نظیر اکبر آبادی

رضوان

محفلین
جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں
پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں
آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں
سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں

جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں

روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا
کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا
ديوار پھاند کر کوئي کوٹھا اچھل گيا
ٹھٹھا ہنسي شراب سنک ساقي اس سوا

سوسو طرح سے دھوم مچاتي ہيں روٹياں

جس جائے پہ يہ ہانڈي، توا اور تنور ہے
خالق کي قدرتوں کا اسي جا ظہور ہے
چولہے کے آگے آنچ جو جلتي حضور ہے
جتنے ہيں نور سب ميں يہي خاص نور ہے

اس نور کے سبب نظر آتي ہيں روٹياں

پوچھا کسي نے يہ کسي کامل فقير سے
يہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہيں کاہے سے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خير دے
ہم تو يہ چاند سمجھيں، نا سورج جانتے

بابا ہميں تو يہ نظر آتي ہيں روٹياں

روٹي نہ پيٹ ميں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
ميلے کي سير خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غريب دل کي خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسي نے بھوکے کے بھجن نہ ہو

اللہ کي بھي ياد دلاتي ہيں روٹياں
 

رضوان

محفلین
دنيا ميں بادشاہ سو ہے وہ بھي آدمي
اور مفلس و گدا سو ہے وہ بھي آدمي
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھي آدمي
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھي آدمي

ٹکڑے چبارہا ہے سو ہے وہ بھي آدمي

ابدال غوث قطب ولي آدمي ہوئے
منکر بھي آدمي ہي ہے اور کفر کے بھرے
کيا کيا کرشمے کشف و کرامات کے کئے
حتي کہ اپنے زور و رياضت کے زور سے

خالق سے جا ملاہے سو ہے وہ بھي آدمي

فرعون نے کيا تھا جو دعوي خدائي کا
شداد بھي بہشت بنا ہوا خدا
نمرود بھي خدا ہي کہلاتا تھا بر ملا
يہ بات ہے سمجھنے کي آگے کہوں ميں کيا

ياں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھي آدمي

مسجد بھي آدمي نے بنائي ہے ياں مياں
بنتے ہيں آدمي ہي امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہيں آدمي ہي قرآں اور نمازياں
اور آدمي ہي ان کي چراتے ہيں جوتياں

جو ان کو تاڑتاہے سو ہے وہ بھي آدمي​
 
Top