نے باغ میں بلبل ہے نہ خوشبو نہ کلی ہے

نے باغ میں بلبل ہے نہ خوشبو نہ کلی ہے
صیّاد کی محفل میں عجب نوحہ گری ہے
اب رات کسی طاق میں ہوگی جو ہنسی ہے
یہ طرز کسی جرم کی پروردہ کڑی ہے
کب دشت میں چلتی تھی نہ کچھ تیر ہیں جھیلے
ہاری ہوئی بستی ہے کوئی داؤ چلی ہے
جس بات کو دل تھام کے رویا ہوں ہمیشہ
وہ درد میں ڈوبی ہوئی اک ناؤ ملی ہے
چب چاب ہی مرجاتے یہ بہتے ہوئے دریا
پر جان تمنّا تری آواز سنی ہے
غم پونچھ رہا ہے مری آنکھوں سے اندھیرا
افتاد مرے شہر کی گلیوں میں پڑی ہے
اخبار پہ چپکے ہوئے لا چار سے آنسو
اور درد کی بگڑی ہوئی تصویر بنی ہے
ہر صبح نویدوں کو لیے راہ میں بیٹھے
جو تھام لے شمشیر وہ قسمت کا دھنی ہے
مرے رزق سے وابسطہ ہے انجان لڑائی
اندیشہء محرومی ہے بیداد گری ہے
کچھ شور سے ڈرتے ہوئے لوگوں کی خموشی
یہ شام ہی سمجھے گی جو بے چین کھڑی ہے
کیا خوب تماشا ہے کسی دم میں اترنا
اک راز میں رہنے کی مجھے قید ملی ہے
اب حال نہ پوچھے ہے کوئی شخص کسی کا
اس شہر میں کیا خاک پڑی، آگ لکی ہے
بے باک ہے اڑتا ہے مرے وہم سے آگے
اس شوخ کی باتوں میں عجب جادو گری ہے
ہر چند مضافات میں تشہیر نہ ہوتی
جمشید نے ہر شخص کو ہر بات کہی ہے
کس جرم کے احساس میں ہارا ہے مرا دل
کیوں عمر رواں درد کا تخمینہ بنی ہے
اللہ سنبھل جائے مرا دیس مرے لوگ
گل چیں کی نظر خستہ سے خاروں پہ پڑی ہے
پیوند نہ لگ پائے ان اشکوں میں وگرنہ
بجھتے ہوئے تاروں کی لڑی ٹوٹ پڑی ہے
اب ہجر میں اک سانس بھی مشکل ہے ستارو
جمشید بہت ضبط بہت آہ بھری ہے
اسامہ جمشید
اپریل ۲۰۱۶​
 
Top