا اور اکثر و بیشتر دن کو بھی کرفیو کا نفاذ کیاجاتا رہا۔ رمضان کے دوران کرفیو کے دوران ہی بجلی کا گرڈ سٹیشن اڑادیا گیا جس کی وجہ سے قریباً دو مہینے تک سوات کی بجلی معطل رہی۔ اس کے بعد سوئی گیس پلانٹ تباہ کردیا گیا جس کے نتیجہ میں کئی ہفتوں تک اہلیانِ سوات سوئی گیس سے بھی محروم رہے۔ اب تک سوات میں لڑکیوں اور لڑکوں کے 128 سے زائد سکول تباہ کردئیے گئے ہیں۔ درجنوں رابطہ پلوں کو بموں سے اڑا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اہلیانِ سوات کے لیے لامحدود مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔ اب بھی اَپر سوات کے بعض علاقوں میں مسلسل ایک مہینہ سے زائد عرصہ سے کرفیو نافذ ہے جس کے دوران ایمرجنسی کی صورت میں بے گناہ افراد کرفیو کی خلاف ورزی پر سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ سوات میں مسلسل گولہ باری کی وجہ سے اب تک 800 سے زائد پرامن شہری اندھی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں جب کہ سیکڑوں مکانات اور دکانیں بھی توپ کی گولیوں کا نشانہ بن کر صفحہٴ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ سوات کی مجموعی معیشت تباہ ہوچکی ہے اور سیاحت کی صنعت کا تو نام و نشاں تک مٹ چکا ہے۔ سیکڑوں ہوٹلز بند ہیں جن میں ہزاروں لوگ برسر روزگار تھے۔ تیار فصلیں اور پھل کرفیو کی وجہ سے کھیتوں میں ہی گل سڑ چکی ہیں۔ مسلسل بد امنی کی وجہ سے سوات میں جو ترقیاتی کام جاری تھے وہ بند ہوچکے ہیں اور جو بڑے ترقیاتی منصوبے منظوری کے مرحل طے کرچکے تھے، انھیں منسوخ کردیا گیا ہے۔
اہلیانِ سوات پاک فوج کی آمد پر خوش تھے کہ سوات میں فوجی آپریشن کے ذریعے امن و امان قائم کیا جاسکے گا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپریشن کے دوران زیادہ نقصان عام بے گناہ شہریوں کا ہو رہا ہے اور بدامنی اور لاقانونیت روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ حکومت اگر مخلص ہوتی تو وہ یا تو مقامی طالبان کا جائز مطالبہ مان کر سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں اسلامی شریعت نافذ کرتی اور اگر حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہوتا تو وہ سوات سے بدامنی کا مکمل خاتمہ کرتی لیکن دونوں میں سے ایک کام بھی حکومت اب تک نہیں کرسکی۔ حالاں کہ سوات کوئی سرحدی علاقہ نہیں اور نہ ہی اس کی حدود لامحدود ہیں۔ حکومت یا متعلقہ سکیورٹی فورسز اگر چاہتیں تو سوات میں چند دنوں میں امن قائم کرسکتیں لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا۔
ایک ریاست کا اولین کام اپنے عوام کو جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے سوات میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ سوات کے عوام عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ اہلیانِ سوات کے بنیادی انسانی حقوق سلب ہیں اور امن کے نام پر تعینات سکیورٹی فورسز کی غفلت اور دانستہ غلطیوں کی وجہ سے اب تک سیکڑوں بے گناہ شہری لقمہٴ اجل بن چکے ہیں لیکن کسی ایک پاکستانی شہری کی ہلاکت پر اب تک کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی جاسکی۔ اہلیانِ سوات مقتدر قوتوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر آئینِ پاکستان میں انھیں بنیادی انسانی اور شہری حقوق دئیے گئے ہیں تو وہ ان سے محروم کیوں ہیں؟ اہلیانِ سوات نے بہت کشت وخون دیکھ لیا۔ اب ان کی حالت پر رحم کیا جائے۔ اگر سوات میں نفاذِ شریعت سے امن قائم ہوسکتا ہے تو حکومت اس میں لیت و لعل سے کیوں کام لے رہی ہے۔ اگر حکومت طاقت کے ذریعے سوات میں امن قائم رکھنے میں دل چسپی رکھتی ہے تو ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باجود اب تک سوات میں امن قائم کیوں نہیں کیا جاسکا؟ سوات میں فوج کی مسلسل موجودگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کسی بھی وقت اہلیانِ سوات کا پیمانہٴ صبر لبریز ہوسکتاہے۔اہلیانِ سوات کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جنت نظیر وادئ سوات میں امن قائم کیا جائے اور اس کے لیے حکومت جو بھی طریقہ اختیار کرے، اس میں اہلیانِ سوات کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ملحوظ رکھا جائے۔
 

arifkarim

معطل
گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں جنھوں نے اس وقت کے راجہ گیرا نامی حکمران کو شکست دے کر سرزمینِ سوات کو اسلام کی ابدی قندیل سے منور کیا۔

جی ہاں، اور اسوقت سے لیکر ابھی تک اسی"ابدی قندیل" کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں ۔۔۔۔ :)
 

arifkarim

معطل
2006ء میں مولانا فضل اللہ نے اپنے معتقدین کو الیکٹرانک اور موسیقی کے آلات مثلاً ٹیلی وژن، وی سی آر اور سی ڈی پلیئر وغیرہ جلانے کا حکم صادر کیا۔
بہت اچھا حکم صادر کیا۔ اگر مولانا کو ٹی وی آن کرنا نہیں آتا تھا تو اسکا غصہ دوسروں پر اتارنے کی کیا ضرورت تھی؟
 

arifkarim

معطل
9/11 کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد طالبان کی مدد کے لیے اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ باجوڑ کے راستے امریکا کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان چلے گئے لیکن عسکری تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے کارکن یا تو قتل کئے گئے، یا انھیں گرفتار کرلیا گیا اور جو وہاں سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے
سیٹلائیٹس، ٹینکس اور مشین گنز کا مقابلہ کلاشنکوفوں اور لاٹھیوں سے تو ہونے سے رہا۔
 

arifkarim

معطل
اہلیانِ سوات کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جنت نظیر وادئ سوات میں امن قائم کیا جائے اور اس کے لیے حکومت جو بھی طریقہ اختیار کرے، اس میں اہلیانِ سوات کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ملحوظ رکھا جائے۔
مطالبے تو اہلیان پنجاب، سندھ، بلوچستان بھی 1947 سے کر رہے ہیں۔ جب انکی 62 سالوں‌میں نہ سنی گئی تو اہلیان سوات کی ا سال میں‌کیسے سن لیں؟
 
Top