نظم: وجہِ تخلیق

اس نظم کی اصل خوب صورتی ہی لفظ ٰبھی ٰ میں پنہاں ہے اور یہ اس نظم کا ایک ایسا پہلو ہے جو قدرے نیا ہے، یہ آخری شاٹ تو ہی شاندار تھا میری نظر میں۔
علی وقار صاحب ، آپ کی رائے جان کر خوشی ہوئی . یہاں ’بھی‘ كے استعمال کی واقعی ایک خاص وجہ ہے جس کا ذکر میں نے صریر صاحب کو اپنے جواب میں کیا ہے . میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں کیا خالق کا مقصد ’بھی‘ وہی تھا ؟ لیکن احباب كے پیغامات سے معلوم ہوتا ہے کہ میرا مفہوم صفائی سے ادا نہیں ہوا . میری بات ’بھی‘ كے بغیر بھی کہی جا سکتی ہے ، جیسے ’ کیا میری تخلیق کی یہی وجہ تھی ؟‘ لیکن اِس صورت میں مجھے ایک خالی پن محسوس ہوتا ہے . مجھے لگتاہے کہ ’بھی‘ سے ذہنی الجھن کی جو عکاسی ہوتی ہے ، وہ اِس كے بغیر شاید نہ ہو سکے . بہر حال ، یہاں کچھ اور فکر در کار ہے .
 
علی بھائی یہ دراصل دو الگ الگ باتیں ہیں۔

الف ۔مجھ کو خالق نے بھی تخلیق كے لائق جانا
ب۔ خالق نے مجھ کو بھی تخلیق کے قابل جانا

نظم کی ضرورت اور شاعر کی منشاء غالباً فقرہ دوئم کا مفہوم ہے۔

اور جو مصرع نظم ہوا ہے اس کا مطلب کچھ اور نکل رہا ہے۔
احمد بھائی ، میری منشاء کی ترجمانی آپ كے رقم کردہ پہلے جملے سے ہوتی ہے . لیکن میرا مکمل مفہوم کچھ اِس طرح ہے ’مجھ کو خالق نے بھی ( اسی مقصد كے لیے ) تخلیق كے لائق جانا .‘ یہاں جو ٹکڑا ( ) میں ہے ، وہ میں نے آخری مصرعے سے ٹھیک قبل یوں کہا ہے ’ کیا یہی ہیں وہ منازل جنہیں پانے كے لیے .‘ لیکن لگتا ہے وہ تسلسل میں قاری تک نہیں پہنچا سکا جو نظم کہتے وقت میرے ذہن میں تھا .بہر حال میں اِس پر مزید کام کروں گا .
 
Top