نظم

نوید ناظم

محفلین
مُرمّت

ریل کی پٹڑی کہیں جاتی نہیں اب
بند ہے آگے سے یہ
رات کو سیٹی کی اک آواز جو تھی
شُکر ہے اب وہ نہیں ہے
دھوکا پیدا کر دیا کرتی تھی یوں ہی
آرہا ہو جیسے کوئی
دُور سے آواز دیتا
یہ نگاہیں بھی جمی رہتی تھیں اس پٹڑی پہ دن بھر
مجھ کو لگتا تھا کہ اب جو بھی ٹرین آئی یہاں پر
لے کر آئے گی اُسے بھی
پر ٹرینیں تو گزر جاتی تھیں خالی
اور پٹڑی سانپ کے جیسے وہیں بلکھا کے سو جاتی تھی پھر سے
یہ سُنا ہے اِس پہ آگے کام ہونا ہے ذرا سا
میں بھی اِس دوران اب ٹوٹی ہوئی امید کو اک موڑ دوں گا
جلد پٹڑی ٹھیک ہو جائے گی لیکن
انتظار اب میں ٹرینوں کا مکمل چھوڑ دوں گا!

(نوید ناظم وٹو)
 
Top