رضا نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

یوسف سلطان

محفلین
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے
اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اک عالم
گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے

شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی
نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے سے

کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلب
لگایا اب تو بستر آپﷺ ہی کے آستانے سے

نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھے
جو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے

تمہارے تو وہ احساں اور یہ نافرمانیاں اپنی
ہمیں تو شرم آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے

بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روے عاشق پر
کھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے

پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کا
ارے غافل قضا بہتر ہے یاں سے پھر کے جانے سے

بُلا لو اپنے در پر اب تو ہم خانہ بدوشوں کو
پھریں کب تک ذلیل و خوار دَر دَر بے ٹھکانے سے

نہ پہنچے اُن کے قدموں تک نہ کچھ حُسنِ عمل ہی ہے
حَسنؔ کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانے سے

مولانا حَسن رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

 
Top