فیض نظم - فرش نومیدی دیدار - فیض احمد فیض

دیکھنے کی تو کسے تاب ھے لیکن اب تک

جب بھی اس راہ سے سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک

ٹوکتی ھے کہ وہ دروازہ کھلا ھے اب بھی

اور اس صحن میں ھر سو یونہی پہلے کی طرح

فرش نومیدی دیدار بچھا ھے اب بھی

اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح

ہاتھ پھیلائے ھوئے بیٹھی ھے فریاد کناں

دل یہ کہتا ھے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں

کوئی دروازہ عبث وا ھو نہ بیکار کوئی

یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ھو

محرم حسرت دیدار ھو دیوار کوئی

نہ کوئی سایہ گل ہجرت گل سے ویراں

یہ بھی کر دیکھا ھے سو بار کہ جب راھوں میں

دیس پردیس کی بے مہر گزر گاھوں میں

قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے

پردہ چشم پہ یوں اترے ھیں بے صورت و رنگ

جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارش سنگ

اور دل کہتا ھے بار چلو لوٹ چلو

اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ھو

یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ھے اب بھی

اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح

فرش نومیدی دیدار بچھا ھے اب بھی
 
Top