نیشنل بک فاونڈیشن کی ایک تقریب۔25 فروری 2012

Rashid Ashraf

محفلین
بروز ہفتہ 25 فروری 2012 ، کراچی ائیرپورٹ کے اندرونی حصے تک پہنچے سے قبل سید معراج جامی صاحب اور راقم کو کئی حفاظتی مراحل سے گزرنا پڑا، ہم دونوں کے داخلی اجازت نامے سیکورٹی اہلکاروں کے پاس موجود تھے ، خوب تسلی کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی لیکن اندر داخلے کے بعد بھی ہم پر شک کیا جاتا رہا، دو جگہوں پر جسمانی تلاشی کے بعد مطلوبہ منزل تک پہنچے ۔ یہ اندورن ملک پرواز کا ہال تھا جہاں رئیس فاطمہ صاحبہ اور ان کے میاں قاضی اختر (قاضی احمد میاں کے فرزند) بھی تشریف رکھتے تھے۔

ہماری موجودگی کی سبب نیشنل بک فاونڈیشن کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب تھی۔ فاونڈیشن کو ایک روز خیال آیا کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر کیوں نہ کتابوں کی ایک دکان کھولی جائے جہاں سفر سے گھر واپسی پر اترے مسافر پہلے یہ کتابیں خریدیں اور پھر اپنی اپنی منزل کا قصد کریں۔ اسی طرح وہ مسافر جو گھر سے دور جارہے ہوں، پہلے یہاں کتابیں کا معائنہ کریں اور پھر اگلی منزل کے بارے میں سوچیں۔ یہ اہتمام انفرادی حیثیت میں کرنا مشکل نظر آرہا تھا سو اس سلسلے میں مدد لی گئی چند دیگر اداروں کی ، اور کتابوں کی دکان پر یہ بھاری بھرکم الفاظ جگمگا اٹھے:
Travellers Book Club Book Shop
National Book Foundation/Civil Aviation Authority
Joint Venture Between The Cabinet Division
Ministry Of Defence
نیشنل بک فاونڈیشن کراچی کے بعد ملک کے دیگر ہوائی اڈوں پر بھی اسی قسم کی دکانیں کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

مظہر الاسلام صاحب اسلا م آباد سے آئے تھے اور سخت پریشانی کے عالم میں ، جو ایسے موقعوں پر اس شخص کا مقدر ہوتا ہے جس کے کاندھوں پر اس قسم کی تقریبات کے انعقاد کی ذمہ داری ہوتی ہے، ادھر سے ادھر گھوم رہے تھے ۔ کسی نے مجھے بتایا کہ مظہر صاحب وقت کے بہت پابند ہیں اور مذکورہ تقریب کے جلد شروع ہونے کے انتظار میں یہ وقت ان پر بھاری گزر رہا ہے۔انہیں دیکھ کر مجھے ان کی کتاب کا عنوان ’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی ‘ یاد آرہا تھا۔ پہلے مجھے خیال آیا کہ ان سے حال ہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کی گئی زیڈ اے بخاری کی ’سرگزشت ‘کے بارے میں بات کروں جس پر پطرس بخاری کی تصویر شائع کردی گئی ہے، 1966 اور 1995 کے بعد شائع ہونے والا سرگزشت کا یہ تیسرا نسخہ ہے، پھر سوچا کہ اس موقع پر ان کی پریشانی کو مزید ہوا دینا مناسب نہ ہوگا۔ یہ ذکر رئیس فاطمہ اور قاضی اختر سے خوب رہا، قاضی صاحب تو اس قدر حیران ہوئے کہ اپنی نشست سے اٹھ کر بطور خاص سرگزشت کو دیکھنے گئے جسے منتطمین نے ایک نمایاں جگہ سجا رکھا تھا۔بعد ازاں مظہر صاحب سے گفتگو میں اس موضوع پر بات ہوئی، معلوم ہوا کہ وہ اس بارے میں مکمل آگاہی رکھتے ہیں اور جلد ہی اس کے تدارک کے لیے مناسب قدم اٹھانے والے ہیں۔ جناب مظہر الاسلام کا کیا ہوا ایک معرکے کا کام ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہے جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ صحافیوں کی بجائے ادیبوں‘ شاعروں‘ فنکاروں کی ملاقاتیں وزیراعظم سے کروائی تھیں۔مذکورہ ملاقات میں مشاہیر ادب نے اعلی ترین حکومتی شخصیت کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا۔کہنے والے اسے ایک منفرد واقعہ قرار دیتے ہیں ۔ ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے مظہر الاسلام صاحب کے دیگر کارناموں میں ریلوے اسٹیشنز پرکتابوں کے اسٹالز کا قیام ، مختلف شہروں میں سفراء کتب (بک ایمبیسڈرز) کی تقرری، ریل گاڑیوں میں کتابوں کی فراہمی کے علاوہ جیل میں کتب بینی کے فروغ کی کوششوں جیسے اہم کام شامل ہیں۔اکثر ان کے مخالفین ان پرالزامات لگاتے رہتے ہیں، کچھ معاملے عدالتوں تک بھی پہنچے ہیں لیکن کیا ہم ایک معروف ادیب سے کسی بھی قسم کی بدیانتی کی توقع کرسکتے ہیں، یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کئی سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں بالخصوص اس وقت جب آپ کسی سرکاری ادارے کے ساتھ منسلک ہوجائیں لیکن اگر یہ سب کسی نیک مقصد بالخصوص کتاب کی محبت میںکرنا گوارا کیا جائے تو ضمیر بہرحال مطمئین رہتا ہے۔

واضح رہے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ادارہ 1972 میں پارلیمنٹ کی منظوری کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ ادارے کے انتظامی امور کا ذمہ دار اس کا بورڈ آف گورنر ز ہے جبکہ وفاقی وزیر تعلیم اس بورڈ کا چیرمین ہے۔ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت اور مطالعہ کتب کے فروع کے لیے سرگرم عمل اس ادارے کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔ اسکے علاوہ اس ادارہ کے صوبائی صدر دفاتر، علاقائی دفاتر اور کتب سیل پوائنٹس بھی کام کر رہے ہیں۔یہ ادارہ مختلف موضوعات پرکتب شائع کرنے کے علاوہ بچوں کے ادب کے فروغ میں بھی کوشاں ہے۔علاوہ ازیں یہ ادارہ نابینا افراد کے لئے بھی بریل کتب شائع کرتا ہے۔نیشنل بک فاونڈیشن نے پاکستان میں کتب کے فروغ کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سی نصابی، علمی، ادبی وتحقیقی اور ترجمہ شدہ کتابیں شائع کی ہیں۔اس ادارہ کے زیر اہتمام ایک "کتاب رسالہ" بھی شائع کیا جاتا ہے جس میں مختلف کتب پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں۔

غالب لائبریر ی کے نسیم صاحب،ادیب خرم سہیل ، شاعر نواز ندیم ہاشمی ، چند دیگر خواتین بھی حاضرین میں موجود تھے۔ خرم سہیل ان دنوں جناب رضا علی عابدی کی سوانح عمری تحریر کررہے ہیں۔ نیشنل بک فاونڈیشن والوں کے جی میں کیا آئی کہ وہاں ٹی وی کی ایک طرحدار اداکارہ کو بھی مدعو کرلیا ، وہ نیک بخت جب تک وہاں موجود رہی، اس کے پرس میں موجود آئینہ اس کے مد مقابل رہا، میک اپ ایسا کہ پھٹا پڑتا تھا، عمر سولہ سے چالیس کے درمیان، تقریب میں مدعو کی گئی تمام خواتین ایک طرف اور وہ عفیفہ ایک جانب چپ چاپ اکیلی ہی بیٹھی رہی۔ ہاں ایک موقع پر وہ بول پڑی تھی، وزیر دفاع سے ٹی والوں نے حالات حاضرہ پر سوالوں کا طومار باندھا تو اداکارہ سے نہ رہا گیا، دو قدم آگے آئی اور کہا کہ آپ لوگ یہاں سیاسی سوالات مت کیجیے۔ ایک نامہ نگار تیز نکلا، کہنے لگا بی بی ، آپ پیچھے ہٹ جائیے، کتابوں کی تقریب کا احوال الگ پیش کیا جائے گا اور سیاسی گفتگو الگ۔ اداکارہ کو یہ عزت افزائی شاید پسند نہ آئی، طرحدار تھی، سو طرح دے کر تقریب کے اختتام سے قبل ہی غائب ہوگئی۔سنا ہے کہ وہ ’سفیر کتاب‘ مقرر کی گئی تھی۔

جامی صاحب اورمیں قاضی اختر جونا گڑھی سے محو گفتگو تھے ۔ ہمارے لیے وقت پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ اسی دوران ڈان نیوز چینل کا نمائندہ شرکاء سے ان کے تاثرات ریکارڈ کرتا ہماری جانب آنکلا،بزم میں جام مجھ تک بھی پہنچا ، مائیک ہاتھ میں تھام کر میں رسمی گفتگو کرتا رہا۔

والتیئرنے کہا تھا کہ ’’ آپ کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ چند وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے حکمرانی کی ہے‘‘
یہاں معاملہ دوسرا ہے، ہم پر تو وحشی نسلوں ہی نے حکمرانی کی ہے اور یہ رفتہ رفتہ یہ وحشت عوام میں منتقل ہوتی چلی گئی۔

نیشنل بک فاونڈیشن اس وحشت کو کم کرنے اور کتاب سے قاری کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لوگ مرجاتے ہیں لیکن کتابیں نہیں مرتیں۔ یہ کہاوت ایک کونے میں چسپاں ایک ایسی تصویر کے نیچے لکھی دیکھی جس میں ایک شخص کتابوں کے انبار کو اٹھائے لڑکھڑاتا چلا جارہا ہے۔ سچ ہی تو ہے۔ کراچی کے پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں ہر مرتبہ ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن کے مالکان انتقال کرچکے ہوتے ہیں، بعد ازاں یہ ذخیرہ کوڑیوں کے بھاؤ بکتا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ مثال اس وقت سامنے آئی جب لاہور کے پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں چہل قدمی کرتے ہمارے ایک کرم فرما کو اظہر جاوید مرحوم کے ذخیرہ کتب کی دو کتابیں ،مظہر محمود شیرانی کی ۔’بے نشانوں کا نشاں ‘اور گلزار کی ’چاند پکھراج کا ‘ ، فٹ پاتھ پر فروخت کے لیے نظر آئیں۔ اظہر جاوید کا انتقال 14 فروری 2012 کو ہوا ہے، ان کی یہ کتابیں ان کے انتقال کے محض بارہ روز کے بعد ہی لاہور کے اتوار بازار میں فروخت کے لیے آگئی تھیں۔
لیجیے وزیر دفاع تشریف لے آئے۔ تلاوت کا مرحلہ، پھر رسمی سی باتیں، میڈیا کے حالات حاضرہ پر سلگتے ہوئے سوالات، خدا خد کرکے معاملہ تما م ہوا۔ وزیر دفاع جانے سے قبل تقریب کے شرکاء کے پاس قلیل وقت کے لیے آئے اور ادھر ہم نے ان سے ایک تصویر کھنچوانے کی درخواست کی کہ سند رہے اور ’بلاضرورت ‘کام آئے۔

شرکاء اب فواکہات پر ٹوٹ پڑے ہیں، ایسی تقریبات میں یہی ایک چیز ہے جس پر ٹوٹا جاسکتا ہے۔ جعفری صاحب کی پرواز کا وقت نزدیک تھا، وہ دہلی کے بین الاقوامی کتب میلے میں شرکت کی غرض سے جارہے ہیں، ان کی پلیٹ میں پیسٹریاں تھیں، میں ان سے کچھ پوچھتا ہوں ، پیسٹری کی موجودگی میں ان کے لیے جواب دینا مشکل ہورہا تھا، اچانک اسی اثناء میں ہال میں ائیرپورٹ اہلکار کی مشینی آواز گونجنے لگی:
’’ مسٹر عقیل عباس جعفری سے د رخواست ہے کہ فلائٹ نمبر فلاں فلاں محض ان ہی کے انتظار میں رکی ہوئی ہے ، براہ کرم جلد پہنچیں‘‘

تقریب کے اختتام پر مچی ہڑبونگ کی وجہ سے ہم جناب مظہر الاسلام کو الوادع بھی نہ کہہ سکے !
 
Top