نفرتوں کا تالاب۔۔

حاتم راجپوت

لائبریرین
پرانے وقتوں کی پیلی جھیل
جھیل محبتوں کی جھیل
اس جھیل کے کناروں پر
پیاری یادوں کے جگنو
ہر دم ٹمٹماتے تھے
میٹھی امیدوں کے
گھنے سے پیڑوں پر
بیٹھی معصوم خواہشوں کی
ننھی ننھی سی چڑیاں
یہاں چہچہاتی تھیں
بھنور خالص جذبوں کے
یہاں ہلکورے لیتے تھے
جھاڑیوں میں کھلے پھول
اور تٹ پہ بکھرے سنگریزے
بس اپنے اپنے لگتے تھے
جھیل کا دامن
ٹھنڈی لہریں
اور چاند کے داغ
جانے کتنی گہری باتیں
پیار سے ہم کو بتا جاتے
اورسبق بہت ہی اونچے سے
بس کھیل میں ہی سکھا جاتے
لیکن پھر کچھ سال کے بعد
ہوا اٹھی اور زور سے نکلی
بستی میں طوفان آیا
شور مچا اور شاخیں ٹوٹیں
جھیل کا دل بھی روٹھ گیا
برسا برس کی پیاس بنی
ساون آیا نہ برکھا برسی
سماں کچھ سہما سہما سا
اور جاتے پنچھیوں کی ڈاریں
جھیل کے گدلے پانی پر
اب کائی سیہ جم جاتی ہے
درختوں کے لاشوں پر
مکھیاں بھنبھناتی ہیں
گرتے پتے اور چٹختی شاخیں
ڈھلتی شام اور کالے سائے
کناروں کی سیاہ مٹی
سناٹا سا، خاموشی سی
چیختے جھینگروں کی آوازیں
دبی دبی سی سسکیاں
جھیل اب کراہتی ہے
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں
کچھ دہراتی جاتی ہے
پرانے وقتوں کی پیلی جھیل
جھیل محبتوں کی جھیل
اب تم اس کے پاس مت آنا
کہ جھیل تو کب کی سوکھ چکی
یہاں اب نفرتوں کا
گاڑھا سرخ تالاب ہے۔۔

از حاتم راجپوت۔
 
Top