شہزاد احمد نُور برسا پُھول سے اور خُون برسا سنگ سے۔۔۔۔

نور وجدان

لائبریرین
نُور برسا پُھول سے اور خُون برسا سنگ سے
اہتمامِ فصلِ گُل ہے اپنے اپنے رنگ سے
پا شکستہ ہوں مگر محرومِ ذوقِ دل نہیں
منزلوں کو دیکھ لیتا ہوں کئی فرسنگ سے
مجھ کو آوارہ ہواؤ! ساتھ اپنے لے چلو
میرا جی گھبرا گیا ہے اس جہانِ تنگ سے
محفلِ گُل میں، کوئی تارا ضیاء پھیلا گیا
دیر تک رونق رہی موجِ ہوائے رنگ سے
آخرِ شب یُوں برستے ہیں میری آنکھوں سے اَشک
قطرہ قطرہ ہو کے جیسے خُون ٹپکے سنگ سے
نُور بن کر فضا میں پھیلتا ہے کوئی گیت
راگ بن بن کر جوانی پُھوٹتی ہے چنگ سے
دُور تک گہری اُداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی شہزادؔ گُزرے گی مگر کس ڈھنگ سے

شہزادؔ احمد
 
Top